موٹر سائیکل میں بہت دنوں سے کام تھا آج موقع میسر آیا تو سوچا سرفراز بھائی کی شاپ پہ چھوڑ آوں سرفراز بھائی مکا چوک عزیز آباد کے پاس واقع محمدی مسجد کے بالکل سامنے اپنی دوکان سجاتے ہیں ، میں انہیں 1988 سے دیکھ رہا ہوں جبکہ وہ اس کے بھی پہلے سے وہاں موجود ہیں اور وہ اس زمانے کے استاد ہیں جب الطاف حسین اپنی ففٹی موٹرسائیکل کا کام سرفراز بھائی سے کرواتے تھے اور دونوں ملکر انکی بائیک کا سامان بازار سے خرید نے جاتے تھے ۔
خیریہ تو الگ سے ذکر آگیا ہوا یوں کہ جب آج بائیک ان کے حوالے کی تو شامل سلطان سے میں نے کہہ دیا تھا کہ مجھے آفس جاتے ہوئے وہاں سے وصول کرلے اور شام میں وہیں چھوڑ دے، گرمی کی شدت سے گھبرا کر میں مسجد چلا گیا ، بس وہیں یادوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ میرا پچپن و لڑکپن انہی گلیوں میں گزرا ھے بلکہ الطاف حسین سے ملاقات کی سعادت بھی اسی علاقے میں حاصل ہوئی جب انہوں نے میرے سلام کے جواب میں مجھے پیار کیا ، تب وہ ایم کیو ایم کے کھالوں کے ایک کیمپ کے دورے پہ آئے ہوئے تھے اور جیسے ہی محلے کے بچوں کو انکی آمد کی اطلاع ملی تو مسجد کا شارٹ کٹ استعمال کرتے ہوئے چپلیں ھاتھوں میں پھنسائیں اور منہ سے ہارن بجاتے ہوئے گھڑی بھر میں ہم سب الطاف حسین کے سامنے پہنچ چکے تھے۔
دستگیر کی غوثیہ مسجد میں اباجی امامت و خطابت کرتے تھے ، اس مسجد کا دلچسپ ترین پہلو یہ تھا کہ یہاں بریلوی حضرات نماز جمعہ کے بعد محفل نعت سجاتے اور درود سلام پڑھا جاتا آج کل کا علم نہیں کہ کیا ہوتا ھے ، تبلیغی جماعت کی تعلیم روزآنہ ہوتی تو جماعت اسلامی و اسلامی جمعیت طلبہ کے پروگرامز و دروس قرآن بھی اسی مسجد میں بلاناغہ ہوا کرتے ، ایم کیو ایم کے چِئیرمین عظیم احمد طارق جب جمعہ پڑھنے آتے تو انکے ساتھ ایک عدد پولیس گارڈ ہوا کرتا تھا جسے سارے بچے بڑے انتہائی حیرت و تجسس سے تکتے تھا ، بلاشبہ وہ اس علاقے میں بالکل نیا رجحان تھا وہیں ان سے ملاقات بھی ہوجاتی تھی ، ہمارا گھر مسجد سے منسلک تھا مگر ارد گرد کے پکے و اچھے گھروں کی نسبت خستہ حال بھی تھا اور بے ڈھنگا بھی ، سمینٹ و ٹین کی چادروں میں ایسی غضب کی گرمی پڑتی کہ درختوں سے بھری مسجد کے سوا کہیں گزارا نہ ہوتا۔ امی کہتی تھیں کہ شدید گرمی ھے لیکن بچپننے میں کرنٹ اتنا ہوتا تھا کہ پتہ ہی نہیں لگتا تھا ، دن کے تین ہوں یا رات کے تین ہمیں تو سب یکساں محسوس ہوتا۔
افطار سے پہلے کی واحد تفریح دستگیر کے لڑکے بالوں کا وہ کرکٹ ٹورنامنٹ ہوا کرتا تھا اجسے دیکھنے دور و قریب سے لوگ جمع ہوجاتے اور اذان سے کچھ دیر پہلے منتشر۔ لگے ہاتھوں پڑوسیوں کی دیوار پھلانگ کے کچے آم و بیریاں توڑنا بھی سب کا محبوب و مرغوب مشغلہ تھا۔
غوثیہ مسجد کے عقب میں عسکری امام باڑہ تھا ، مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ محرم میں سنی بچوں کو پکڑ وہاں بند کیا جاتا ہے اور پھر انہیں کاٹ کر حلیم پکایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم نہ صرف وہاں جاتے بلکہ کھیل کود بھی ہوتا کوئی منع نہیں کرتا تھا ظاہر ہے سب پروپیگنڈہ تھا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان ایام میں انگریز کراچی بہت آتے تھے یہاں تک کے دستگیر کی گلیوں بلکہ اپنی مسجد تک میں ایک انگریز خاتون سیاح کو دیکھا جسے محلے والے کھانے پینے کی اشیاء فراھم کر رھے تھے۔اسی طرح وہاں کے پارک میں انگریز جوڑا نظر آیا جو بے فکری سے وہاں بیٹھا ہم بچوں کو کھیلتا دیکھتا رھا اور تصاویر بناتا رھا۔ اب سوچو تو لگتا ھے کہ خواب ہی تھا مڑ کر دیکھو تو سراب لگتا ھے۔ محلے کی خواتین عشاء کے بعد قریبی پارک میں جمع ہوتیں جہاں غیبتوں کے ساتھ رشتے بھی دیکھے جاتے بی بی سی ریڈیو پاکستان اور آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس کی موسیقی مختلف گھروں سے آتی اور کانوں میں رس گھولتی ، بچوں کی بڑی خواہش کسی کے گھر میں وی سی آر پہ ھندی فلم دیکھنا تھی ، جسے اپنے اپنے گھر والوں سے چھپ چھپ کے دیکھا جاتا تھا۔
محلے میں لائبریاں قائم تھیں جہاں سے داستان امیر حمزہ سے لے کرڈاکٹرمبارک تک کی کتب ملتی تھی۔ آٹھ آنے میں کرائے کی سائیکل ملتی جسے پورے محلے میں گھماتے تھے چونکہ دو بچے ملکر لیتے تھے تو پندرہ پندرہ منٹ باہمی رمضامندی سے چلاتے۔
نماز عصر و مغرب کی ادائیگی کے بعد مسجد کے باھر جمع ہونے والے سیاسی و سماجی سرگرمیوں پہ گفتگو کرتے جسے ہم جیسے بڑے غور سے سنتے تھے۔
انہی دنوں کے رمضانوں کا قصہ ھہے کہ دوپہر میں مساجد محلے کے بڑوں نوجواں اور بزرگوں سے بھر جاتی تھیں۔ شہر کی ہر مسجد کا یہی حال ہوتا تھا تب گھروں میں اے سی شاذ ونادر ہی ملتے تھے اسی لیے بہترین وقت گزاری مساجد کے ہالوں، وضو خانوں اور حوض کے کنارے ہوا کرتی تھی ہرکوئی خود کو پانی سے گیلا کرتا حوض میں آدھا ڈوب جاتا۔ بچے ظہر تا تراویح اودھم مچا کر رکھتے، تلاوت عبادت، شرارت، سبھی کچھ ہوا کرتا تھا۔
یہ ساری کہانی یوں یاد آئی کہ جس محمدی مسجد میں کچھ وقت رکا رہا، رمضان کی کئی تپتی دوپہریں یہاں بھی محلے کے دوستوں کے ساتھ دھما چوکڑی کرتے گزاریں لیکن آج مسجد میں موت جیسا سناٹا تھا نماز کے بعد بہت تھوڑے سے لوگ وہاں بیٹھے یا لیٹے ، زیادہ تر نے ٹھنڈے گھروں کی راہ لی اور بچے تو دور بین میں نظر نہ آئے ۔
شاید وقت تبدیل ہوچکا ھے ، جیسا بچپن ہمارا گزرا ویسا اب نہیں ملتا ، مگر کہیں کہیں، ہاں جہاں تراویح پڑھتا ہوں وہاں مکمل شیطان بچے ہیں لیکن لگتا ھے کہ دوپہر مساجد میں گزارنے کا رواج کراچی کے بہت سے علاقوں میں ختم ہوچلا ہے۔
یہی تبدیلی ہے اسی کا نام زندگی ہے۔ ہمیں بدلتے حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے یہی ہماری کل حقیقت ہے۔