The news is by your side.

چھچھورپن اورشوبازی، پاکستان کی قومی بیماری

اللہ بخشے میرے مرحوم ماموں اکثرایک واقعہ کثرت سے سنایا کرتے تھے۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ 1965 کی جنگ کے دوران پاکستان میں ایک ترانہ ’’دھر رگڑے تے رگڑا‘‘ بہت مشہور ہوا۔ ہمارے سرکاری بیانیے کے مطابق 65 کی جنگ میں پاکستان کی فتح عظیم تھی۔ مرحوم ماموں بھی شاید سرکاری بیانیے سے متاثر تھے۔ خیر چند سال بعد جب 1971 کی جنگ میں پاکستان کو شکست ہوئی تو جنگ کے خاتمے پرجب پی او ڈبلیوز کو رہا کرنے کا وقت آیا تو ایک کرنل صاحب نے جاتے ہوئے سکھ میجر کو بڑی فراخدلی سے پوچھا “تم جارہے ہو کوئی چیز چاہیے یا کوئی خواہش ہو تو ضرور بتانا۔ جواب میں سکھ میجر نے “دھررگڑے تے رگڑا” والا ترانہ سنانے کی فر مائش کر دی۔ کرنل صاحب بہت غیرت مند تھے۔ وہ اس طنز کو برداشت نہ کرسکے اورحرکت قلب بند ہونے سے موقع پرہی فوت ہوگئے۔

ہندوستان میں 1996 کے کرکٹ ورلڈ کپ کا کوارٹر فائنل کھیلا جا رہا تھا۔ عامر سہیل کریز سے باہر نکل کرچوکے مار رہے تھے۔ وہ بڑی دھواں دار اور اچھی اننگز تھی۔ پھر انھوں نے بھارتی باولر وینکاٹش پرساد کو تین چارقدم آگے بڑھ کر چوکا مارا اور تکبر بھرے انداز میں بیٹ کا رُخ اس کی طرف کرکے کورکی طرف اشارہ کیا اگلی بال پرعامر سہیل کی وکٹیں ہوا میں تھیں۔ عامر سہیل بہت سٹائلش اور میرے پسندیدہ لیفٹ ہینڈ بیٹسمین تھے تاہم اُن کی اُس حرکت کے بعد وہ مجھے کبھی اچھے نہیں لگے۔ وہ خود بھی آج تک اپنی اُس چھچھوری حرکت کی کوئی معقول وجہ بیان نہیں کرسکے۔

ابھی موجودہ یعنی 2015 کے ورلڈ کپ میں پاکستان انڈیا کے میچ سے ایک رات پہلے کی پی ٹی وی اورہندوستانی ٹی وی کی نشریات کی ریکارڈنگ چلوا کردیکھ لیں کہ پاکستانی میزبان ہندوستانیوں سے کتنی چھچھوری باتیں کررہے تھے یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان ہندوستان سے کبھی ورلڈ کپ کا میچ نہیں جیت سکا وہ اپنے چھچھورے پن سے بازنہیں آرہے تھے نتیجے کے طورپرآج تک میچ ہارنے کا اتنا دُکھ نہیں جتنا ان کے چھچھورے پن سے ہونے والی بے مقصد بے عزتی کا ہے۔

پاکستان ٹیم نے میدان میں باجماعت نماز ادا کی مگرکھیل میں پاکستان کی نااہلی کہ ہم میچ ہار گئے وہاں افغانستان اور بنگلہ دیش کی مسلم ٹیمیں بھی موجود ہیں تاہم ان میں سے کسی نے کرکٹ گراونڈ میں غیرمسلم دنیا کو نمازپڑھ کرنہیں دکھائی۔ باقی دوسرے بھی کسی نہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے کرکٹ گراونڈ سے چرچ یا مندر کا کام نہیں لیا اور وہ گراونڈ میں عبادت کے بغیر میچ بھی جیت رہے ہیں۔ ذرا کبھی چشم تصور سے یہ بھی دیکھ لیں کہ آپ کی دیکھا دیکھی اگر ہندو وہاں میچ سے پہلے بھگوان کی مورتی اٹھالائیں اور پوجا پاٹ کے ساتھ گھنٹیاں بجانی شروع کردیں یا عیسائی بھی آپ کی طرح وہاں عبادات کر کے دکھانے لگیں تو کرکٹ کس وقت ہوگی؟ وہ منظر آپ کو کیسا لگے گا؟ آخر مذہب کو ڈریسنگ روم سے نکال کرکرکٹ گراونڈ میں پیش کرنے کا کیا مطلب تھا؟ کیا وہاں کوئی تبلیغی سیشن چل رہا تھا؟ ٹیم کوچ، کپتان یا کوئی بھی دوسرا پلیئر جو مین آف دی میچ ڈکلیئر کر دیا گیا ہو’ اسے انگریزی آتی ہو یا نہ آتی ہو وہ سب سے پہلے رٹارٹایا انگریزی میں اللہ کا شکریہ ضرور ادا کرتا ہے ارے بھائی جب تم میچ ہارتے ہو تو یہ جملہ کیوں نہیں بولتے؟ مذہب تو ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر حال میں اللہ کا شُکر ادا کرو۔ کوئی کھلاڑی آوٹ کرلیا تو گراونڈ میں سجدہ کرنے لگتے ہیں۔ میچ جیت لیا تو سجدہ کرنے لگتے ہیں۔ جیسے کھلاڑی ان کے سجدوں سے آوٹ ہوتے ہیں۔ مطلب ہم عجیب و غریب نفسیاتی مریض قوم بن چکے ہیں۔ سر کے بالوں تک ہم دہشت گردی کی ذلت میں دھنسے ہوئے ہیں۔ دنیا میں کوئی ہماری عزت کرنے کو تیار نہیں اور ہم ہیں کہ بے وجہ ہرجگہ مذہب دکھانے لگتے ہیں۔ بے شک نماز افضل ترین عبادت ہے اور مسلمانوں کو ضرور پڑھنی چاہیے مگر آپ گراونڈ میں نمازادا کرکے کیا ثابت کرنا چاہ رہے تھے؟ وہی نمازآپ ڈریسنگ روم میں بھی ادا ہو سکتی تھی۔ اس دکھاوے کا مطلب؟۔

اسی طرح اگرکھیل کے میدان سے سیاست کے میدان میں آجائیں تو آصف زرداری قاتل لیگ کی بڑھک مارنے کے کتنے دن بعد ق لیگ سے بغل گیر ہوئے؟ اور پھر آصف زرداری کے سوئیس اکاونٹس سے پیسہ واپس لانے اور انھیں گلیوں میں گھسیٹنے کی بڑھکیں مارنے والے میاں برادران کی گرتی ہوئی حکومت کو بھی آصف زرداری نے ہی بچایا۔ میاں برادران آصف زرداری کو جاتی عمرہ بلا کر،ان کی مدد لے کر کتنے ذلیل ہوئے اس کی حالیہ تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔

دھرنوں کے دوران عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری جس طرح اونچی اونچی بڑھکیں مارتے رہے اور پھر جس طرح وہ پیچھے ہٹے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ ان کے الفاظ یاد کرتے بھی شرم آتی ہے۔ شہباز شریف لانگ شوز پہن کر کچی آبادی کے کیچڑ میں اتر گئے، بلاول غریبوں میں گھل مل گئے اور عمران کارکن کی موت پر اس کے گھر چلے گئے۔ اور ہم خوش ہو گئے۔ اوپر سے میڈیا بھی ان ریا کاریوں کو بریکنگ نیوزبنا کرچلاتا ہے۔ کیا یہ خبریں ہیں؟ ریا کاری کے علاوہ ان میں کیا ہوتا ہے؟

کیا تھا جو ڈاکٹر قادری اور عمران خان اتنے بڑے بول نہ بولتے؟ وقت سے پہلے بڑھکیں نہ مارتے؟ کیا تھا جو نوازاورشہباز، آصف زرداری کو گلیوں میں گھسیٹنے کی بات نہ کرتے؟ کیا تھا جو آصف زرداری ق لیگ کو قاتل لیگ نہ کہتے؟ کیا ہوتا اگر پی ٹی وی پر بیٹھے پاکستانی میزبان میچ سے قبل چھچھوری حرکتیں نہ کرتے، بڑے بول نہ بولتے؟ کیا تھا جو “دھر رگڑے تے رگڑا” جیسے بے مقصد اور کمزوردانش والے ترانے نہ بنائے نہ بجائے جاتے؟

شاید کرنل صاحب کا شرمندگی کی وجہ سے ہارٹ فیل نہ ہوتا۔ عامر سہیل اور ہم سب کو آج تک 1996 کے ورلڈ کپ کی شکست پرشرمندگی نہ ہوتی۔ بے جا دکھاوے کی وجہ سے غیر مذہبی لوگوں کو مذہب کا مذاق بنانے کا موقع نہ ملتا اوروقت سے پہلے بڑے بول بولنے والے ان تمام بڑھکو سیاستدانوں کو شرمندگی نہ اُٹھانی پڑتی۔

ہمارا رب، ہمارادین، ہمارا نبی ہمیں بار بار تلقین کرتے ہیں کہ تکبرمت کرو بڑا بول مت بولو۔ حضرت علیؑ نے فرمایا میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے رب کو پہچانا۔ سیانے کہہ گئے اونچا بول کبھی مت بولو، صوفی کہہ گئے ’’دشمن مرے تے خوشی نہ کریے سجناں وی مرجانا‘‘۔

اسلامی تعلیمات، بزرگوں کے اقوال اور سیانوں کی باتوں کے باجود سمجھ نہیں آتی ہم اتنے بڑھکُو، چھچھورے اورشوبازکیوں ہیں؟

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں