گو کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کا انقلابی ایجنڈا کافی وضاحت طلب ہے مگروہ عمران خان کے ایک یا دو نکاتی ایجنڈا سے زیادہ بہتر محسوس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر عمران خان کا سارا فوکس دھاندلی، صاف شفاف انتخابات اور الیکشن کمیشن کی تبدیلی پر مرکوز ہے ایسے میں ان کے پاس اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ افتخار چوہدری کے جانے کے بعد عدلیہ مکمل طور پر غیر جانبدار یا پاک ہو کرایک مثالی عدلیہ بن چکی ہے؟موجودہ نظام عدل اور دستور پاکستان کے حوالے سے سپریم کورٹ تو ہمیشہ سپریم ہی رہے گی توپھر اس بات کی بھی کیاگارنٹی ہے کہ آئندہ کبھی کوئی چیف جسٹس الیکشن کمیشن کے معاملات میں مداخلت نہیں کریگا؟افتخار چوہدری بحیثیت چیف جسٹس سپریم کورٹ جو راستہ دکھاگئے ہیں اس کے اندھیرے میں آج نہیں تو کل پھر کوئی ایسا چیف جسٹس آ سکتا ہے جو اس بد مست ہاتھی کی بے انتہا طاقت کا ناجائز استعمال پھر سے شروع کر دے۔اس طاقت کے ناجائز استعمال کو کون کیسے روکے گا؟۔
ہمارے دستور میں کسی بھی چیف جسٹس کو ہٹانے کی کوئی دستوری نظیر موجود نہیں ما سوائے اس کے کہ جب بڑا ہاتھی چھوٹے ہاتھیوں کو دستور سمیت گھر بھیج دیتا ہے۔ان حالات میں آپ محض الیکشن کمیشن سے تمام توقعات کیسے وابستہ کر سکتے ہیں؟ تھوڑے دن پہلے تحریک انصاف کے ہی ایک ایم این اے علی خان صاحب یہ فرما رہے تھے کہ ان کی جماعت کے ایک ایم این اے کو ساٹھ ہزار ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے ستر لاکھ روپے درکار تھے جو انھوں نے چندہ جمع کر کے پورے کئےتو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مہنگے نظام عدل سے آپ کیا توقعات وابستہ کر سکتے ہو؟ جو بندہ ستر لاکھ دے کر دوبارہ گنتی کی درخواست دے رہا ہے اگر اسے انصاف مل بھی جائے تو وہ اس انصاف کے ملنے کے بعد کیا ایمانداری دکھائے گا؟جہاں محض ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے ستر لاکھ روپے درکار ہوں وہاں عوام کی حکمرانی کیسے ممکن ہے؟جمہور کا لیڈر ستر لاکھ سے کم حیثیت کا مالک نہ ہو اس سے زیادہ جمہوریت کی اور کیا توہین ہوگی؟اس سے زیادہ عدل کی کیا توہین ہوگی؟میرے خیال میں تو ایسا عدل اور دستورخود ایک توہین سمجھا جائے گا جو اس طرح کی شرط رکھے گا۔
میڈیا سے لے کرہر سطحی سوچ کا مالک پاکستانی ہر وقت کرپشن کا راگ الاپتا رہتا ہے مگر یہ کوئی نہیں سوچتا کہ اس کی جڑیں کہاں سے شروع ہوتی ہیں۔نظام عدل کی کمزوری نظام کی بنیادی ترین خرابیوں میں سے ایک ہے جو پاکستان میں کرپشن کے سورج کو کبھی غروب نہیں ہونے دیتی۔اراکین الیکشن کمیشن کتنے ہی غیر جانبدار کیوں نہ ہوں لیکن وہ کوئی ولی پیغمبر تو نہ ہونگے۔یہاں دلوں کے حال کون جانتا ہے؟کیا بھٹو صاحب نے ضیاءکو آرمی چیف بناتے ہوئے سوچا تھا کہ وہ انھیں تختہ دار تک لے جائے گا؟ کیا میاں صاحب نے مشرف کے بارے میں سوچا تھا کہ وہ انھیں ملک سے ہی نکال دے گا؟کیا خود جنرل مشرف نے یہ سوچا تھا کہ محترمہ اور شریف برادران کو واپسی کی اجازت دینے اوردرجنوں نیوز چینلز کولائسنس اور ڈھیر ساری آزادی دینے کے بعد اس کے ساتھ یہ سب کچھ ہوگا؟بہترنظام کی جڑیں کسی فرد کے ساتھ نہیں بلکہ طاقت ورترین اداروں میں پنہاں ہوتی ہیں لہٰذا اداروں میں اصلاح کے بغیر بہتری کی کوئی گنجائش اورکوئی اُمید نہیں نکلتی۔اسی وجہ سے خان صاحب کے موجودہ مطالبات سے کسی تبدیلی یا نئے پاکستان کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
طاہرالقادری کا ایجنڈا نظام عدل اور سستے انصاف کے حوالے سے نسبتا زیادہ واضع محسوس ہوتا ہے۔تاہم وہ بھی یہ واضع نہیں کرپاتے کہ موجودہ اعلی عدلیہ اور اس کے ججوں کے ساتھ یہ خواب کیسے ممکن ہے؟جبکہ افتخار چوہدری صاحب اپنی رخصتی سے پہلے بہت سے پسندیدہ افراد کو اعلی عدلیہ کا حصہ بنا گئے ہیں۔
علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری پر معروف الزامات کچھ اس طرح کے ہیں۔”طاہرالقادری جھوٹ بہت بولتے ہیں“تو کیا میاں برادران اور دیگر سیاسی و مذہبی قیادت جھوٹ نہیں بولتی؟”طاہرالقادری لالچی ہیں “ کیا دیگر سیاسی و مذہبی قیادت لالچی نہیں ہے؟رہی بات قادری صاحب سے کوئی بڑی اُمید رکھنے کی تو وہ یقینا درست نہ ہوگی۔ وہ ایک مخصوس مذہبی فکر کے ترجمان ہیں اور مولوی کے لیبل کے نیچے پاکستان میں کبھی بھی مقبول سیاسی قیادت کے طور پر سامنے نہیں آسکتے۔تاہم اتنا ضرور ہے کہ وہ ریاست کے بعض بڑے معروف اور مقتول طبقات کی آواز بن کر ابھرے ہیں۔میرے نزدیک یہ ان کی بڑی کاوش ہے جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی کیونکہ ریاست یا ریاستی ادارے ان مظلوم طبقات کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہے بلکہ وہ اُلٹا ایسے گروہوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ملوث ہیں کہ جو ان مظلوم طبقات کے قتل میں شامل ہیں۔
اگر کسی میں تھوڑی سی بھی معاملہ فہمی ہو تووہ بآسانی یہ حقیقت جان سکتا ہے کہ حکیم اللہ محسود کو شہید ماننے والی جماعت اسلامی اب دستور کی باتیں کیوں کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی حکومت اور تحریک انصاف میں مفاہمتی کردار ادا کرنے کے لیے کیوں تیار ہو گئی ہے؟ کارکن عوامی تحریک کے مارے جا رہے ہیں مگر جماعت کی مفاہمتی کوششیں صرف تحریک انصاف اور حکومت تک محدود ہیں۔اس متعصب معاشرے کی ہر بدبودار گہرائی میں کہیں نہ کہیں فرقہ واریت کا سامنا ضرور ہوتا ہے۔ ہمارا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہم دوسرے کو جانے بغیریا آدھی بات سن کر حمایت یا مخالفت شروع کر دیتے ہیں ۔تحقیق کے بغیر لوگوں کو مکمل ہیرو یا ولن مان لیتے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ پاکستان کی اکثریت کو افتخار چوہدری کی حمایت پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور اسی طرح سے آصف زرداری کی حد سے زیادہ غیر معقول مخالفت بھی بہت سے لوگوں کے لیے شرمندگی کا باعث بنی۔دوسری طرف ہمارے روشن خیال طبقات کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک طرف تو ہر طرح کے مولوی کو نفرت و معاشرتی برائی کا استعارہ تعبیر کرتے ہیں۔ مگر دوسری طرف اسے مذہب کا ٹھیکیدار سمجھتے ہوئے اس سے پیغمبرانہ صفات کے متقاضی نظر آتے ہیں۔قادری صاحب نے آج تک مولویوں والی بات نہیں کی۔وہ اسی بے دست و پا دستور کے حوالے دیتے ہیں۔انھوں نے کبھی اپنی پسند کی شریعت کے نفاذ کا بھی نہیں کہا۔ان کے مذہبی چہرے سے ہٹ کر وہ تمام پاکستانی مولویوں یا ان سیاستدونوں سے بہتر ہی محسوس ہوتے ہیں کہ جو آج تک یو ٹیوب پر پابندی بھی ختم نہیں کرسکے۔ پاکستان کا دستور اور ریاست ہمیشہ ہی ایک دوسرے کو دھوکہ دینے میں مصروف رہتے ہیں۔ہاں ان کا باسٹھ تریسٹھ جیسی غیر حقیقی شق پر عملدرآمد کا مطالبہ زمینی حقائق کے منافی تھااوراس پر وہ خودبھی شاید پورے نہیں اتر سکتے۔لیکن کیا کسی نے باسٹھ تریسٹھ جیسی غیر حقیقی شق پر عمل کیا یا کروایا؟ کیا اٹھارہویں ترمیم پاس کروانے والوں نے جنرل ضیا کی ڈلوائی ہوئی اس شق کوختم کرنے کی کوشش کی؟اگر باسٹھ ،تریسٹھ درست ہے تو اس پر عمل کرو نہیں تو اس کو باہر کرو یہ منافقت اور جھوٹ کا رویہ اور پھر آئین کی پاسداری کے دعوے۔ یہ سب کیا ہے؟
دوسری طرف بعض لبرل اور جمہوریت پسندلوگ طاہرالقادری کے تازہ بیانات کے بعد ان کے لیے طرح طرح کی سزائیں تجویز کر رہے ہیں۔میرا ان سب سے سوال ہے کہ آج تک آپ نے مولانا صوفی محمد اور مولانا عبدالعزیز جیسے لوگوں کا کیا بگاڑ لیا ہے جو آپ طاہرالقادری کو مجرم گردان کر سزا کی سفارشات مرتب کر رہے ہیں؟آپ کون سے آئین اور کیسی جمہوریت کی بات کر رہے ہیں؟ایک فکر کے لوگ گزشتہ تین دھائیوں سے ریاست کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں ،ان کے مدرسوں میں ہر طرح کے جہادی تیار ہوتے ہیں۔ ایکسپورٹ بھی ہوتے ہیں اور ملک میں بھی کام آتے ہیں۔اس بیمار ریاست اور اس کے اپاہج دستور نے کیا بگاڑ لیا؟ کیا ریاست نے حکیم اللہ محسودکو شہید کہنے والے منور حسن پر غداری کا مقدمہ دائر کر دیا؟ہم اتنے اندھے کانے اور متعصب کیوں ہیں کہ ہم انصاف کو برابری اور غیر جانبداری کی آنکھوں سے دیکھ ہی نہیں پاتے؟ہمیں عمران خان یا طاہرالقادری کے طرز سیاست یا دیگر نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ وہ کہہ کیا رہے ہیں۔