ہندوستان میں ایک عرصہ سے افغانوں اور پٹھانوں کو مثال بنا کرفلمیں بنائی جارہی ہیں امیتابھ بچن کی “خدا گواہ” اور “کابل ایکسپریس” جیسی بہت سی فلمیں مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں اور عظیم اداکار ’پران‘مرحوم کی وہ ہندو پٹھان دوستی پر مبنی فلم کون بھول سکتا ہے کہ جس میں پران فراک اور میکسی نما لباس پہنے ’’یاری ہے ایمان میری جان میری زندگی‘‘ گاتے اور ناچتے نظر آتے ہیں۔ تاہم پٹھان اور افغان ہندوستانیوں کو پسند کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ افغان اور پٹھان حکمران ہندوستان سے زن، زر، زمین سب کچھ لوٹتے رہے۔ لیکن یہ ہندوستانی کس چکر میں ہر وقت افغانوں اور پٹھانوں کی جی حضوری میں جتے رہتے ہیں؟۔ بے شرمی کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے۔ پنجابی میں کہتے ہیں کہ ’’نہ ھیں سانجھی نہ نیں سانجھی‘‘ یعنی نہ تمھاری سرحد ان سے ملے نہ مذہب اور دوستی ایسے ظاہرکی جاتی ہے جیسے آدھا بھارت محمودغزنوی کی باقیات میں سے ہے۔
ہم یہاں پاکستانیوں کے عربوں اور ایرانیوں سے متاثر ہونے پر معترض رہتے ہیں کہ ہماری قومیتوں میں فرق ہے مگر مذہب تو پھربھی ایک ہے یعنی کچھ نہ کچھ قدرِ مشترک تو ہے۔ بھارتی بتائیں کہ ان کا افغانوں اور کابل کے پٹھانوں سے آپسی خون خرابے کے علاوہ کیا مشترکہ تعلق ہے؟ ہم ویسے تو ہروقت حافظ سعید اور زید حامد جیسے لوگوں کے غزوہ ہند اور لال قلعہ پر جھنڈے لہرانے کی خواہش پر ان کی کلاس لیتے رہتے ہیں لیکن کبھی تو ہندوستانیوں کی بے شرمیوں پر بھی غور ہونا چاہیے مطلب جن سے ساری عمر مارکھائی اور جنگیں لڑیں وہی مثالی دوست ٹھہرے اور اپنے صرف مذہب کی بنیاد پر تعصب اور نفرت کا شکار بنے۔
قومیت یا نسل کے اعتبار سے مہاجروں، پنجابیوں اور سندھیوں کا ہندوستانیوں سے کیا فرق ہے؟ تینوں قومیں بٹوارے اور مذہب کی بنائی سرحد کے دونوں اطرف پائی جاتی ہیں۔ اگر دو قومی نظریہ فیل تھا تو انڈیں نیشنل ازم کونسا پاس ہے؟ اور انڈین سیکولرازم کی درد بھری کہانی تو کوئی شبانہ اعظمی سے پوچھ لے جسے مسلمان ہونے کی وجہ سے ممبئی میں فلیٹ بھی نہ مل سکا۔ ہماری روشن خیال نئی نسل کی متوازن سوچ کے لیے ضروری ہے کہ ہم دو طرفہ حقائق پر نطر رکھیں۔ ہم اپنے لوگوں کی غلط کاریوں یعنی انتہا پسند رویوں پر تنقید کرتے ہیں کہ ہمیں ایک متوازن معاشرے اور ریاست کی خواہش ہے جو اپنے ہمسایوں سے اچھے تعلقات رکھے۔ کسی سے زیادتی نہ کی جائے، ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے کبھی لڑنے میں پہل نہ کی جائے۔ مذہب یا ریاست کی بنیاد پر ایک ہی خطے کے لوگ آپس میں نفرت نہ کریں، محبت سے رہیں لیکن اس سب کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اپنی ایک آنکھ بند کر کے صرف اپنوں کو ہی تنقیدی نگاہ سے دیکھتے جائیں اور جو کچھ ہندوستان کی طرف سے ہو رہا ہے اس پر آنکھیں مکمل طور پر بند کیے رکھیں۔
معاملہ صرف پٹھانوں اور افغانوں تک محدود نہیں ہے ہندوستان بلوچ علیحدگی پسندوں سے بھی غیرمعمولی دوستی دکھاتا ہے اور یہاں بھی وہی سوال اٹھتا ہے کہ ہندوستانیوں کا بلوچوں سے کونسا ایسا تاریخی عشق ہے یا سرحد ملتی ہے جو وہ پنجاب اور سندھ پار کرکے بلوچوں سے اپنی محبت کا اظہار کررہے ہیں؟۔ اگر ہندوستان انسانی ہمدردی کا جواز پیش کرتا ہے تو کشمیر اس کے لیے ایک بہت بڑی شرمناک مثال کے طور پر موجود ہے اگراسے واقعی انسانی حقوق کا خیال ہے تو سب سے پہلے کشمیریوں کی آزاد ریاست کی بات کرے اور پھر پاکستان کو بلوچستان پر قابض بتائے۔ جو اپنے سماج میں دلت کو انسان بھی نہیں سمجھتے وہ کیا ہمیں انسانی حقوق پر بھاشن دیں گے؟ مگر وزیر اعظم مودی ہو یا عام ہندوستانی، اکثریت کے منہ سے “کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے” سننے کو ہی ملتا ہے۔
ابھی ہندوستان میں سیف علی خان کی نئی “فینٹم” ریلیز ہوئی ہے فلم دہشت گردی کے خلاف ہے۔ مگر چونکہ بد قسمتی سے ہم دہشت گردی کے حوالے سے بدنام ہو چکے ہیں اور دنیا کے منہ کے سامنے آچکے ہیں تو سیف علی خان نے بھی وہاں کی اسٹیبلشمنٹ اور بنیاد پرست ہندو عوام کو خوش کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف بیان داغ دیا ہے۔ اس پر ہمارے سوشل میڈیا کی یوتھ بے وجہ ہی آپس میں دست و گریباں نظرآ رہی ہے۔ پٹودی نواب زادے کی بے شرمی بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اس بیان کے بعد بھی شاید انھیں ممبئی میں اپارٹمنٹ نصیب نہ ہو سکے گا مگرمحض ایک فلم کو کامیاب کروانے کے لیے اس نے نفرت کی چنگاری پھینک دی ہے۔ ایک دوست نے اس پر بہت خوب کہا کہ ’’ہمیں ایک دوسرے تیسرے درجے کے ایکٹر کی بات پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں‘‘۔ دراصل یہی وہ نقطہ تھا جو ہمارے ہاں ہر کسی کو ذہن میں رکھ کر سیف علی خان کے بیان کو نظرانداز کردینا چاہیے تھا کہ اس سے اسے مفت کی پبلسٹی ملنے والی تھی جس کا وہ حقدار بھی نہیں تھا مگر روایتی طور پر کچھ شاھیں میدان میں آئے اور بغیر سوچے سمجھے بولتے چلے گئے یہاں تک کہ اختلاف کرنے پرخواتین کو بھی نہ بخشا اور پھر ہمیشہ کی طرح یہاں روشن خیال اور بنیاد پرست کی لفظی جنگ چھڑ گئی۔
روشن خیالوں کا یہ جواز درست ہے کہ اختلاف رائے رکھنے پر کسی خاتون کے لیے غیر مناسب الفاظ استعمال نہیں ہونے چاہیے تھے اور یہ بھی درست ہے کہ ہمیں ہندوستان اور ہندوستانیوں سے اتنی ہی محبت کا اظہار کرنا چاہیے جتنا وہ کرتے ہیں۔ بے وجہ ہر وقت غلط بات پر بھی ان کی مفت کی وکالت نہیں کرنی چاہیے کہ جس کی انہوں نے آپ کو دعوت بھی نہیں دی۔ یعنی ’’تو کون! میں خواہ مخواہ‘‘والی بات بھی نہیں ہونی چاہیے۔ ہم اپنے ملک میں ہر طرح کے خطرے کے باوجود انتہا پسند قوتوں کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں تو ہمیں ان کے خلاف لڑنے کے لیے کسی پٹودی کی فلم کی ضرورت بھی نہیں ہونی چاہیے، جو ’’سوکھی کے لکڑیوں کے ساتھ گیلی لکڑی بھی جلاد دے‘‘۔ یعنی ہندوستان کی طرح یہاں بھی نفرت کی آگ کو ہوا دینے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسے غلط بیانیے کی وجہ سے وہ لوگ جو امن پسندی کے داعی ہیں وہ بھی نفرت کی آگ میں جلنے لگیں۔ لہذا جس کسی پاکستانی نے بھی اس فلم کی وکالت سیف علی خان کے بیان کو نظرانداز کرکے محض اس بنیاد پر کی ہے کہ وہ محض دہشت گردی کے خلاف ایک فلم ہے تو وہ یہ ذہن میں رکھے کہ سیف علی خان جیسے بیانات کسی بھی ریاست میں پسند نہیں کیے جا سکتے چاہے وہ کتنے ہی روشن خیال نظریات کی حامل کیوں نہ ہو۔
یہ مکن نہیں کہ کوئی دہشت گردوں یا انتہا پسندوں کے ساتھ روشن خیال پاکستانیوں کو برا کہے اور ہمیں برا نہ لگے۔ اگر دہشت گردوں کا تعلق پاکستان سے تھا تو یہ بھی یاد رکھا جائے کہ دہشت گردوں کو ہاتھوں شہید ہونے والے ستر ہزار شہریوں کا تعلق بھی پاکستان سے ہی تھا۔ ان مقتلولین کے ورثاء ہندوستان میں آباد نہیں ہیں اور نہ ہی ہندوستان یا کسی اورملک نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس قدر قربانیاں دی ہیں۔