تاریخی طور پہ یہ بات بالکل درست ہے کہ افغانوں یا پشتونوں کا علاقہ اٹک تک رہا لیکن وہ ماضی تھا اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ہر پشتون کی بطور قوم شناخت افغان ہی ہے لیکن جس طرح عراقی یا کویتی عرب قومی ریاستوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے عین یونہی دونوں ممالک میں بسنے والے پختون اب افغانی و پاکستانی پشتونوں کی صورت اختیار کر گئے ہیں ، گزرے برسوں میں بہت کچھ بدل چکا ہے اور تبدیلی کے اس فطری عمل کو پاکستانی پشتونوں کی اکثریت وفاق و اسٹیبلشمنٹ سے بہت سے معاملات میں اختلافات کے رکھتے ہوئے بھی خوش دلی سے تسلیم کرچکی۔
باوجود اسکے کہ مسلسل آپریشنز ہوئے دربدری مقدر بنی لیکن آپ کل اس معاملے پہ ریفرینڈم کرالیں پشتونوں کا فیصلہ پاکستان کیساتھ رہنے کا ہی ہوگا ، اس حوالے سے ماضی میں قوم پرستوں کی جانب سے دکھائے گئے خواب سراب نکلے۔
ایک چھوٹی سی مثال خیبر و بلوچستان کے پشتون قوم پرستوں کی انتخابی کامیابی ہے، جب انہیں حکومتیں ملی تو اقرباء پروری و کرپشن کے ریکارڈز توڑ ڈالے، اچکزئی صاحب جن کی میں بہت عزت کرتا ہوں ، نے اپنے پورے خاندان کو اعلی ترین عہدے دلا کر بتا دیا کہ کہ وہ کتنے اصول پسند ہیں۔
کام شام کرنا نہیں ہے جو انکے اختیار میں ہے ، اہاں اسٹیبلشمنٹ کو گالیاں دیکر اپنے کارکنوں کو مطمئن ضرور رکھنا ہے۔
ویسے پشتونوں کی اکثریت اب ان کے چکروں سے نکل چکی ہے اور قومی دھارے میں اپنا کردار ادا کرنے جارہی ہے، البتہ قبائیلیوں کیساتھ ابھی تک غیر انسانی و غیر قانونی رویوں کی وجہ سے اندر ہی اندر اشتعال پیدا ہو رہا ہے جس کا بروقت تدارک بہت زیادہ ضروری ہے اسی طرح مکمل کوائف رکھنے کے باوجود طویل عرصے سے شناختی کارڈ کے حصول میں بہت سی مشکلات ہیں جنہیں رفع کرنا سرکار و متعلقہ اداروں کا کام ہے، کیونکہ قوم پرست اس جیسے دیگر معاملات پر سیاست کرکے اپنی دکانیں چمکاسکتے ہیں ۔
پاکستانی پشتون کم و بیش انہی مسائل کا شکار ہیں جو بیشتر شہریوں کو لاحق ہیں ، قوم پرست جماعتوں کی پرانی موجودگی کے باوجود خیبر پختونخواہ کے عوام ہمیشہ بہتر سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا کسی بھی ایک جماعت یا شخصیت کو مستقل بنیادوں پہ انتخابات میں کامیاب نہیں کرایا بلکہ کارکردگی کو ہمیشہ ترجیح دی یہی وجہ ہے کہ تقریبا ہر قومی مذہبی اور پختون قوم وہاں اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔
بنیادی طور پہ قوم پرست جماعتیں جو منشور و نعرے دیتی رہیں ہیں انکا زمینی حقائق سے اب بہت گہرا تعلق نہیں ہے ، ہاں اس میں رومان پسندی و کشش ضرور ہے اور ٹھنڈے کمرے میں بھاپ اڑاتی کافی کیساتھ اس موضوع پہ بحث لطف ضرور دیتی ہے۔
یہ حال صرف پشتون قوم پرستی تک محدود نہیں اس سے ملتی جلتی ہر ایسی کیفیت و نظریات کو قوم مسترد کرتی جارہی ہے ، کراچی کا جائزہ لیجئے جہاں ایک دور میں قومی اسمبلی کی مختلف نشستوں پہ ایم کیو ایم لاکھوں ووٹ سمیٹ لیا کرتی تھی اب کامیابی تو ملتی ہے لیکن ووٹوں کا تناسب بہت گر چکا ۔
سندھ کے دیگر شہروں میں قوم پرست کبھی انتخابی کامیابی حاصل نہ کرسکے لے دے کے صرف بلوچستان میں قوم پرست مضبوط و منظم ہیں
ایک تبدیلی یہ ضرور ہوئی ہے کہ ملکی سطح پہ ان جماعتوں کو پذیرائی مل رہی ہے جن کا منشور وفاقی ہے ، البتہ ان جماعتوں کو اپنی کارکردگی مزید بہتر کرنی ہوگی
آخری بات یہ کہ افغانستان اگر پشتونوں کا اتنا ہی بڑا گھر ہے تو یہ قوم پرست عناصر اسلام آباد کراچی لندن دبئی نیوریاک اور کوالالمپور وغیرہ میں ہی کاروبار و رہائش کا انتظام کیوں کرتے ہیں ؟
ننگرھار ، لغمان، پکتیا، لوگر ، فراہ، کندہار و کابل پہ نظر کرم کیوں نہیں، کیا وہاں پنجابی بستے ہیں ؟ ؟ ؟ ۔
پرابلم یہ ہے کہ ڈیورنڈ کے دونوں طرف اچکزئی صاحب جیسے لوگ صرف اٹک و بولان تک کے علاقے کو افغانستان کا حصہ سمجھتے ہیں،حالانکہ افغان سلاطین ہند تک حکمراں رہے ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ مودی سے کہا جائے کہ بھیا ذرا دلی ہمیں پکڑانا۔
ظاہر ہے کہ یہ لوگ نہیں بولیں گے ، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس قسم کے غیر سنجیدہ مطالبات کی حقیقت کیا ہے۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ سکندر یونانی نے بھی یہاں اقتدار قائم کیا تھا، لیکن یونان کے نام پہ پوشیدہ امراض کے دواخانے تو خوب کھلے پر کسی حکیم نے ان علاقوں کو سکندر اعظم کے دیس کی علمداری میں دینے کا مطالبہ نہیں کیا۔