نذیر ناجی کے نام ۔۔۔۔۔۔
سانحہ پشاور میں زخمی ہونے والے ایک بچے کا بیان ’’انھوں نے کہا آرمی والوں کے بچے ایک طرف ہو جائیں انھیں ہمکچھ نہیں کہیں گے جب بچے ایک طرف ہوگئے تو ان پرگولیوں کی بوچھاڑ کردی گئی”، بچے تو بچے ہوتے ہیں چاہے وہ کسی فوجی کے ہوں یا سویلین کے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں آج بھی سانحہ پشاور کی یاد میں شمعیں روشن کی جا رہی ہیں انسان اورانسانیت آج بھی سوگوار ہے تو پھراسے چھپانے میں کیا مصلحت تھی؟ ایک سو ساٹھ سے اوپر شہدا میں سے ایک سو چالیس سے اوپر بچے تھے مگر میڈیا صرف دس بارہ گھرانوں کے تاثرات لینے تک محدود رہا۔ اس ریاست نے تمام عمر جرم چھپانے کے لیے بے مقصد جھوٹ بولے۔ کیا یہ جھوٹ محض حمید گل جیسے طالبان کے حمایتیوں کو شرمندگی سے بچانے کے لیے بولا گیا؟ افسوس صرف میڈیا کے کردار پرنہیں جو محض چودہ دن بعد ہیدنیا بھرکی نیو ایئرنائٹ کی آتش بازی دکھاتا رہا بلکہ مجھے قوم کے اس حصے سے بھی گلہ ہے جو نئے سال پر خوشیاں مناتے رہے، ہوائی فائرنگ، آتش بازی اور ڈھول بجاتے رہے۔ گزشتہ سال میں ہم نے ایسا کیا کیا تھا جو ہم نیا سال منا رہے تھے؟
سانحہ پشاور کے فوری بعد 16 دسمبر 2014 کو ہی میں نے سوشل میڈیا پر ایک مختصر نوٹ لکھا جس کا متن کچھ اس طرح تھا:
’’آج کے بعد سولہ دسمبر کو سقوط ڈھاکہ سے نہیں سانحہ پشاور کی نسبت سے یاد کیا جانا چاہیے۔ شہید بچوں کی یادگار تعمیر کرکے اس پربچوں کے ناموں کے ساتھ تصاویر لگائی جائیں۔ آخر میں واقعہ کی پوری تفصیل لکھی جائےجس میں دہشت گردی کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم کا نام بھی لکھا جائے اوراگر ممکن ہو تو اس کی فکری وابستگی بھی ظاہرکی جائے تاکہ اسلام کے جھوٹے دعویداروں اورٹھیکیداروں کو اپنے لوگوں کی درندگی یاد رہے اور مستقبل میں وہ اپنے جرائم کا الزام دوسروں پرنہ ڈال سکیں‘‘۔
سوشل میڈیا پران تجاویز کو کافی پذیرائی ملی میرے مختصر سے سرکل میں اسے سینکڑوں لوگوں نے شئیر کیا تاہم چند روز پہلے ناجی صاحب کا ’مینار شہدا‘کے عنوان سے کالم پڑھنے کو ملا، کالم جو اسی حوالے سے تھا پڑھ کر محسوس ہوا کہ اپنی سوشل میڈیا والی پوسٹ میں کچھ اور تجاویز شامل کر کے اسے کالم کی شکل میں پیش کیا جائے تاکہ یہ تمام تجاویز اربابِ اختیار تک پہنچ سکیں۔ میں نہیں جانتا کہ ناجی صاحب کا فیس بک اکاوٗنٹ کون آپریٹ کررہا ہے تاہم اس پران کا پروفائل موجود ہے جو کہ میرے دوستوں کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ اس پروفائل پراکثران کے تازہ کالم شٗیر کیے جاتے ہیں اور مندرجہ بالا تجاویز والی پوسٹ میں نے انھیں بھی ٹیگ کی تھی تاہم ناجی صاحب کے کالم میں لنکن میموریل کے زیرسایہ تعمیر شدہ دیواروں کی مثال اوران کے اپنے اخبار کے کالم نویس محترم امیر حمزہ کا حوالہ تو موجود تھا مگر میری اس پوسٹ کا ذکر نہیں تھا اس کے علاوہ انھوں نے اپنے کالم کو بچوں کے علاوہ فوجی اور دیگر شہدا کی یادگار تک پھیلا دیا تھا۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ یہ شہادتیں اپنی نوعیت کے اعتبار سے فوجی شہدا سے بہت مختلف ہیں لہذا ان پر بات بھی الگ سے ہونی چاہیے۔ بحرحال ناجی صاحب میرے اکلوتے پسندیدہ کالم نویس ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ انھوں نے اپنے پراثر معتبر قلم سے یہ گزارشات پیش کیں۔ مجھے ناجی صاحب کی زیارت اور ملاقات کا ہمیشہ سے بہت شوق رہا ہے مگر بدقسمتی سے خواہش کے باوجو کبھی مل نہیں سکا کہ ان سے ملنا صدرِپاکستان اور وزیرِاعظم سے بھی شاید زیادہ مشکل ہے۔ صدراوروزیراعظم تو پھرعوام الناس سے ملنے پرمجبور کئے جا سکتے ہیں مگر انھیں کوئی مجبور بھی نہیں کرسکتا کہ یہ پبلک سرونٹ بھی نہیں ہیں۔
بہرحال میری اس پوسٹ کو جہاں سینکڑوں لوگوں نے شیئر کیا وہیں کسی دوست نے اس پر یہ اعتراض بھی اٹھایا کہ سقوط ڈھاکہ سانحہ پشاور سے بڑا واقعہ تھا۔ سقوط ڈھاکہ کے لحاظ سے دو باتیں اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب سقوط ڈھاکہ ہوا تو اس وقت میں اورمیری نسل کے اکثر لوگ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے تو وہ ان کے لیے کافی حد تک غیرمتعلقہ ہے۔ اسکے علاوہ نئی نسل کے لیے سقوط ڈھاکہ شاید وہ درد اور احساس پیش نہیں کر سکتا جو سانحہ پشاور میں پاکستان کے عوام نے محسوس کیا۔ دوسری اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان بنگلہ دیش کی آزاد حیثیت کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر چکا ہے لہذا یہ ایک غیراخلاقی بات محسوس ہوتی ہے کہ آپ ایک آزاد ریاست کے یوم آزادی کو سوگ کے طور پرمنائیں۔
ناجی صاحب نے اپنی کالم میں شہدا کی یادگار پر صرف بچوں کے نام لکھنے کو کہا ہے جبکہ میرا خیال ہے کہ یہاں تصاویر کے بغیر نام لکھنا اس سانحہ کے کرب کو بھلانے والی بات ہوگی بچوں کی تصویریں لگی ہونگی تو اس سانحہ کا درد، کرب، دکھ اور بعض لوگوں کے لیے طالبان کی حمایت کا احساس جرم تاحشر زندہ رہے گا۔ ویسے بھی رات کے واقعہ کو صبح تک بھول جانے والوں کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف ان بچوں کے معصوم چہروں والی تصویریں ہمیشہ نظر آتی رہیں بلکہ تصویروں کے ساتھ بچوں کی عمریں اور ان کے والدین کے تاثرات پر مبنی ایک نوٹ بھی لکھوا کرلگایا جائے اوراگرممکن ہو تو یادگار کے ساتھہ ہی شہدا گیلری بھی بنائی جائے جس میں بچوں کے خون آلود یونیفارم رکھے جائیں، ان کے سکول ورک میں سے کچھ منتخب کام اس کے ساتھ ڈسپلے کیا جائے۔ اسی شہدا گیلری میں کسی بڑے آرٹسٹ سے بہت بڑا میورل بنوایا جائے جس میں حملے کی منظر کشی کی جائے کہ اس درد کا زندہ رہنا ہی اب اس قوم کی زندگی بن سکتا ہے۔
ناجی صاحب نے اس یادگار کو تعمیر کرنے کا کام عمران خان کے سپرد کرنے کو کہا ہے اورواضح طور پر لکھا ہے کہ اس میں کسی کی حرام کمائی کا پیسہ شامل نہیں ہونا چاہیے۔ حرام کے پیسے کی حد تک میں ان سے متفق ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ نواز، عمران، فضل الرحمن اور سراج الحق یا کسی بھی اسے شخص کو اس یادگار کی تعمیر کے کام میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے جو ماضی میں طالبان کا اپالوجسٹ رہا ہو۔ پاکستان میں اے این پی، پیپلز پارٹی اور سول سوسائٹی کے ایسے بے شمار صاف ستھرے لوگ موجود ہیں جو طالبان کے حق میں اس وقت بھی نہیں تھے جب برائے نام افغان جہاد لڑا جا رہا تھا۔ میری رائے میں یادگار کا نام’یادگار شہدا‘کے بجائے’یادگار شہید گلاب‘ہونا چاہیے۔
باقی موجودہ حالات میں پاکستان کو موٹرویز سے زیادہ دہشت گردوں کے لیے جدید اورسپیشل جیلوں کی ضرورت ہے جہاں دہشت گردوں کو الگ الگ سیل میں بند کیا جائے جہاں انھیں موبائل فون اور ملاقاتوں کی سہولت میسرنہ ہو اورسزا واقعی سزا لگے۔ فوجی عدالتوں کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جو فوجی جج دہشت گردوں کے خلاف فیصلے دیں گے ان کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ پہلے ہی بہت سے قیمتی جوان اور فوجی افسر دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں لہذا ان جدید جیلوں میں بھی سپیشل کورٹ اور کیمرہ ٹرائل کی سہولت ہونی چاہیے۔