حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا، میکسیکو اور چین جیسے بڑے تجارتی شراکت داروں پر بھاری ٹیرف (درآمداتی محصولات) عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، جس سے عالمی منڈیوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔ ان ٹیرفس کا مقصد مبینہ طور پر منشیات کی اسمگلنگ کو روکنا اور تجارت میں توازن پیدا کرنا بتایا جا رہا ہے، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے اثرات نہ صرف ان ممالک تک محدود رہیں گے بلکہ پوری دنیا کی معیشت پر گہرے نقوش چھوڑیں گے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ ٹیرفس کیا ہیں، ان کا عالمی منڈیوں پر کیا اثر ہو رہا ہے، اور پاکستان جیسے ممالک کے لیے اس کے کیا معنی ہو سکتے ہیں۔
ٹرمپ کے ٹیرفس کیا ہیں؟
ٹرمپ نے کینیڈا اور میکسیکو سے درآمدات پر 25 فیصد اور چین سے آنے والی اشیا پر 20 فیصد ٹیرف لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات امریکی معیشت کو مضبوط کریں گے اور ملکی صنعتوں کو تحفظ دیں گے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے آٹوموٹو درآمدات پر بھی 25 فیصد تک ٹیرف کا عندیہ دیا ہے، جو عالمی تجارت کے لیے ایک اور بڑا دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔ ان پالیسیوں کو نافذ کرنے کی وجہ سے کئی ممالک نے جوابی ٹیرفس کا اعلان کیا ہے، جس سے ایک نئی عالمی تجارتی جنگ کا آغاز ہو گیا ہے۔
عالمی منڈیوں پر اثرات
ٹرمپ کے ان اقدامات سے عالمی اسٹاک مارکیٹس میں شدید اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آیا ہے۔ مثال کے طور پر، 4 مارچ 2025 کو امریکی ڈاؤ جونز انڈیکس 670 پوائنٹس تک گر گیا، جبکہ یورپ اور ایشیا کی منڈیاں بھی اس بحران سے متاثر ہوئیں۔ کینیڈا نے 155 بلین ڈالر کی امریکی اشیا پر 25 فیصد ٹیرف لگا دیا، جبکہ چین نے امریکی زرعی مصنوعات جیسے سویا بین اور گوشت پر جوابی محصولات عائد کیے۔ یورپی یونین نے بھی امریکی مصنوعات جیسے بوربن اور موٹر سائیکلوں پر ٹیرفس کا اعلان کیا، جس سے یہ واضح ہو گیا کہ یہ تنازعہ اب صرف چند ممالک تک محدود نہیں رہا۔
ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ ان ٹیرفس سے عالمی معاشی ترقی سست پڑ سکتی ہے اور اشیا کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں۔ امریکی صارفین کے لیے گاڑیوں، الیکٹرانکس اور روزمرہ کی اشیا مہنگی ہو جائیں گی، جبکہ کینیڈا اور میکسیکو جیسے ممالک، جو اپنی معیشت کے بڑے حصے کے لیے امریکی تجارت پر انحصار کرتے ہیں، کو شدید نقصان ہوگا۔ میکسیکو کی معیشت، جو آٹوموبائل اور زراعت پر بہت زیادہ منحصر ہے، کو بلومبرگ کے مطابق 16 فیصد تک سکڑاؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستان کے لیے کیا معنی؟
پاکستان کا براہِ راست امریکی تجارت سے تعلق اتنا گہرا نہیں جتنا کینیڈا یا چین کا ہے، لیکن عالمی منڈیوں میں ہونے والی یہ ہلچل پاکستان کو بالواسطہ طور پر متاثر کر سکتی ہے۔ اگر عالمی معاشی ترقی سست ہوئی تو پاکستانی برآمدات، خاص طور پر ٹیکسٹائل اور زرعی مصنوعات، کی مانگ کم ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور امریکی ڈالر کی مضبوطی پاکستان کے لیے درآمدات کو مہنگا کر سکتی ہے، جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔
دوسری طرف، اگر چین اپنی مصنوعات کے لیے نئی منڈیاں تلاش کرتا ہے تو پاکستان کو سستی چینی اشیا تک رسائی مل سکتی ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ یہ خطرہ بھی ہے کہ چین اپنی پیداوار کو پاکستان جیسے ممالک میں منتقل کرے، جو مقامی صنعتوں کے لیے مقابلہ بڑھا سکتا ہے۔
مستقبل کیا ہوگا؟
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ٹیرفس صرف ایک مذاکراتی حربہ ہیں اور ٹرمپ ان کے ذریعے دوسرے ممالک سے رعایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ تنازعہ جلد ختم ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو عالمی معیشت 1930 کی دہائی کی طرح ایک بڑے تجارتی بحران کی طرف جا سکتی ہے، جیسا کہ اس وقت ہوا تھا جب سموٹ-ہولی ٹیرف ایکٹ نافذ کیا گیا تھا۔
ابھی کے لیے، عالمی منڈیاں غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔ سرمایہ کار محتاط ہو گئے ہیں، اور کاروباری ادارے اپنی سپلائی چینز کو تبدیل کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کو اس صورتحال پر گہری نظر رکھنی ہوگی تاکہ وہ اپنی معیشت کو ممکنہ خطرات سے بچا سکیں۔