پاکستان میں شادی یا دوستی کرنے سے انکار پر مشتعل ہوکر لڑکی پر تیزاب پھینکنے یا قتل کر دینے کے بے شمار واقعات سامنے آتے رہے ہیں اور اب نوجوان ٹک ٹاکر ثناء یوسف کا قتل ذرایع ابلاغ میں زیرِ بحث ہے اس ملک میں غیرت کے نام پر یا شادی اور دوستی کرنے سے انکار پر کسی لڑکی کا قتل تو نئی بات نہیں، لیکن شاید اخلاقی اقدار کے یہ نام نہاد ٹھیکیدار لڑکیوں کو یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ انھیں کیسا یا کس ڈیزائن کا لباس پہننا ہے ورنہ کوئی طیش میں آکر لڑکی پر حملہ بھی کرسکتا ہے اور کوئی اسے روکنے والا نہ ہو گا بلکہ موقع پر موجود لوگوں کی اکثریت بھی لڑکی کو مطعون کررہی ہوگی۔
گزشتہ دنوں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک الم ناک واقعہ پیش آیا جس میں 22 سالہ نوجوان نے دوستی سے انکار کرنے پر ایک سوشل میڈیا انفلوئنسر کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مقتول ٹک ٹاکر ثنا یوسف کی عمر 17 برس تھی۔
کیس کا پس منظر
2 جون کو عمر حیات عرف ‘کاکا’ نے ٹک ٹاکر کو گھر میں گھس کر گولی مار دی۔ ثنا یوسف کے قتل کا مقدمہ ان کی والدہ کی مدعیت میں درج کیا گیا اور قاتل کو اسلام آباد پولیس نے گرفتار کرلیا۔
آئی جی اسلام آباد سید علی ناصر رضوی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ”ملزم فیصل آباد کا رہائشی 22 سالہ عمر، میٹرک پاس طالب علم ہے جو سوشل میڈیا پر پروموشن کے ذریعے پیسے کماتا ہے۔ ملزم عمر کا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے اور اس کے والد ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں۔“
ملزم سوشل میڈیا انفلوئنسر ثنا یوسف سے دوستی کا خواہش مند تھا۔ اس نے کئی بار ثنا یوسف کو دوستی کا پیغام دیا، مگر ثنا کی جانب سے ہر بار انکار کیا گیا۔ مسلسل اصرار کے باوجود جب ملزم کی خواہش پوری نہ ہوئی تو وہ مشتعل ہوگیا اور ثنا یوسف کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ اس سے قبل عمر حیات مقتول ٹک ٹاکر کے گھر آیا لیکن آٹھ گھنٹوں تک انتظار کے باوجود اس سے ملاقات نہیں کرسکا۔ 29 مئی کو ثنا کی سال گرہ تھی۔ اس روز بھی ملزم نے ثنا یوسف ملاقات کرنے کی کوشش کی لیکن اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ واقعہ کے روز بھی وہ اس لڑکی سے ملاقات چاہتا تھا، لیکن ناکامی پر ٹک ٹاکر کے گھر میں داخل ہوگیا اور اسے قتل کر دیا۔
دوستی سے انکار نے نوجوان عمر حیات کا خون ایسا جلایا کہ وہ جلّاد بن گیا۔ عمر حیات کا دل دماغ ایک لڑکی کے انکار کو قبول نہ کرسکا۔ شاید اسے اپنی ہتک محسوس ہوئی اور اسی سوچ اور انتقامی جذبے کے تحت اس نے ایک اندوہِ سماعت جرم کا ارتکاب کیا۔ “تُو مجھے کیسے ٹھکرا سکتی ہے….تُو نے مجھے انکار کیسے کیا…. اس کا مزہ بھی تجھے چکھنا ہوگا…. میں تجھے ابھی بتاتا ہوں….. یہ وہی سوچ ہے جس میں شادی سے انکار پر لڑکی کو اٹھا لیا جاتا ہے یا قتل کر دیا جاتا ہے۔ یہ وہی سوچ ہے جس کے زیرِ اثر ایک مرد دوستی کرنے یا بات کرنے سے انکار پر کسی لڑکی پر تیزاب پھینک دیتا ہے یا پھر وہ غیرت کے نام پر قتل کردی جاتی ہے اور اس طرح کے سنگین جرائم کے بعد مذمتی بیانات کا انبار لگا دیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی کسی واقعے کی بازگشت چند روز تک سنائی دیتی ہے اور پھر ایک اور ایسا ہی واقعہ رونما ہو جاتا ہے۔ حکومت اور ادارے ان واقعات کی روک تھام میں ناکام نظر آتے ہیں۔
اشتعال انگیزی اور قتل کے چند حالیہ واقعات
گزشتہ سال 5 ستمبر کو صوبہ خیبرپختوخوا میں ایک اسکول ٹیچر نرگس کو بااثر مقامی شخص نے شادی کی پیشکش قبول نہ کرنے کے بعد گولی مار دی تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بااثر شخص مقتولہ کو کافی عرصہ سے ہراساں کررہا تھا اور اس پر شادی کے لیے دباؤ ڈالتا تھا اور پھر ”وہ اگر میری نہیں تو کسی کی نہیں ہوسکتی…” کے جنون میں اس نے ایک عورت کو قتل کردیا۔
حال ہی میں 16 مارچ 2025 کو پنجاب کے شہر ساہیوال کے محلّہ نور پارک میں شادی سے انکار کرنے پر لڑکی کو قتل کر دیا گیا۔ لڑکی اور اس کی والدہ کے انکار پر ملزم نے اشتعال میں آکر لڑکی کی جان لے لی۔ 7 اپریل 2025 کو لاڑکانہ میں بھی ایک ایسا ہی افسوس ناک واقعہ پیش آیا تھا جہاں پولیس اہلکار نے ایک ٹیچر کو اپنی انا کی بھینٹ چڑھا دیا تھا۔
ثنا یوسف کیس اور سوشل میڈیا
اسلام آباد میں 17 سالہ ثنا یوسف کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر مجھے بھی مختلف مباحث اور لوگوں کے خیالات جاننے کا موقع ملا اوران میں بعض تبصرے اُسی سوچ کو تقویت دے رہے تھے جن کا اظہار ایسے واقعات کے بعد گرفتار ہونے والے اکثر ملزمین نے کیا تھا۔ ایک صارف نے لکھا، “جب آپ اپنی ذاتی زندگی اور پرائیویسی کو لمحہ بہ لمحہ بیچ چوراہے میں رکھ دیں گے تو حادثات کا رسک بڑھ جائے گا۔”
پاکستان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والی کئی نوجوان لڑکیاں شوقیہ اور اکثر بسلسلۂ روزگار سوشل میڈیا پر متحرک ہیں۔ ان میں کمپنیوں کو پیشہ ورانہ مہارت کے زور پر خدمات فراہم کرنے والی لڑکیوں کے علاوہ ایسی لڑکیاں بھی شامل ہیں جنھیں سوشل میڈیا انفلوئنسر کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ تو کیا اس معاشرے میں واقعی ان سب لڑکیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں؟
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں جنوری سے نومبر تک 392 خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوئیں، ان میں سے پنجاب میں 168، سندھ میں 151، خیبر پختونخوا میں 52، بلوچستان میں 19 جب کہ اسلام آباد سے دو کیس رپورٹ ہوئے۔
ملٹی میڈیا پریکٹیشنر کی رائے
عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی ثوبیہ سلیم کی نظر میں ثنا یوسف کا قتل نہ صرف دل دوز ہے بلکہ یہ ہمارے معاشرے میں عورتوں پر بڑھتے ہوئے تشدد کی ایک اور بدترین مثال ہے۔ اگرچہ پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے قاتل کو گرفتار کر لیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف گرفتاری کافی ہے؟ ہمیں اپنے قانونی نظام، سماجی رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے تعلیمی اداروں سے آغاز کیا جاسکتا ہے جس سے خواتین کا تحفظ ممکن ہے۔
یہ سلسلہ کیسے رکے گا؟
یہ واقعہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ ثنا کا قتل محض ایک شخص کا جرم نہیں بلکہ ایک سوچ کا نتیجہ ہے جو عورت کی آزادی، اس کی خواہش اور خود مختاری کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ سوشل میڈیا پر پہچان بنانے والی ہر لڑکی اب خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے۔ہمیں معاشرے کے ہر فرد بالخصوص نوجوانوں کو سکھانا ہوگا کہ انکار ایک لڑکی کا حق ہے، اس کے جواب میں ایک لڑکی کو ہراساں کرنا، دھمکی دینا، یا کسی قسم کا تشدد نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی رائے کا احترام کرنا ہوگا اور فوری جذباتی ردعمل سے گریز کرنا چاہیے۔
پاکستان میں عورتوں پر تشدد اور قتل کے واقعات کی فہرست طویل ہے اور مخصوص سوچ کے تحت انتہائی قدم اٹھانے یا اشتعال انگیزی کے نتیجے میں قتل کا یہ سلسلہ اُس وقت تک نہیں رکے گا جب تک ریاستی سطح پر مؤثر اور سخت سزاؤں کا نفاذ نہیں کیا جاتا۔ دوسری طرف والدین بالخصوص بیٹوں کی تربیت کرتے ہوئے انھیں یہ سکھائیں کہ وہ اپنی خواہش اور اپنی کسی آرزو کا اظہار ضرور کرسکتے ہیں۔ لیکن اپنی بات منوانے کے لیے کسی پر جسمانی یا ذہنی تشدد نہیں کیا جاسکتا بلکہ غصہ اور اشتعال انگیزی آپ کے لیے ہی نہیں آپ کے کنبے کو بھی مشکل سے دوچار کرسکتی ہے۔ بلاشبہ اس سلسلے میں آگاہی اور شعور اجاگر کرنے کے لیے حکومتی سطح پر کوششوں کے ساتھ ساتھ والدین کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔
ثنا یوسف کیس: فلم و ٹی وی پر تشدد کی تمجید اور اس کے مہلک اثرات