بچپن سے مختلف وقتوں میں مساجد اور علماءسے سنتے آرہے ہیں کہ کشمیر میں بھارت ملوث ہے اور بھارت کو پیسے اوراسلحہ اسرائیل فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی سُنا کہ دیگر مسلمان ممالک میں ہونے والے مظالم کے پیچھے بھی کا ہاتھ ہے۔ اسرائیل ہمارا دشمن ہے ۔ مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان اسرائیل نے پہنچایا۔ وہ مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف رہا ہے۔ گویا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے پیچھے اسرائیلی یہودی کا ہاتھ ہے۔ہراُس کام کے بعد جس کا دنیا سے تعلق ہوتا کرنے کے بعد معزز مذہبی گروہ کے لوگوں سے سنتے تھے کہ یہ یہودی سازش ہے۔ پتلون، شرٹ ، ہفتہ، اتوار چھٹی گویا سب ہی یہودی سازش ہے۔
بے چارے پاکستان کے مسلمان ان تقریروں کے باعث یہی سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہر ظلم کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ
ہے۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد اکثر رسالوں اور جہادی اخباروں میں ایک خبر نشر ہوئی اور یہی بات بارہا دفعہ ممبررسول سے بھی سُنائی دی کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے پیچھے یہودیوں کا ہاتھ ہے۔ جس روز 11 ستمبر کو یہ سانحہ ہوا اُس روز اس بلڈنگ میں کام کرنے والے تمام یہودی چھٹی پر تھے۔ پھر امریکہ نے افغانستان پر چڑہائی کردی تو اسکے بعد اِس سانحہ کو قران سے ثابت کرنے میں مصروف ہوگئے اور ممبر رسول سے قرآن مجید کو سامنے رکھتے ہوئے اسطرح کی کہانیوں کو اپنے دروس کی زینت بناتے کہ یہ واقعہ 11-09-2001 کو پیش آیا اور اسکا مطلب ہے کہ سورة التوبہ کا 9نمبر ہے 11ویں سپارے میں یہ صورت موجود ہے اور اس میں بڑی بڑی عمارتوں کے گرنے کا ذکر ہے ۔ ان کے گرنے کے بعد مسلمان کفار پر غالب آجائیں گے لیکن صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی اور افغانستان میں دوسری پراکسی وار شروع ہونے کے بعدپاکستان سے نوجوان لڑکوں کو جہاد کے لئے بھیجا گیا۔اب یہ دعوے کئے جاتے ہیں کہ افغانستان جنگ میں شکست کے بعد واپس جارہا ہے اور اسکی کامیابی کا سہرا اپنے سر لیا جاتاہے۔ بالکل اسی طرح عراق، شام، مصر اور تیونس میں بھی نوجوانوں کو جہاد کے نام پر بھیجا گیا ۔ ان میں سے بہت سارے بلکہ اکثر نوجوان اپنے گھروں سے بغیر اجازت سفر جہاد پر روانہ ہوگئے۔ ان میں سے کئی تو مارے گئے اور کچھ نے واپسی کر لی۔ یہی کچھ حال
کشمیر کے حوالے سے بھی دیکھنے میں آیا ۔ تقسیم کے بعد سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تلخیوں کی سب سے بڑی وجہ کشمیر ہے ۔ جو دونوں کے لئے انا کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔
اسرائیل براہ راست فلسطین کی جنگ میں ملوث ہے ۔ اہلیان غزہ پر وحشیانہ بمباری کر کے ہزاروں فلسطینوں کو
شہید اور لاکھوں کو زخمی کر چکا ہے۔ یہ بمباری یا مظالم کل یا پرسوں نہیں بلکہ کئی برسوں سے چلے آرہے ہیں۔ جب ان تصاویر کو دیکھو تو آنکھیں نہ چاہتے ہوئے بھی اشکبار ہوجاتی ہیں۔ اسرائیل ( یہودی) اور فلسطینی مسلمانوں کے درمیان جنگ کا سبب بیت المقدس ہے ۔ جو ہر مسلمان کے لئے بہت قابل احترام جگہ ہے ۔ یہودیوں کابھی اس جگہ کے لئے یہی احترام ہے۔
اسلامی دنیا میں اسرائیلی بمباری اور مظالم کے خلاف مذمتی بیانوں کا خیال تب ہی آتا ہے جب اسرائیل کی طرف سے جنگ بند ی کا اعلان ہوتا ہے۔
فلسطین پر بمباری کا سلسلہ شروع ہوا تو شہر کراچی سمیت دیگر پاکستان کے شہروں کی مساجد میں ماضی کی
طرح غزہ کے نام پر چندا اکٹھا ہونے لگا۔صرف حسب عادت فلسطینوں سے حمایت جلوس اور ریلیاں نکالی گئی ۔ جن کے لئے ماضی میں یہ کہا جاتا رہا ہے ریلیاں جلوس اور قراردادیں وہ قومیں پیش کرتی ہیں جنکے ہاتھ شل (کمزور) ہوجاتے ہیں جو اسلحہ اٹھانے کے قابل نہیں رہتے۔ میرے خیال میں
یہ بات صرف فلسطین کے لئے ہے باقی تو ہم ہر جگہ حصہ بنتے رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں جماعت اسلامی کے تحت کراچی میں ایک ریلی کا انعقاد کیا ۔ جس میں خلاف توقع قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے پیپلزپارٹی جو کہ لبرل جماعت مانی جاتی ہے شرکت کی اور خطاب کیا ۔ اسکے علاوہ تمام فقوں
کے مختلف مقرروں نے اپنی تقاریر میں مسلمانوں اور اہل فلسطین کو مظلوم ، بے چارہ بے کس اور بھر پور
کوشش کی ۔مدرسے کے طالب علموں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس ملین مارچ میں مختلف مذہبی جماعتوں کی شرکت کی نشاندہی انکے جھنڈوں سے تو ہورہی تھی لیکن پاکستان کا ایک جھنڈا موجود نہ تھا۔ اتفاق کہیہ یا قسمت 14اگست سے پرامن کراچی میں ایک بار پھر قتل و غارت گیری شروع ہوگئی جس میں
5افراد جان کی بازی ہار گئے۔ جماعت اسلامی جس کا ماضی جہاد سے بھرا ہوا ہے اس نے اس ریلی کے بینر پر دئیے گئے اشتہار میں ایک چیز واضحلکھی کہ “ہم غزہ نہیں جاسکتے تو شارع فیصل جائینگے”.جسکو پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں کئی سوالات پیدا ہوگئے جو اگلی تحریر میں سامنے ہونگے۔
(جاری ہے )