The news is by your side.

بھارت جمہوری روایات سے فرار کی جانب گامزن

ایک ارب تیس کروڑ کے قریب انسانوں کی بستی یعنی بھارت کو دنیا کی سب سے بری جمہوری ریاست کے طورپر پہچاناجاتاہے۔1947ء میں برطانوی استعماریت سے آزادی کے بعد اس وقت کے کانگریسی قیادت نے زمانے کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ چونکہ بھارت ایک کثیر النسلی وکثیر القومی انسانی آبادی پر مشتمل ایک وسیع وعریض خطہ ہے لہٰذا ملک کے سارے شہریوں کو قانون کے مطابق برابرکے حقوق دینے اور نسلی،لسانی ومذہبی تعصبات سے بالاتر ہوکر سارے لوگوں کو یکسان شہری کا درجہ دینے کے لئے لازم ہے کہ ملک کی سیاسی نظام کو وفاقی طرز پر جبکہ آئینی نظام کو سیکولر(ایسانظامِ سیاست جس کی بنیادمذہب اور مابعدالطبعیات کی بجائے سائنسی اصولوں پر استوار ہو اورجس میں ریاستی معاملات میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہ ہو جبکہ قانون کے مطابق سب شہریوں کو بلاتفریق مذہب،رنگ ونسل برابر کے حقوق حاصل ہوسیکولر سیاسی نظام کہلاتی ہے)اصولوں پر استوار کیاجائے۔ یہ وجہ ہے کہ بھارتی حکمرانوں نے اپنے آئین کو سیکولر ڈیکلئیر کردیا۔ اگرچہ بھارتی قیادت کا یہ فیصلہ جرات مندانہ تھالیکن ناگزیر وجوہات کی بنا پر اس کے علاوہ اور کوئی دوسرآپشن بھارتی حکمرانوں کے پاس موجود بھی نہیں تھا۔ بھارتی سیاسی نظام میں کانگریس ایک بہت ہی طاقتور سیاسی قوت کے طورپر خود کو منوانے میں کامیاب رہی۔ ملک کی 68 سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ حکمرانی کا سہرا بھی کانگریس کے سر جاتا ہے جو اپنی قدیم تاریخ اور اعتدال پسند قیادت کی وجہ سے بھارت کے ایک سیکولر سیاسی قوت کے طورپر پہچانے جاتے ہیں۔ البتہ حالیہ چند برسوں میں کانگریس اپنی انتہائی خراب کارکردگی کی وجہ سے ملکی سیاسی فضاء میں اپنا مقام بڑی تیزی کے ساتھ کھوتی رہی،جس کی وجہ سے 2014ء کے پارلیمانی انتخاب میں انہیں بری طرح شکست سے دوچار ہونا پڑا اور اسکی جگہ سخت گیر بنیاد پرست، رجعت پسند مذہبی جماعت بھارتی جنتا پارٹی نے اس الیکشن میں نمایاں کامیابی حاصل کرلی جبکہ ان کے ساتھ کئی دوسرے سخت گیر ہندومت کے احیاء کے حامی سیاسی جماعتیں بھی حکومت میں شامل ہے۔ ٹھیک اسی قسم کا سیاسی تجربہ 2013ء کے عام انتخابات میں پاکستان میں بھی دیکھنے کو ملی جبکہ بائیں بازو کی اعتدال پسند جماعت پاکستان پیپلزپارٹی اورعوامی نیشنل پارٹی کو بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا اور اسکی جگہ وفاق میں دائیں بازوکی مسلم لیگ(ن) اور خیبر پختونخواہ میں نظریاتی بحران کا شکار پاکستان تحریکِ انصاف کو عنان اقتدار اپنے نام کرلینے میں کامیابی ملی۔

بھارت میں رجعت پسندی کا بڑھتا ہوارجحان:

برصغیر کی دو بڑی ریاستیں یعنی بھارت اور پاکستان میں دائیں بازو کے رجعت پسندسیاسی جماعتوں نے حکمرانی پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں لیکن بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی حکومت کسی حد تک اپنے ماضی سے چھٹکارا پانے اور سخت گیریت کی بجائے اعتدال پسندی کی جانب جھکاؤرکھتے ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ پاکستان کےفیصلہ سازی میں کلیدی کردار اداکرنے والی اسٹبلشمنٹ کا مذہبی جنونیت کے نظریات سے خود کو بچا کر لبرل نظریات کی جانب پیش قدمی اورمسلم لیگ (ن) کی موجودہ کابینہ میں موجود سابق ترقی پسندوں اور نیولبرل شخصیات کی موجودگی ہیں۔اسکے برعکس بھارتی حکمرانی پر قابض مذہبی فاشسٹ نریندر مودی سیکولر اور تکثیریت پر مبنی معاشرے کو ہندوبرہمنی معاشرے میں تبدیل کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ حالیہ چند مہینوں سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں مسلسل بھارتی حکومت اور اداروں کی جانب سے شخصی آزادیوں پر قدغن لگانے اور نصابی کتابوں کو ٹمپر کرنے کی خبریں گردش کررہی ہیں۔

گھر واپسی کی تحریک:

ہندو برہمنی نظریات کی دوبارہ احیاء اور بھارتی معاشرے کو ہندومت میں تبدیل کرنے کی غرض سے نریندر مودی سرکارنے ”گھر واپسی”کے نام سے تحریک شروع کررکھی ہے۔ اس تحریک کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ چونکہ ہندومت ہندوستان میں جنم لینے والا مذہب ہے جبکہ دیگر مذاہب مثلا اسلام،عیسائیت وغیرہ بعد میں علاقے پر وارد ہوئےلہٰذا اب دیگر مذاہب بالخصوص اسلام کے پیروکاروں کو اب گھرواپس آنا یعنی ہندومذہب اختیار کرنا ہوگا۔ایک ایسے وقت میں جبکہ دنیا مکمل طورپرجمہوریت کی جانب گامزن ہے، بھارت معروضی حقائق سے فرارہو کردوبارہ پتھر کے دور کی جانب گامزن ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جمہوریت خالصتاً سیکولر طرز حکمرانی کا نام ہے جس کے بغیر جمہوریت ایک سہانے خواب سے بڑھ کر اورکچھ نہیں اگربھارتی حکومت اپنے سیاسی نظام سے سیکولرازم کو دیس نکالنا چاہتی ہے تو پھر اسکا مطلب یقینا جمہوری طرزحکمرانی اور انسانی آزادیوں سے فرار کا راستہ اختیار کرنا ہے جو بھارت جیسے کثیر النسلی تکثیریت پرمبنی معاشرے کے لئے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔

تاریخ کا قتلِ عام:

جب سے بھارت میں بی جے پی کی حکومت برسراقتدار آئی ہے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تاریخ اور نصابی کتابوں سے لبرل اورجدیدیت پر مبنی خیالات کونکال کر ایک ہندونظریاتی نصاب مسلط کرنے کے منصوبے پر گامزن ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بی جے پی کی حکومت بھارت کے نصابی کتابوں میں تبدیلی لاکر ہندوانہ نظریات کو نصاب میں شامل کرنے اور سخت گیریت کو فروغ دینے کے حوالے سے کام کررہے ہیں۔ ریسرچ ٹائپ کے مواد کو ٹمپر کیاجارہاہے سخت گیرہندوقدامت پرستوں کوتعلیمی اداروں میں گھسا کر برہمنی نظریات کے فروغ میں اہم پیش رفت ہورہی ہیں۔ بھارتی جنتا پارٹی کے اتحادی ایک اورسخت گیرمذہبی جماعت آرایس ایس کے اعلیٰ عہدے داروں کے مطابق گزشتہ70سالوں کے دوران کانگریس نے ہندومذہب کو معاشرے سے باہر رکھا اب وقت آگیا ہے کہ ہندومت کوفروغ دیاجائے۔ یہی نہیں بھارت کے مذہبی طبقات بالخصوص وزیراعظم نریندر مودی بعض سائنسی نظریات کے متعلق بیان دیتے ہوئے آئے ہیں کہ دراصل یہی نظریات ان کی مذہبی کتاب بالخصوص رگ وید سے ماخوذ ہے جو کہ ہمارے لئے کوئی نیا خیال ہرگز نہیں اسی قسم کے خیالات پاکستان کے مذہبی سخت گیر طبقات بھی کہہ رہے ہیں کہ آئن اسٹائن کے نظریہ اضافت سے لیکر ایمبریالوجی اور جدید میڈیسن تک سارے جدید تصورات وایجادات دراصل مسلمانوں کے مقدس کتاب قرآن کریم سے ماخوز ہیں۔ نامور ترقی پسند ادیب،دانشور اور مصنف جناب سبطِ حسن صاحب اپنی مایہ ناز تصنیف”نویدِ فکر”میں اس مریضانہ ذہنیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔”مغرب(یورپ وامریکہ) کی طرف دوسرارویہ فاخرانہ اور سرپرستانہ تھا جو ان دنوں ہمارے ملک میں بہت عام ہے یعنی اس بات پر بغلیں بجانا کہ ہزار برس پہلے مغرب کو تہذیب وتمدن کا درس ہم نے دیاتھا اور یہ دعوٰی کرنا کہ نظامِ شمسی ہویا نظریہ ارتقاء، برقی قوت ہویا ایٹم بم، خلا میں پرواز ہویا چاند کاسفر تمام سائنسی ایجادوں اوردریافتوں کا ذکرہماری مقدس کتابوں اور علماء وحکماء کی تصنیفات میں پہلے سے موجود ہے۔ لہٰذا ہم کو مغرب(یورپ وامریکہ)سے کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ مہاسبھائی ہندوبھی وید اور پُران کے حوالے سے اسی قسم کے بے بنیاد دعوے کرتے تھے”۔

(نویدِ فکر صفحہ104)۔

مذہبی اقلیتوں کے خلاف تادیبی اقدامات:

نریندرمودی کی قیادت والی بھارتی جنتاپارٹی اورآرایس ایس کی موجودہ حکومت نے مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ریاستی اداروں اور مشتعل بلوائیوں کی مدد سے انتہائی اقدامات اٹھانے کا سلسلہ شروغ کررکھا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتارہاہے کہ قوموں کی زندگی میں حکمرانوں کے ایک غلط فیصلے کا خمیازہ کئی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اگر پاکستان کی تاریخ میں ضیاالحق کا ”تاریک دورِ حکومت”نہ آتا تو شائد ایک لاکھ کے قریب پاکستانی ناکردہ گناہوں کے جرم میں موت کی آغوش میں نہ چلے جاتے نہ ہی افغانستان کی سرزمین چالیس برسوں تک آگ وخون کی دلدل میں دھنستے رہتے۔ ضیاالحق اپنے ناجائزحکمرانی کو طول دینے کے لئے مذہب کا استعمال کیا تاریخ ونصابی کتابوں اور تعلیمی اداروں میں سخت گیریت،نفرت وعداوت اور رجعت پسندی کو فروع دیا جبکہ مذہبی اصلاحات کے نام پر اقلیتوں اور لبرل مسلمانوں کو دیوار سے لگاکر معاشرے میں موجود ترقی پسندی اور برداشت کے کلچر کو ہمیشہ کے لئے دفن کردیا۔ آج بھارت کے منتخب جمہوری حکومت پاکستانی آمر ضیاالحق کے نقشِ قدم پر چلنے کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھ رکھے ہیں۔ چند ہفتے قبل جموں کشمیرہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے وادی میں گائے کی ذبیحہ کو ممنوع قراردیا جس کے خلاف ورزی کی صورت میں ریاست کو سخت اقدامات اٹھانے کا حکم دیاگیا اس متنازعہ فیصلے بلکہ شخصی آزادیوں پر بدترین حملے کے بعد وادی کشمیر کے مسلمان اورانسانی حقوق کی تنظیموں نے بھر پور احتجاج کیا اور جگہ جگہ کھلے عام گاؤکشی کرکے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو ماننے سے انکارکیا۔ بحیثیت مجموعی وادئ کشمیر میں عدلیہ کے اس فیصلے کے بعد فضا انتہائی خراب ہے۔اس کے چند ہی روز بعد عید الضحٰی کے موقع پر ریاست اترپردیش کے ایک گاؤں میں ہندوجنونیوں نے ایک مسلمان محمد اخلاق کو گائے کا گوشت کھانے اور گھر پرجمع کرنے کے الزام میں ان کے گھر پر حملہ کرکے انہیں قتل جبکہ ان کے بیٹے کو شدید زخمی کردیا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق”اترپردیش کے ایک گاؤں کے باسی محمد اخلاق کو گائے کاگوشت کھانے اور گھر میں ذخیرہ کرنے کے الزام میں قتل کردیاگیا عینی شاہدین کے مطابق گھر کے قریب واقع مندر کے لاؤڈاسپیکر میں اعلان ہوا کہ اخلاق کے گھر میں گائے کا گوشت ذخیرہ کرکے کھایاجارہاہے۔ اس اعلان کے بعد لوگوں کے مشتعل ہجوم اخلاق کے گھرپردھاوا بول دیا جس کی وجہ سے محمد اخلاق موقع پر ہی دم توڑ دیا جبکہ اسکے بیٹے کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیاگیا ہے”۔لاؤڈ اسپیکر جیسے منحوس صوتی آلے کی تباہ کاریاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں صرف دوسال قبل تک ہمارے ملک میں بھی اسی آلے کی مدد سے ہندووں،عیسائیوں اور اہلِ تشیع برادری کے خلاف زہر اگل کر بستیوں کے بستیوں کو جلا کر خاکستر کیاجارہاتھا لاہور میں جوزف کالونی کوجلانے،کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے بستی پر بموں کے دھماکوں،کورٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے کو زندہ جلانا البتہ آپریشن ضربِ عضب اور نیشنل ایکشن پلان کی طفیل رفتہ رفتہ پاکستانی قوم اس منحوس آلے کی تباہ کاری سے تھوڑا بہت نجات حاصل کررہے ہیں۔ جونہی ہم(پاکستانی) اپنے ماضی کی تاریک دور سے چھٹکاراپاکر بہتری کی جانب گامزن ہے ٹھیک اسی وقت ہمارے پڑوسی ملک بھارت آزاد خیالی کو خیر باد کہہ کر دوبارہ قدامت پسندی اور رجعت پرستی کے ماحول میں داخل ہورہے ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ پاکستان اپنا36سالہ رجعتی پوشاک کو اتار کر تبدیلی کی جانب روان ہے توپڑوسی ملک بھارت اپنے 68سالہ سیکولرازم سے ہاتھ کھینچ کر دوبارہ دورِجہالت میں قدم رانجھاہے،بھارتی سیاسی نظام میں یہ تبدیلی سارے معاشرے کے لئے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہےالبتہ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کیا بھارتی خود کو تاریک راہوں سے نکال کر تکثیریت اور رنگارنگی کی فضاء کو دوبارہ اپنائیں گے یا پھرخود کوموت کے کنویں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دھکیل دیں گے؟۔

حوصلہ افزا اقدام:

ایک طرح بھارت کے حکمران عدم رواداری کے فروع میں پیش پیش ہیں تو دوسرے جانب بھارت کی سول سوسائٹی بھارتی حکومت کی رجعت پسندی کے خلاف سراپااحتجاج ہے میڈیا رپورٹوں کے مطابق بی جے پی حکومت کی سخت گیریت کے خلاف بھارت کے 200 سے زائد سرکردہ فلم سازوں،قلم کاروں،ادیبوں،سائنسدانوں،مورخین اور فلم سازوں نے اپنے ایوارڈزحکومت کوواپس کرکےحکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں جبکہ اسی دوران بی جے پی حکومت کے وزراء سول سوسائیٹی کے ان اقدامات پر شدید اعتراضات کر رہے ہیں۔البتہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بھارت کے دانشوروں نے حکومت کے گمراہ کن اقدامات کے خلاف جو احتجاج کر رہے ہیں اس سے امید بنتی ہے کہ شائد بھارتی معاشرہ موجودہ حکومت کے اقدامات کو برداشت کرنے کے لئے تیارنہیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں