فیس بک پرنازک سی موٹی موٹی آنکھوں والی، مغربی ملبوسات میں پوز لیتی گورے گورے ہاتھوں والی ’ہیر‘نامی ماہ جبین عاشق کو بلاوجہ ایڈ کر لیتی ہے۔ ٹوئیٹر پروہ اپنے آپ کو رپورٹر اورصحافی لکھتی ہے۔ رنگ برنگے کھانوں کی تصاویراپ لوڈ کرتی ہے خاص کر فاسٹ فوڈ، چاکلیٹ ملک، کیک وغیرہ۔ پھرموبائل نمبروں کا تبادلہ ہوتا ہے،سکائپ پرگھنٹوں باتیں اور پھر عاشق کے بن بلائے خود کو دعوت دیتی دبئی کا ٹکٹ منگواتی ہے۔
دبئی میں برانڈڈ اشیاء کی شاپنگ، روز پانچ چھ نئے کپڑوں کے جوڑے اوردو چار شوز، ایپل کا میک بک، آئی فون، گولڈ کا ہار چوڑیاں، ہر روزہزار درہم کا ری چارج، برج خلیفہ کے فائیو سٹار ہوٹل، بڑے بڑے ریستورانوں میں بڑے بڑے بل، لانگ ڈرائیو، ساحل سمندر پرپارٹیاں، سہیلیوں کے لیے تحائف، چھوٹے بھائی کے لیے موبائل وغیرہ۔
اور آخر میں جب عشق کا شکار بنک کرپٹ ہو جاتا ہے تو محترمہ کے گھر سے رشتے کے لیے جو فہرست آتی ہے تو لگتا ہے پرنس ولید بن طلال کے کسی ذاتی ملازم نے بنائی ہےجس میں استسفار کیا جاتا ہےکہ کوٹھیاں کتنی ہیں، کتنے پلاٹ ہیں، گاڑیاں کتنی ہیں، مرسیڈیز تو ہوگی، بزنس کیا کرتے ہو، کتنے ملکوں میں بزنس کرتے ہو، ڈیفنس میں گھرتو ہوگا، ہمارا بنگلہ تو 2 کنال کا ہے تم کو بھی دو کنال کے بنگلے خریدنے پڑیں گے، فارم ہاوس تو ضرور ہو، بھئی ہم تو کھاتے پیتے گھر سے ہیں، لڑکیاں جو چاہتی ہیں خریداری کرتی ہیں۔
عشق میں اندھا جب اپنا سب کچھ لٹا کر دل کو دلاسے دیتا پاکستان جاتا ہے اورکمالیہ کی کچی بستی سے اپنی 2005 کی کرولا لے کرگزرتا ہے تو اسے گندے کپڑوں میں ملبوس ایک لڑکا جو ہوبہو فیس بک چڑیل کے بھائی جیسا نظر آتا ہے اسے وہاں کھیلتا دیکھ کرتو جیسے مسٹر عاشق کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
پیچھا کرنے پر لڑکا زیرتعمیر مکان میں گھس جاتا ہےجس کا دروازہ کھلا ہے۔ گاڑی بیچ بازار روک کر جب مسٹرعاشق اندر نظر ڈالتے ہیں تو اندردو لڑکیاں ایک دوسرے کے سر کھنگالنے میں مصروف نظر آتی ہیں۔ بالوں میں چھپی لڑکیوں کو پہچاننا فٹبال کے میدان میں سوئی ڈھونڈنے کے مترادف لگتا ہے۔ ایک ٹوٹی پھوٹی سوزوکی مہران جس کے ٹائر کی جگہ اینٹیں پڑی ہوتی ہیں۔ یکایک ایک موٹی آنٹی نمودارہوتی ہے جس سے مسٹر عاشق سکائپ پرباتیں کرچکا ہوتا ہے وہ مسٹرعاشق کو پہچانتی تو ہے لیکن انجان ہونے کی اداکاری کرتی بولتی ہے، ’’وے ڈرائیور کی گل آ؟ کہ ساڈی سوزوکی چوری کرنی آ؟ چل ٹردا ہو نہیں تے میں لیاواں پھیر سوٹا‘‘۔
اللہ جانے وارث شاہ نے ’ہیر‘لکھ کر مسٹر عاشق کا بیڑا غرق کیا یا ان کے والد نے اپنے ٹیپ ریکارڈ پرانہوں سنا سنا کرجنوں کی وادیوں میں دھکیل دیا۔