The news is by your side.

ٹرینڈ – چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانا

یعنی کسی کسی بات کو تسلسل کے ساتھ بنا رکاوٹ یا تعطل دھراتے رہنا۔ کبھی کبھی لوگ جائز تنقید کو بھی ٹرینڈ بنا کردلیل کا اثربھی ضائع کر دیتے ہیں۔ بعض سوشل میڈیا ایکٹوسٹس اورکچھ دیگر لبرلزز کی جانب سے لفظ “دیوبند تکفیری” یا “وہابی سلفی” یا “مذہب” کا غیرضروری حد تک کثرت سے استعمال، عمران خان کی طرف سے “کرپشن” جیسے الفاظ کا استعمال، ان کی دھرنوں کی تقاریر، سرکاری لوگوں اور ان کی اولادوں کی جانب سے “غدار” کا جائز و ناجائز بے پناہ استعمال اس کی واضع مثالیں ہیں۔ شناخت کا اظہار مسئلے کی بنیاد، جرم و مجرم کا تعین کرنے اور تفریق سمجھانے کی حد تک تو درست مانا جاسکتا ہے مگر آپ کسی کمیونٹی کو مکمل طور پرنشانہ بنانے کے عمل کو کبھی جائزقرار نہیں دلوا سکتے اور یقینا ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے۔

بہت عرصہ پہلے کسی نے سوشل میڈیا پر ہی یہ بات لکھی کہ ” مانا کہ سب دیوبند دہشت گرد نہیں ہیں مگردہشت گرد سب دیوبند ہیں”۔ یہ بات سوشل میڈیا پردیوبند مخالف حلقوں میں بہت مقبول ہوئی۔ یہ جملہ ایسے ہی تھا کہ جیسے آدھے بھرے اور آدھے خالی پانی کے گلاس والی مثال۔ تاہم ایسی کوئی مثال کسی مخصوص گروہ یا کسی مکتب فکر کے لیے استعمال کرنا بلا شبہ غلط تھا اور ہے۔ کسی مکتب فکر میں انتہا پسندوں کی تعداد اگر چالیس پچاس فیصد بھی ہو تو اس میں دہشت گردوں کا تناسب بیس تیس فیصد سے اوپر نہیں ہو سکتا۔ ایسے میں اکثریت کے لیے کوئی حتمی تعریف بیان کر نا یا رائے دینا حقائق کو ثانوی حقیت قرار دلوانے کے مترادف ہے۔

اسی طرح سے عمران خان کی طرف سے “کرپشن” کے بے جا استعمال اور تحریک انصاف کے شہری نوجوانوں کی طرف جعلی ڈگریوں پرحد سے زیادہ شور کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب کسی دوسرے کی جعلی ڈگری پرغور ہو نہ ہو تحریک انصاف کے مراد سعید کے گھنٹے میں دو پرچے پاس کرنے کے عمل کا ذکر ضرورہوتا ہے۔ ابھی کل ہی تحریک انصاف کے ایک اور ایم این اے کی ڈگری جعلی ثابت ہوئی ہے۔ جمشید دستی بھی شاید اب تحریک انصاف کے ہی حامی ہیں۔ چنانچہ اس ساری رٹہ مار اور بھیڑ چال نفسیات کا نتیجہ یہ نکلتا نظر آ رہا ہے کہ نواز لیگ آج پنجاب میں پہلے سے زیادہ مقبول ہو نہ ہو مگر وہ پہلے سے زیادہ سیٹیں جیتنے کی پوزیشن میں ضرور نظر آ رہی ہے۔

متحدہ پرغداری اورٹارگٹ کلنگ بھتہ اور قبضہ مافیا جیسے الزامات کے “لوپ” کے باوجود متحدہ کراچی حیدرآباد کی مقبول ترین جماعت ہے اور جو لندن پولیس کے حالیہ بیان سے پاکستانی میڈیا میں شامل متحدہ مخالف جانبدار صحافیوں کو منہ کی کھانا پڑی وہ بلاشبہ متحدہ کے لیے اس برے وقت میں بہت بڑا بوسٹر ثابت ہوگا۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی ہمیشہ ایسا ہی کیا گیا جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی پرجائز تنقید بھی پس منظرمیں جاتی رہی۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا لوگ ٹرینڈ جیسا کوئی عمل کرکے کسی کا نقصان کررہے ہوتے ہیں یا فائدہ اس بات پر سوچنے کی ضرورت ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم محض دشمنی برائے دشمنی کررہے ہوں اور ہماری اس بے مقصد مشقت میں اصل تنقید جو کہ ہونی چاہئیے وہ بھی پسِ منظرمیں چلی جائے؟

شاید آپ یہ بھی پسند کریں