The news is by your side.

کراچی میں پانی کی قلت اوررمضان، ٹارگٹ کلنگ بھی جاری

ہمارے سامنے روز کئی طرح کی خبریں گزرتی ہیں جن میں ایک خبر تو معمول کا حصہ بنتی جا رہی ہے یعنی ٹارگٹ کلنگ۔ روز ٹارگٹ کلنگ میں کئی افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ حکومت کا ٹارگٹڈ آپریشن تو جاری ہے اورسننے میں آیا ہے کہ بہت حد تک ٹارگٹ کلنگ پرقابو بھی پالیا گیا ہے۔

لیکن حال ہی میں ہونے والا سانحہ جس میں درجنوں لوگوں نے بس میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں اپنی جاںیں کھوئیں اس سے آپریشن پرایک سوالیہ نشان پیدا ہوگیا ہے۔ کراچی کے لوگ کب تک اس خوف و ہراس میں رہیں گے کہ وہ نئ گاڑی لے کر باہرنکلیں گے اور چھن جاےٴ گی اوراگر مزاحمت کی تو شائد جان بھی چھن جاےٴ۔ ایک طرف درجنوں لوگوں کو قتل کر دیا جاتا ہے اوردوسری طرف سندھ کے وزیراعلیٰ صاحب الگ ہی ترنگ میں پریس کانفرس کرتے ہیں۔ واہ ! کیا ذمہ داری ہے۔ ذمہ داری تو دور انسانیت تک نہیں نظر آرہی۔

ایک طرف تو جان کے لالے ہیں تو دوسری جانب کراچی میں پینتالیس کروڑ گیلن پانی کی قلت ہے۔ رمضان کی آمد قریب ہے اب ذرا اندازہ لگائیں کہ رمضان میں لوگوں کو پانی بھی میسرنہیں ہوگا؟ کیسے روزے رکھیں گے کراچی کے مقیم؟ کیا ہوگا جب جون اور جولائی کی تپتی دھوپ کےبعد افطاری کے لیے ٹھنڈا پانی تو دور پانی ہی نہیں ملے گا؟۔ پاکستان میں ٹھنڈے پانی کا تصور بڑے شہروں کے بڑے علاقوں کے علاوہ اور کہاں کیا جا سکتا ہے؟ کہیں بھی نہیں کیوںکہ پچھلے رمضان میں کئی دعووں کے با وجود بڑے شہروں میں اندھیرے میں سحری و افطاری کی جاتی رہی تھی۔

اب رمضان کی بات آہی گئی ہے تو اس میں نشر ہونے والے ان چند پروگرامز کی بھی بات کر لیتے ہیں کہ جنہیں دیکھ کرلگتا تھا کہ سواےٴ چند تحفے تحائف کے علاوہ اور کوئ ضرورت ہی نہیں رہی اور ان کے لیے ہرچینل نے مقابلے پرشو منعقد کروانے ہیں۔ اس مقابلے میں ایک صاحب نے تو اپنے رمضان پروگرام میں ڈانس تک کروالیا۔ پورے رمضان میں اگر کوٕئی پروگرام دیکھنے سے واقعے رمضان کے عزت و وقار کا پتہ لگتا تھا تو وہ شان رمضان تھا نہیں تو لوگ اکثر تحائف کے لالچ میں کتے بلیوں کی آوازیں بھی نکالنے لگ جاتے ہیں جب لالچ اس انتہا پر چلا جاےٴ کہ اپنی عزت و تکریم اورماہ رمضان کے ہی پروگرام میں اس ماہ کی عقیدت و احترام کو بھلا دیا جاےٴ تو ایسے معاشرے کا اللہ ہی حافظ ہے۔

جب وطنِ عزیز میں جاری ان گستاخیوں کو روکا نہیں جا سکتا تو ٹارگٹ کلنگ جیسی بڑی برائیوں سے معاشرے کیسے محفوظ رکھا جاسکتا ہے؟ ضرورت اس امرکی ہے کہ باتوں اوردعووٗں کے علاوہ تھوڑا کام بھی کیا جاےٴ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں