The news is by your side.

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

پشاور اور اردگرد کے علاقوں میں بدقسمتی سے دشمنی کے واقعات میں روزانہ دو سے تین افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات میڈیا میں عام سی خبر بن گئی ہے لیکن 23مئی کو ایک ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے کہ میڈیا لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور میں آپریشن تھیٹر سے وارڈ کے درمیاں فائرنگ کے نتیجے میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موت کی آغوش میں جانے والے  انسان کی حقیقت معلوم کرنے سرگرداں ہیں لیکن معلومات کے ذرائع خاموش اور غیر سنجیدہ۔

جی ہاں! یہ بات ہورہی ہے کہ خواجہ سرا علیشاہ کی جو اپنے فن سے تماش بینوں کے ذوق کی تسکین کا ذریعہ تو بنتے ہیں لیکن اس بے حسی کو کیا کہے جو انہیں زندگی میں عام انسان کو حاصل حقوق سے  بھی محروم رکھتے ہیں اور موت کو بھی مذاق بنا دیا جاتا ہے۔

علیشاہ کو مبینہ دشمنی کی بنیاد پرفائرنگ کرکے جب زخمی حالت میں اسپتال پہنچایا گیا تو اسپتال کے اردلی نے شور مچانا شروع کردیا کہ ’’ہیجڑہ زخمی حالت میں آیا ہے کون سے وارڈ میں پہنچاؤں۔ اس وقت مجمع اکٹھا ہوا تو علیشاہ کو دیکھنے کی غرض یہ تھی کہ خواجہ سرا تکلیف میں کیسے دکھائی دیتے ہیں۔

جب سٹریچر مردوں کے وارڈ میں داخل ہوا تو شور اٹھا یہ مرد نہیں، عورتوں کے وارڈ میں پہنچاؤ، ایک انسان زخمی ہے اس فورا طبی امداد چاہیے  اور یہ زخمی جب زنانہ وارڈ پہنچتا ہے تو وہاں بھی دروازے بند کردئیے جاتے ہیں۔

اس دوران جب علیشاہ کی حالت بگڑی تواسے اسپتال کے علیحدہ کمرے میں پہنچایا گیا جہاں مسیحا علاج کی حامی تو بھرتا ہے لیکن یہ بھی بتا رہا ہے کہ اسپتال میں تمھارے لئے کوئی معالج ہے نہ وارڈ۔

اس دوران جب میڈیا پہنچا تو غافل افراد کو احساس ہوا کہ خواجہ سرا بھی انسان ہیں، سپریم کورٹ نے ان کے حقوق اور عام شہریوں کے حقوق میں کوئی فرق روا نہیں رکھا، اسلامی نظریاتی کونسل ان کو ایک جنس مانتی ہے۔

علیشاہ کو بولٹن بلاک منتقل تو کردیا جاتا ہے لیکن کمرے کو اندرسے بند رکھا جاتا ہے اور اس کی ہم جنس فرزانہ ہی تیمارداری پر فائز تھی اوروہ بھی خوف کی حالت میں۔ شی میل ایسوسی ایشن کے رہنما قمر نسیم کے مطابق علیشاہ کو بروقت اور فری علاج نہ ملنے کے باعث اس کی موت واقع ہوئی ہے۔ خیبر پختونخواہ میں 45 ہزار خواجہ سرا موجود ہیں اور 2015 میں خواجہ سراؤں کے ساتھ 300سے زائد تشدد اور ہراساں کے واقعات رونما ہوئے  جن میں 46 خواجہ سرا قتل ہوئے لیکن کوئی ایف ائی آر درج ہوئی اورناہی کوئی گرفتاری عمل میں آئی۔

علی شاہ کی موت جب میڈیا میں نمایاں ہوئی تو پہلی مرتبہ ایف آئی آردرج ہوئی اورقاتل کو بھی گرفتارکرلیا گیا  جس کا کہنا تھا کہ ایک پروگرام میں دونوں کے مابین تلخ کلامی ہوئی اور اس نے بدلہ لینے کی غرض سے اس کو نشانہ بنایا۔

علیشاہ تو اس جہاں میں نہ رہی لیکن اس کی موت نے پولیس کو بھی اپنی ذمہ داری یاد دلائی اور یہ ہدایات جاری کی گئی کہ خواجہ سرا کسی بھی فنکشن پرجانے سے قبل متعلقہ تھانے میں اندراج کرائے، دیگرشہریوں کی طرح ان کو بھی سیکیورٹی فرایم کی جائے گی اور ان کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔ خیبرپختونخواہ کی حکومت  نے بھی اپنی پارٹی کے منشور جس میں انصاف سب کے لئے کو اولیت حاصل ہے پرعمل پیرا ہوتے ہوئےاب اسپتال میں خواجہ سراؤں کے لیے علیحدہ کمرے اور بیڈز مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

علیشاہ کا واقعہ رونما تو ہوگیا لیکن اگرمعاشرہ ان سے لاتعلق نہ رہے ،ان کے جینے کے حق کو تسلیم کرے اور سب سے بڑھ کر خواجہ سراؤں کے خونی رشتہ دار ان کا تمسخر اڑانے کی بجائےان کو دیگر افراد کی طرح قریب رکھے تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں