اکوڑہ خٹک میں واقع مدرسہ حقانیہ کا شمار طالبانائزیشن کے حوالے سے نمایاں اداروں میں ہوتا ہے مبصرین مدرسہ حقانیہ کو طالبان پیداکرنے والی سب سے بڑی یونیورسٹی کے طورپر یاد کرتے ہیں افغان طالبان کی قیادت میں سے اکثریت کا تعلق اس ادارے سے رہاہے جبکہ حقانی نیٹ ورک سمیت ٹی ٹی پی کی قیادت بھی مدرسہ حقانیہ کے فارغ التحصیل افراد کے ہاتھوں میں ہیں۔ سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی منصوبہ بندی بھی مبینہ طور پراسی ادارے میں ہوئی تھی جبکہ ملک میں دہشت گردی وانتہاپسندی کے متعدد وارداتوں میں اس ادارے کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ ان سارے ننگے ارضی حقائق کے باؤجود صوبہ خیبر پختونخواہ میں تبدیلی والی سرکار نے اس ادارے کے ’درخشاں ماضی‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے مالی سال 2016-17ء کے بجٹ میں تیس کروڑ روپے مختص کئے ہیں جس نے ذرائع ابلاغ اور علمی حلقوں میں نئے بحث کو جنم دیا ہے، ایک جانب اعتدال پسند اس فیصلے کو پاکستان تحریک انصاف کی تاریخی نظریاتی بحران ، کشمکش، اورتذبذب سے تعبیر کررہے ہیں تو دوسری جانب چیئرمین پی ٹی آئی اور صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ حکومت مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے اور ان میں اصلاحات لانے کی غرض سے اس قسم کے اقدامات اٹھا رہے ہیں، مدرسہ حقانیہ کے لئے تفویض کردہ رقم اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ اصل میں عمران خان کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کو کاؤنٹرکرنے کے لئے اس قسم کاڈرامہ رچایاجارہاہے۔ گزشتہ روزایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے موقف اختیار کیا کہ مشرف دور میں جب امریکہ کی ایما ء پر مدارس کی مالی معاونت کرکے ان میں اصلاحات لانے کی کوشش کی گئی تو مدارس نے اس فیصلے کو ماننے اور مالی امداد لینے سے انکارکیاتھا جبکہ ہماری کوششوں سے پہلے مولاناسمیع الحق نے پولیو مہم کا آغاز کیا تو صوبے کی سطح پر پولیو مہم کامیاب رہی جس پر بل گیٹس سمیت متعدد اہم شخصیات نے ہمیں مبارک باددی اور اس پر خوشی کا اظہار کیا۔ عمران خان کا یہ بھی موقف تھا کہ ملک میں بیک وقت تین قسم کے متوازی نظام تعلیم موجود ہیں یعنی اردو میڈیم ،انگریزی میڈیم اورمدرسہ نظام ۔ تین سے پانچ لاکھ بچے انگریزی ، دس سے پندرہ لاکھ اردو میڈیم اور پچیس لاکھ سے زائد مدرسوں میں زیرتعلیم ہیں جن کا تعلق غریب خاندانوں سے ہیں ہماری کوشش ہے کہ ان پچیس لاکھ بچوں کو بھی جدید علوم سے بہرہ مند ہونے کا موقع فراہم کریں تاکہ وہ بھی ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار اداکرسکیں۔ جب عمران خان صاحب سے یہ پوچھا گیا کہ ملک میں دہشت گردی کے بڑے واقعات جیسا کہ سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی قتل میں مدرسہ حقانیہ کا بلواسطہ یا بلاواسطہ کردار رہاہے ایسی صورت میں باقی مدرسوں کو چھوڑ کر صرف مدرسہ حقانیہ پر نوازشا ت کیا معنی رکھتا ہے ۔ تو خان صاحب کا جواب تھا کہ سانحہ صفورا سمیت دہشت گردی کے متعدد وارداتوں میں یونیورسٹیوں کے فارع التحصیل افراد ملوث رہے کیاان یونیوورسٹیوں پر بھی پابندی عائد کرنی چاہئے؟۔
بظاہرخان صاحب کے دلائل کافی وزنی ہیں لیکن زمینی حقائق اور ان بیانا ت میں کھلا تضاد ہے کیونکہ سن 2013ء کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے منشور میں تعلیم ، صحت، سماجی انصاف اور اختیارات کی نچلی سطح پرمنتقلی سرفہرست تھی، تعلیم وصحت کے شعبوں میں تھوڑی بہت تبدیلی بھی دیکھنے کو ملی لیکن نظامِ تعلیم میں انقلابی اصلاحات کے دعوے محض دعوے ہی رہے ۔ جب خیبرپختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو صوبے میں تعلیم کی بہتری کے لئے یورپی یونین نے حکومت کو اربوں ڈالر کی امداد دی اسی امدادی رقم سے مانیٹرنگ اینڈ ایوالویشن کا نظام متعارف کیاگیا اس نظام کے تحت مانٹرنگ کے لئے افراد بھی بھرتی کئے گئے اور انہیں جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا جس کا بنیادی مقصد اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانا تھا اس نظام کی بدولت اساتذہ کی حاضری میں غیر معمولی اضافہ ہوا لیکن نظام تعلیم میں موجود مسائل اس سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے جس پر ابھی تک کوئی توجہ نہیں دی گئی خاص کر پرائمری تعلیم اسی پرانے ڈگر پر جاری ہے پرائمری تعلیم (جو کہ اعلیٰ تعلیم کے لئے جوہر کی مانند ہے) بنیادی طورپر اول اعلیٰ سے لے کر پانچویں جماعت یعنی چھ کلاسز پر مشتمل ہے جبکہ جدید سائنسی طریقہ کار میں پری پرائمری اور پری نرسری کی کلاسوں کا اجرا بھی ہواہے یعنی اب پرائمری نظام کے علاوہ پرائمری سے قبل دو سے تین مزیدکلاسیں شروع ہوچکی ہے بعض نجی سکولوں میں ان کلاسوں کا آغا زبھی ہوچکا ہےالبتہ ابھی تک حکومت کو اس کی کانوں کان خبر نہیں۔
سرکاری تعلیمی پالیسیوں کے مطابق ہر چالیس طالب علموں کے لئے ایک استاد مقرر ہوتا ہے۔ خیبر پختونخواہ کے اکثر اضلاع میں پرائمری سکولوں میں چھ کلاسوں کے لئے صرف دو اساتذہ مقرر ہے اسی طرح نوے فی صد سکول دوکمروں پر مشتمل ہے یعنی ایک پرائمری سکول چھ کلاسوں ،دواساتذہ ، دوکمروں اور ایک کلاس فور ملازم پر مشتمل ہیں ۔ ہر پیریڈ کا دورانیہ تیس سے پنتس منٹ کا ہوتاہے اس تیس پینتیس منٹ میں ایک استاد تین کلاسوں کو پڑھانے، گھرکاکام چیک کرنے اوردیگر کلاسوں کی نظم وضبط کو برقراررکھناہوتاہے ۔ اس تناظر میں دیکھاجائے تو پرائمری کا ہر استاد ایک کلاس کے لئے بمشکل دس سے بارہ منٹ وقف کر سکتے ہیں ، اسی طرح استاد کومہینے میں دو سے تین چھٹیوں کی قانونی اجازت ہے ۔ موجودہ نظام میں قابل سے قابل استاد بھی پرائمری تعلیم میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے، اس لئے ماہرین تعلیم کا خیال ہے کہ پرائمری سکولوں میں کم ازکم چھ کمرے تعمیر کرکے چھ اساتذہ کی بھرتی کئے بغیر حاضر سروس اساتذہ کی ڈیوٹی کو کتناہی ریگولر کیاجائے کوئی تبدیلی آنے والی نہیں۔ ان حقائق کے پیش نظر یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ تعلیم میں اصلاحات کی باتین محض سبز باغ کے علاوہ اورکچھ نہیں سوال یہ ہے کہ خیبرپختونخواہ کی صوبائی حکومت اپنے زیر انتظام سرکاری اداروں میں کوئی بہتری نہ لاسکے توپھر قانون وآئین اور اصولیات سے عاری مدارس میں اصلاحات کے دعوے کس طرح حقیقت کا روپ اختیار کریں گے؟۔
اگرپاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت اور قائد تحریک تعلیمی اصلاحات اور سب کو لے کر چلنے میں واقعی مخلص ہے تو مقابلوں کے امتحانات میں اردو میڈیم اداروں کے فارع التحصیل طالب علموں کو کیوں موقع نہیں دیتے ؟بقول عمران خان صاحب دس سے پندرہ لاکھ طالب علم اردو میڈیم اور تین سے پانچ لاکھ طالب علم انگریزی میڈیم اداروں میں زیر تعلیم ہیں،کیا یہ سراسر ناانصافی نہیں کہ ڈگری کے امتحانات سمیت مقابلے کے سارے امتحانات انگریزی زبان میں منعقد ہوتے ہیں جوکہ تین سے چانچ لاکھ مراعات یافتہ افراد کو نوازنے کا ذریعہ ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو چاہئے کہ وہ پہلے اپنے زیرانتظام اداروں میں اصلاحات لے آئے ، مذہبی مدارس کوقومی دھارے میں لانے سے قبل اردو میڈیم اداروں کے طالب علموں کی حق تلفی کا ازالہ کرکے انہیں بھی قومی دھارے میں شامل کریں اس سلسلے میں عام اور مقابلے کے امتحانات کے لئے انگریزی کے ساتھ اردو کو بھی بحیثیت میڈیم شروع کیاجائے یہ طالب علموں کی مرضی پر منحصر ہوکہ وہ امتحان میں اردو کو اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں یا انگریزی کو۔ یہاں صورتحال یہ ہے کہ پولیس سے لے کر چپراسی تک کے لئے ٹسٹ کا میڈیم انگریزی ہے جس میں اردو میڈیم اداروں سے فارع التحصیل نوجوانوں کی کامیابی نہ ہونے کے برابر ہے ،لیکن ان پر ابھی تک کسی حکمران کی توجہ نہیں جاتی بس اصلاحات کے نام پر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر سستی شہرت اور ذرائع ابلاغ میں جگہ بنانے کے لئے آئے روز نئے نئے ڈرامے رچا ئے جارہے ہیں۔
دوسری جانب ایسا لگتا ہے کہ مدرسہ حقانیہ کے لئے مختص فنڈ محض سیاسی رشوت کے علاوہ اور کچھ نہیں اور پاکستان تحریک انصاف مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں مولاناسمیع الحق کو خرید کر اپنی سیاسی دکان چمکانے کی کوشش کررہے ہیں۔