The news is by your side.

ملا منصور کی مبینہ موت۔۔ آگے کیا ہوگا؟

افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کی موت و حیات سے متعلق متضاد خبریں آرہی ہیں ، عموما امریکی ادارے کسی اعلی ہدف کو اس کی کمیں گاہ سے نکالنے کے لیے ایسے دعوے کرتے رہے ہیں، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسامہ سے لے کرالقاعدہ کے متعدد ہائی پروفائل ٹارگٹ امریکی ڈرونز یا آپریشن کا نشانہ بنے بہرحال اس معاملے کی حقیقت بھی جلد سامنے آجائے گی۔

ملا اختر منصور نے ملا عمر کے بعد امارت اسلامیہ کی سربراہی سنبھالی تھی اور کامیابی عسکری و سیاسی چالوں سے مخالفین کو زچ کیے رکھا ، حالیہ مذاکرات میں وہ کسی دباؤ کا شکار نہیں رہے بلکہ ان کی اپنی ہی شرائط تھیں یہی وجہ ھے کہ دوست و دشمن یعنی ہر طرح کے ممالک کی آنکھ میں کھٹکنے لگے تھے اگر یہ خبردرست ثابت ہوتی ہے تو لامحالہ اس کا اثر طالبان پہ پڑے گا، ان میں اختلاف شدت اختیار کرسکتا ہے جسے کچھ عرصے قبل ملا اختر منصور نے بڑی جدوجہد کے بعد ختم کیا تھا۔

اس صورتحال کے بعد ممکن ہے کہ مذاکرات کی ٹیبل پہ کچھ پیش رفت ہوسکے لیکن اسی دوران افغٓنستان میں موجود داعش کے خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو اس خبر کے نتیجے میں توانا ہوسکتی ہے۔ فی الحال طالبان نے انہیں قابو کر رکھا ہے۔ یہاں ایک بات اور سمجھنے کی ہے کہ امریکہ وغیرہ کو سیاسی اسلام سے کہیں زیادہ جہادی اسلام سے مسائل ہیں، سیاسی اسلام کا حل انہوں نے جمہوریت میں تلاش کرلیا ہے، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس کھیل کے ذریعے اسلامی تحریکوں کا اقتدارمیں آنا اتنا آسان نہیں جتنا جمہوریت کو منہج کے طورپہ اختیار کرنے والےسمجھتے ہیں اور اگر اس دوران مصر یا تیونس کی طرح کوئی اپ سیٹ ہو بھی جاتا ہے تو اسلامی ممالک کی افواج ایسی تحریکوں کا علاج کرنے کے لیےکافی رہیں گی، ترکی کو البتہ استثنیٰ ضرورحاصل ہے لیکن اردگان کے گرد لپٹے سیکیولر آئین نے اتنے مسائل پیدا کر رکھے ہیں کہ انہیں حل کرتے کرتے عمر بیت جائے گی مگر پھربھی دلی دور ہی رہے گا، لیکن اس کے باوجود بہت سے معاملات میں اردگان ایسی پالیسی اختیار کرتے ہیں جسےامت کی اکثریت پسند کرتی ہے۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاسی اسلامی تحریکوں کو رد کیا جائے یا انکی غلطیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تضحیک کا نشانہ بنایا جائے یقینا ایسی تحریکوں کے اکابرین نے جمہوریت کا راستہ کچھ سوچ سمجھ کر ہی اپنایا ہوگا اور پھران کی کوشش رہی کہ خون بہائے بغیر حکمت کے ساتھ اپنے اہداف تک رسائی ممکن بنائی جائے تاکہ کم قیمت میں اعلیٰ مقاصد حاصل کئِے جاسکیں اور رائے بھی ان کی ہمنواء ہو ۔ یہ بات طے ہے کہ امریکی کسی جہادی تحریک کو مخصوص عرصے سے زیادہ پنپنے کی اجازت نہیں دے سکتے، سویت یونین اور صدام کے خلاف ان کی مہم جوئی صرف اسلامی ممالک ہی کو نہیں انہیں بھی مہنگی پڑی ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکی ادارے دنیا بھر میں جہادی رہنماوں کو تلاشتے ہیں اور پھر انہیں گرفتار یا قتل کر ڈالتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ سیاسی اسلامیوں کی نسبت جہادی سخت گیر ہونے کےساتھ ساتھ اس مروجہ نظام کو بھی قطعاً تسلیم نہیں کرتے جسے جمہوریت کے نام سے اسلامی و غیراسلامی دنیا میں پذیرائی حاصل ہے۔

یہی وجہ ہےکہ اس نظام کے خلاف اٹھنے والی آواز سے مکالمے کے بجائے ڈورنز بھیجے جاتے ہیں اور افواج اتاری جاتی ہیں ، لیکن کیا کبھی کوئی نظریہ صرف توپوں سے خاموش کیا جاسکا ہے؟ اس پہ یورپ و امریکہ کے پالیسی سازوں کو سوچنے کی ضرورت ہے اگرمحض قوت سے ہی فتوحات ممکن ہوتیں تو آج اسلامی ممالک انتشار کا شکارہونے کے بجائے جمہوریت کے مزے لوٹ رہے ہوتے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں