The news is by your side.

عصرِحاضر اور میڈیا کا کردار

موجودہ دُور میں عام شہری اُن تماشائیوں کے طرح ہیں جو ایک مداری کی ڈگ ڈگی پر اس کے پیچھے دوڑے چلے آتے ہیں، ایک لمحہ کو تماشائی اس مداری کے کرتب کو حقیقت بھی تسلیم کرلیتے ہیں اور کوئی سوچتا بھی نہیں ہے کہ اس کے پیچھے کیا حکمت عملی کارفرما ہوسکتی ہے۔

آج کے دُور میں مداری کا یہ کردار کسی حد تک میڈیا ادا کررہا ہے، میڈیا پر دیکھائے جانے والے مواد پر لوگ آنکھ بند کرکے یقین کرلیتے ہیں اور کیوں نہ کریں آخر صحافت کا مقصد ہی یہی ہے کہ عوام الناس کو ملکی تاریخ،تہذیب وتمدن اور پسِ منظرمیں ہو نے والے اہم سیاسی ، مذہبی ،معاشی، معاشرتی و دیگر واقعات اور صورتِ حال سے آگاہ رکھے، جس میں کہ تصویر کے دونوں رُخ واضح ہوں، لیکن بسا اوقات ہوتا اس کے برعکس ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ میڈیا صرف یکطرفہ کردار ادا کررہا ہے۔

حال ہی میں میڈیا پر ایک لفظ گشت کرتا نظر آیا کہ ’میڈیا ٹرائل‘ جسے سیاست دانوں کے جانب سے میڈیا پر الزامات لگانے کے لئے استعمال کیا گیا، جہاں کچھ سیاست دانوں نے میڈیا پر یہ الزام لگایا کہ مخصوص لوگوں کا میڈیا ٹرائل کیاجارہا ہے تو وہیں عوام کی ایک بڑی تعداد میڈیا کے کردار کو سرہاتے ہوئے بھی نظر آئی ۔

یہ کوئی نیا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی میڈیا پر کئی بار یکطرفہ ہونے کا الزام لگا ہے ،اسلام آباد کے دھرنے ہوں یا حال ہی میں ہونے والے انتخابات، عدلیہ کی تحریک ہو یا درونِ خانہ و بین الاقوامی کشیدگی کے تناظر میں کسی نہ کسی طرح میڈیا الزامات کے زد میں رہا ،لیکن حقیقت کیا ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔  پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا اور صحافتی اداروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا واقعی پاکستان میں میڈیا اپنے اعلیٰ مقام کی  پاسداری کررہا ہے، جہاں بھی تنقید اور الزامات لگائے جاتے ہیں وہیں کئی سوالات بھی زہنوں میں جنم لیتے ہیں ۔کہ کیا  لگائے جانے والے الزامات درست تو نہیں یا کیا میڈیا واقع یکطرفہ کردار ادا کررہا ہے ؟۔لیکن تاریخ  میڈیا کے منفی کردار ، بلیک میلنگ اور زرد صحافت کی گواہی دیتی بھی نظرآتی ہے اور نہ صرف یہ بلکہ صحافتی ادارے بھی ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالتے ، ملک سے غداری ،یکترفہ رپورٹنگ کا الزام لگاتے نظر آئے ہیں۔

موجودہ حالات میں یہ الزام بھی زیر بحث ہے کہ پاکستان کا ایک مخصوص میڈیا منفی رپورٹنگ کر کے سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کو نہ صرف بلیک میل کر رہا ہے بلکہ اپنے ناظرین کی تعداد میں بھی اضافہ کر رہا ہے۔ چونکہ لوگ چٹ پٹی اور گرما گرم خبروں کو زیادہ پسند کرتے ہیں اس لیے میڈیا کا یہ کام خوب پھل پھول رہا ہے۔  نہ صرف سیاست دان بلکہ بڑے بڑے جاگیردار، سرکاری افسران اور حتیٰ کہ حکومت بذات خود میڈیا سے دبی دبی نظر آتی ہے۔

سابق صدر (ر) جنرل پرویز مشرف نے اپنے ہاتھوں سے پاکستان میں ٹی وی چینلز کی بنیاد رکھی پاکستان کا آزاد میڈیا آزاد خیال جنرل صاحب کی بدولت پاکستان میں معرضِ وجود میں آیا جو کہ بعد میں ان کے ہی گلے کا پھندا بنا،آخر کار وہی ہوا جس کا خدشہ تھا سابق صدر کو انکی کرسی سے جدا کرنے میں میڈیا نے ایک کلیدی کردار ادا کیا۔

اکثر سیاسی جماعتوں کی جانب سے الزام لگایا گیا کہ ٹی وی ٹاک شو پر موجود میزبان متعصب ہیں،اور ان میزبانوں کو باقاعدہ فنڈز فراہم کئے جاتے ہیں۔ میڈیا میں اس رجحان کو تقویت دینے میں حکمرانوں، ریاستی اداروں، سیاسی پارٹیوں اور نامور شخصیات کا بھی اتنا ہی  ہاتھ ہے جتنا خود صحافیوں کا۔ 2013 کے میڈیا کمیشن رپورٹ میں میڈیا اور صحافیوں پر لگائے گئے الزامات میں یہ الزام سرفہرست ہے کہ۔

میڈیا پر بہتر اور حسب منشاء کوریج حاصل کرنے اور مخالفین کے خلاف جھوٹی اور ہتک آمیز خبریں نشر کرنے کے لئے صحافیوں اور میڈیا پرسنز کو رشوت، لالچ اور ترغیبات دی جاتی ہیں۔

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ پاکستانی میڈیا سے وابسطہ اکثر صحافیوں کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنا کام نکالنے کے لئے عموماَ دھونس دھمکی اور بلیک میلنگ سے کام لیتے ہیں۔

موجودہ حالات میں اپنے آپ کو صاف کرنے اور لگنے والے الزامات کا جواب دینے کیلئے غیر جانبدار رپورٹنگ کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اگر میڈیا چاہے تو باقاعدہ صحافتی تربیت اور ایک ضابطہ اخلاق مرتب کرنے جیسے اقدامات کے ذریعےملکی ترقی و معاشرے میں اپنا کردار ایک مثبت طریقے سے ادا کر سکتا ہے ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں