The news is by your side.

پاک افغان سرحد، کیا واقعی خطے کی صورتحال تبدیل کرسکتی ہے؟

امریکہ کی سابق وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن 2009 جب اسلام آباد تشریف لائی تو انہوں نے خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں ،غیر سرکاری تنطیم کے نمائندوں اور علماء کے مختصر وفد سے ملاقات کی اور اس ملاقات کی کوریج کے لئے میں صرف ایک پاکستانی صحافی وہاں  موجود تھا۔ اس ملاقات میں پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے تفصیل سے باتیں ہوئی اور  دیگر باتوں اور وضاحتوں کے ساتھ ہیلری کلنٹن نے کہا تھا کہ پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت اس روڈ کی طرح ہے جہاں کبھی ناہمواری دیکھنے کو ملتی ہے اور کبھی کشادہ ہموارروڈ۔ لیکن جب ہم افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو دیکھتے ہیں تو یہاں پر بھی اسی قسم کی صورتحال نظر اتی ہے ۔

ابھی دیکھئے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی کی تین سال بعد افغانستان میں اغوا کاروں کے چنگل سے رہائی پر نہ صرف ان کا خاندان اور اہل وطن نہ صرف خوش دکھائی دے رہے ہیں بلکہ افغانستان جہاں ایک تاثرہے کہ لاقانونیت عروج پر ہے اور آئے روز بم دھماکوں کے باعث ان کے قانوں نافذ کرنے والے اداروں کی اہلیت پر سوال اٹھ رہے ہیں ،         وہاں کی فورسز اتحادی افواج کے تعاون سے علی حیدر گیلانی کو بازیاب کرانے میں کامیاب ہوجاتی ہے اس پر خوشگوار حیرت کا اظہار بھی کیا جارہا ہے اور یقیناً وہ تمام افراد جو پاک افغان تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہیں اس کی بازیابی کو اہم پیش رفت قرار دے رہے تھے  لیکن پھر اچانک یہ خیبر سامنے آئی کہ طورخم کے مقام پر پاک افغان سرحد کو کشیدگی کے باعث بند کردیا گیا۔ سرحد چاہیے بین الاقوامی ہو یا قومی جب بند کردی جاتی ہے تو اس کا براہ راست اثر عام لوگوں اور تجارت پر پڑتا ہے ۔ جیسے پاک انڈیا سرحد میں لائن اف کنٹرول والے حصے کو متازعہ سمجھا جاتا ہے اور وہاں جب بھی باڑھ لگانے کی کوشش کی گئی اس کی مخالفت دیکھنے کو ملی اور یہی صورتحال 2500کلومیٹر لمبی اور مشکل پاک افغان سرحد کی بھی کیونکہ جب فرنگی جنوبی ایشیا سے جارہے تھے تو اس خطے کی اکثر بین الاقوامی سرحدات کو متازعہ چھوڑ دیا گیا ان میں پاک افغان سرحد بھی شامل ہے جس کے بارے میں افغان حکومت کا موقف ہے کہ افغان حکمران امیر عبدالرحمان اور برطانوی نمائندے سر مور ٹائمر ڈیورنڈ کے مابین 1893میں ہونے والا معاہدہ جو ایک سال کے لئے تھا ، ختم ہونے کے بعد پاک افغان سرحد سے ملحقہ علاقہ افغانستان کے دائرہ اختیار میں اتا ہے جبکہ دوسری طرف یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 1950میں برطانیہ کے ہاوس آف کامن میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ڈیورنڈ لائن پاکستان اورا فغانستان کے مابین بین الاقوامی سرحد ہے ۔


بارڈر پر باڑ لگانے پر کشیدگی کے باعث پاک افغان سرحدگزشتہ دو روز سے بند


پاک افغان سرحد پر تنازعہ معتدد مرتبہ اٹھا لیکن پھر دب جاتا ۔ حالانکہ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے دور حکومت میں جب یہ معاملہ اٹھایا گیا تو انہوں نے بھی افغان موقف کی حمایت کی تھی ۔ امریکہ کے افغانستان پر حملے اور اس کے تناظر میں پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا اور یہاں متعدد فوجی آپریشن بشمول حالیہ ضرب عضب کے نتیجے میں افغانستان بھاگنے والے دہشت گردوں نے افغانستان کو بیس کیمپ بناکر پاک افغان سرحد کے ذریعے دہشت گرد بھیجنے شروع کئے جس کی حالیہ مثال باچاخان یونیورسٹی پر حملہ ہے ، تو پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے باڑھ لگانے کی تجویز ایک بار پھر سامنے ائی اور جب اس پر عمل درآمد شروع ہوئی تو تنازعہ کھڑا ہوگیا ۔ یہ تنازعہ اپنی جگہ لیکن اس بندش کے باعث عام لوگ و تاجر جو متاثر ہورہے ہیں اور شدید گرمی جب درجہ حرارت 41ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے سرحد کے آرپار سرحد کھلنے کے انتظار کرنے والے پاک افغان تعلقات کو کس پیرائے میں دیکھ رہے ہوں گے اس کا اندازہ خوب کیا جاسکتا ہے  جو خوشی علی حیدر گیلانی کی بازیابی پر ہورہی ہے اور افغان حکومت کو ہرسطح پر شکریہ ادا کیا جارہا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سرحد کی بندش اس صورتحال کو الٹ کرسکتی ہے ۔

اس وقت جو خطے کی صورتحال ہے اور پاک چائنا کوریڈورڑ منصوبہ بھی قابل عمل ہونے کو ہے اور پاکستان تو افغانستان کے امن کو اپنی ترقی قرار دے چکا ہے ایسی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ متنازعہ معاملات بات چیت کے زریعے حل کرکے عمل اقدامات کی طرف بڑھا جائے ۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں