The news is by your side.

ٹریفک حادثات اورعدالتی احکامات کی پامالی

گزشتہ کئی سالوں پہلے کی بات ہے کہ کراچی کے علاقے لیاقت آباد 10نمبرپرایک ہیوی ٹرالر (ٹرک) موڑ کاٹتے ہوئے تیزرفتاری کے باعث بے قابوہوگیا تھا جس کی زد میں دو گاڑیاں اور کئی افراد آئے اور آخرت کا سفرپر روانہ ہوگئے۔ سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج نے اس واقع کا نوٹس لیا اوردن کے اوقات میں ہیوی وہیکلز ( بڑی گاڑیوں) کے شہرمیں داخلے پرپابندی عائد کرنے عدالتی کا حکم نامہ جاری کردیا مگریہ حکم نامہ بھی دیگرعدالتی فیصلوں کی طرح کاغذکا ٹکڑا ہی ثابت ہوا۔ اورشہرمیں بڑی گاڑیوں کی آمد ورفت آج بھی 24گھنٹے جاری ہے۔

پاکستان میں عدالتی فیصلے اور قانون مختلف مافیاز کے آگے ہردورمیں گھٹنے ٹیکتے نظ آئے ہیں ۔ اس بات کو اگر یوں کہا جائے کہ ہمارے ملک میں مافیاز قانون اور عدالتوں سے زیادہ مضبوط ہیں تو غلط نہ ہوگا ۔ بلکہ حقیقت تو یہ
بھی ہے کہ ہر چیز کی مافیا موجود ہے ۔ جن کی سربراہی اعلیٰ شخصیات کی جانب سے ہوتی ہے ۔ ان اعلی شخصیات کا تعلق سیاسی و دیگر اداروں سے ہے ۔ جو ان مافیاز کے ذریعے اپنےدھن اور دھندے میں ملوث ہیں۔

کراچی سے پاکستان کے دیگر شہر اور اندرون سندھ جانے والی بسوں اور انکے ڈرائیور حضرات سہراب گوٹھ سے تاج کمپلیکس اپنے اڈے تک پہنچنے کے لئے ایک دوسرے پر فوقیت لے جانے کے چکر میں گاڑیاں تیز رفتاری سے
چلاتے ہیں جس کے باعث کئی حادثات پیش آتے ہیں۔ جبکہ میری ناقص معلومات کے مطابق تاج کمپلیکس سے بسوں کا اڈہ سہراب گوٹھ منتقل کرنے کے حوالے سے بھی ایک عدالتی فیصلہ موجود ہے ۔ جس پر قانون ناجانے کیوں آج تک عملدرآمد کروانے سے قاصر ہے۔

بھاری گاڑیوں کے داخلے پر پابندی اور بس اڈے کا سہراب گوٹھ منتقل ہونے کے حکم ناموں پر اگر عمل ہوتا تو گزشتہ دنوں لیاقت آباد میں ہونے والا واقعہ پیش نہیں آتا ۔ حیدرآباد سے کراچی آنے والی بس نمبر کے ڈرائیور رفیق نے تیزرفتاری پر قابو نہ رکھتے ہوئےلیاقت آباد فردوس شاپنگ سینٹر کے سامنے سٹرک پار ک کرنے والے افراد اورایک موٹر سائیکل کو کچل دیا۔ جس کے نتیجے میں جائےوقوعہ پ تین افراد نے دم توڑ دیا جبکہ 9افراد زخمی ہوئے جن میں سے 5افراد شدید زخمی تھے جن کوعباسی شہید منتقل کیا گیا۔رات گئےزخمیوں میں سے مزید تین افراد جانبر نہ رہ سکے جس کے بعد اب تک ہلاکتوں کی تعداد 6ہوگئی ہے ۔ ہلاک ہونے والوں میں2خواتین بھی شامل ہیں ۔3افراد انتہائی نگہداشت وارڈ میں موت اور زندگی کی کشمکش میں ہیں۔

جائے وقوعہ پر موجود لوگوں نے بس کو آگ لگا دی ۔میڈیا ہاوسسز میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ لیاقت آبا میں چند شر پسند عناصر نے بس کو آگ لگا دی ۔ میڈیا کے اداروں کی جانب سے اس خبر کی کوریج کے لئے اسٹاف
کو بھیجا گیا تو پتہ چلا کہ بس کو آگ کس کی وجہ سے لگائی گئی ۔ ور نہ اس روڈ پر اس سے زیادہ خطرناک ایکسڈینٹ کے واقعات روز کا معمول ہیں۔ اکثر رات و دن کے اوقات میں عین اس ہی جگہ سٹرک پار کرتے ہوئے کئی لوگ زخمی و ہلاک ہوئے ہیں ۔ جسکی وجوہات میں سے چند اہم وجوہات یہ ہے کہ اس سٹرک کو سہراب گوٹھ سے لے کر گرومند تک سنگل فری بنایا گیا ہے ۔ مگر سٹرک پار کرنے کے لئے بیچ میں سے کئی چھوٹے چھوٹے راستے بنائے گئے ہیںجس میں سے عوام نکل کر روڈ پار کرتے ہیں اور حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں۔

دوسری طرف بعد از مغرب عائشہ منزل سے لے کر نمائش تک کہیں بھی اسٹریٹ لائٹس کا انتظام موجود نہیں ۔ لائٹس کھمبوں میں موجود تو ہیں مگر جلتی نہیں ۔ جسکے باعث رات کے اوقات میں اکثر بغیر لائٹ والے موٹر سائیکل سوا ر اور سٹرک پار کرنے والے کاایکسڈینٹ ہوجاتا ہے ۔ عائشہ منزل سے لیاقت آباد مارکیٹ تک صرف 3پیڈسٹرل برج موجود ہیں۔

اگربیچ میں بنائے گئے راستوں کو مکمل طور پر بند کر کے پیڈسٹرل برج بنا دئیے جائیں اور سب سے بڑھ کر شہر میں عدالتی فیصلے کے مطابق صرف رات کے وقت میں بڑی گاڑیوں کو اجازت اور بس اڈے کو تاج کمپلیکس سے سہرابگوٹھ سپر ہائی وے منتقل کر دیا جائے تو اس قسم کےسانحات کی روک تھام میں کافی حد تک مدد مل سکتی ہے۔

قارئین جو یہ بلاگ پڑھ رہے ہیں اُن سے بھی گزارش ہے کہ حادثات سے بچنے کے لئے اگر تھوڑی دشواری اٹھانی پڑے تو کسی قسم کی دقت محسوس نہ کریں کیونکہ افسوس احتیاط سے بہتر ہے ۔ سب سے آخر میں سندھ حکومت ، سندھ ہائی کورٹ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے گزار ش ہے کہ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرنے والے لوگوں کے خلاف سخت کاروائی کرتے ہوئے ان احکامات پر ہر صورت عملدرآمد کروائیں اور سندھ حکومت کے بلدیاتی و صوبائی وزیر شاہرہ پاکستان پر مزید پیڈسٹرل برج بنائیں ا ور پہلے سے لگی اسٹریٹ لائٹس کی مرمت کر کے اس شاہرہ کو روشن کیا جائے تاکے مزید سا نحات سے بچا جاسکے اور شہریوں کی زندگیوں کو تحفظ مل سکے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں