میں نے اپنی زندگی کا نصف حصہ نصفِ بہتر کے ساتھ اسی شہرمیں گزاردیا جس پر عروس البلاد کہلانے کی اب تہمت بھی نہیں۔ میری طرح اس شہر کا چہرہ بھی نامعلوم طریقے پربدلتا چلا گیا۔ وقت کی چیرہ دستی ایک سفاک بے نیازی کے ساتھ گلوں سے رنگ و بو اور حسن سے متاع غرور چھین لیتی ہے لیکن جو زندگی برتنے کا سلیقہ رکھتے ہیں وہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر، حسین تردنیا کی تعمیر کا عمل جاری رکھتے ہیں چنانچہ ویرانے آباد ہوتے ہیں۔ صدیوں کے عمل ارتقاء نے مغرب میں لندن اور پیرس سے لے کرمشرق میں ٹوکیو اورکوالا لمپور تک محض وسعت ہی نہیں دی زندگی کرنے کا قرینہ اور حسن بھی دیا ہے، اور جیسا کہ میں نے پہلے لکھا تھا۔ ہرشہر ایک چہرہ رکھتا ہے جس کو بنا سنوار کے زیادہ حسین اور پر کشش بنانے کا عمل خود اس کے باسی یوں اپنا فرض سمجھ کے جاری رکھتے ہیں کہ وقت کا تخریبی دھارا سمت بدل لیتا ہے۔
شہر صرف وسعت اختیارنہیں کرتے بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ زیادہ حسین اورپرکشش ہوتے جاتے ہیں۔ ندامت سے زیادہ دکھ کے احساس کے ساتھ مجھے اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ کراچی کے باسیوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس کی آبادی اوروسعت میں اضافے نے کراچی کو دنیا کے دس بڑے شہروں میں شامل کیا تودس خطرناک ترین شہروں میں بھی۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک ترتیب ’’دنیا کے دس مہنگے ترین‘‘ اور ’’دس رہائش کے لئے بہترین شہروں‘‘ کی بھی ہے، یہ انٹرنیٹ پردیکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ٹوکیو کا شمار مہنگے تریں شہروں میں ہے۔ وہاں جگہ کی کمی کایہ حال ہے کہ سب سے پہلے’’کافن ہوٹل‘‘ یعنی تابوت ہوٹل وجود میں آۓ کیونکہ ہوٹل کا کمرہ انتہایؑ مہنگا تھا چنانچہ اوپر تلے تابوت بنادیے گئے۔ آٹھ فٹ لمبا، تین فٹ چوڑا اورچار فٹ اوںچا ایک خانہ ہے، اوپرتلے تین، بالکل جیسے اپنی تیزگام جیسی گاڑی کی تین برتھیں۔ بارہ بائی بارہ کے کمرے میں 6 افراد، نیچے والے تابوت کا کرایہ کچھہ اضافی۔ سرہانے اپنا بیگ یا بریف کیس رکھئے اوراپنی لائٹ جلا کے بیٹھئے، لیپ ٹاپ استعمال کیجئے، کتاب پڑھئے یا سوجائیے مگر کسی کو ڈسٹرب کۓ بغیر۔ صبح اپنی باری پرمشترک واش بیسن پر محدود پانی سے منہ دھوکر جاییے اپنے کام سے، نہ باشتا نہ کھانا نہ ویٹر۔ دنیا کے سب سے زیادہ ’’قابلِ رہایش‘‘ شہر قطعی غیرمعروف ہیں۔ آرام و آسایش، سکون اورحسنِ تعمیریا مناظرقدرت، آمد ورفت، تعلیم اورصحت و صفائی کا انتظام جیسے ہرمعیارپربہترین ثابت ہونے والے۔ افسوس ان میں سے بھی کسی کا نام مجھے یاد نہیں لیکن آپ معلوم کرسکتے ہیں۔ جویندہ یابندہ۔
میں نے عرض کی تھی کہ کسی بھی شہر کوجیسا وہ ہے، باہر سے آکریا ٹھیکے پر کوئی نہیں بناتا۔ اسے خود شہری بناتے ہیں۔ وہ انتظامیہ یا مقامی حکومت بناتی ہے جسے خود شہری منتخب ہیں، ابھی بات کراچی کی ہے تووہ خظرناک ترین شہر کیسے بن گیا؟ خطرناک کی بھی ایک تعریف ہوگی یعنی، یقینا! کراچی ایسا نہیں تھا تو ایسا کیوں ہوگیا؟ اگر شہری کسی شہر کو بناتے ہیں تو کراچی کے شہریوں نے اسے ’’دس بڑے‘‘ اور’’دس خطرناک ترین‘‘ شہروں میں کیوں شامل کیا؟ بڑا تو خیر یہ آبادی کی کثرت سے ہوا۔
جواب آپ کو شاید حیران کن لگے۔ اس کے شہریوں نے کچھ نہیں کیا۔ کیونکہ کراچی میں کراچی کے شہری تو ہیں ہی نہیں۔ اس میں دو قسم کے لوگ رہتے ہیں۔ ایک وہ جو1947 میں اپنے آباءواجداد کے (غلط یا صحیح ) کسی فیصلے کے نتیجے میں ان علاقوں سے آکے یہاں آباد ہوئے جو اب بھارت میں ہیں۔ ان کا مزاج مجھے بہت عجیب لگتا ہے کہ وہ آج بھی اپنی پرانی وابستگی کے حوالے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مثلاً رشتے کرتے وقت، مکاں کرائے پردیتے وقت اوربعض اوقات رسم و راہ میں بھی۔ اس کا ایک ثبوت اسکیم 33 عرف گلزارہجری میں آج بھی دیکھا جاسکتا ہے جہاں میرٹھ سوسائٹی، اٹاوہ سوسائٹی جیسی درجنوں 40، 40 ایکڑ کی بستیوں کے خواب ایک ویران بیابان کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ ’’اپنی طرف کے لوگوں‘‘ کو ایک جگہ اباد کرنے کی حسرت رکھنے والے یہ زمیں الاٹ کراکربیشتر صورتوں میں پلاٹ خریدنے والوں کو قبضے دیے بغیر روپوش ہوگئے یا مرحوم۔ اس کے بعد وہی ہوا جو ہوتا ہے۔ آں دفتررا گاو خورد، گاورا قصاب برد، وقصاب ہم مرد۔ یعنی فائل کو گائے کھا گئی، گائے کو قصاب لے گیا اوراب تو قصاب بھی مرگیا۔
دوسرا ثبوت بھی قبل غور ہے۔ اس وقت یہ فیشن تھا، رییؑس امروہوی، بہزاد لکھنوی، قابل اجمیری، جوش ملیح آبادی، نوح ناروی، قمراجنالوی اورحفیظ جالندھری۔ ان گنت نام ان بستیوں کے حوالے رکھتے ہیں جو شاعر کا وطن تھے۔ انھوں نے تواس شناخت کو باقی رکھا لیکن اسی دور میں کوئی شاعر’’کراچوی‘‘ نہیں ہوا۔ اس شہر کی آدھی آبادی کراچی کے شہری نہیں رہایشی ہیں ۔ جیسے اسلام آباد کے رہایشی چاروں صوبوں کے افراد ہیں، تاریخِ انسانی میں کسی شہرکو دوسرے شہروں یا ملکوں سے آنے والوں نے آباد نہیں کیا۔ اب رہی باقی نصف آبادی کی بات تو وہ ملک بھرسے فکرروزگارمیں آئے ہوۓ لوگ ہیں۔ یہ ان کا شہر بہرحال نہیں ہے مگرایسا ہربڑے شہر میں ہوتا ہے جہاں روزگار کےمواقع ہوں اوربندر گاہ ہو۔ کلکتہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ رات کو اس کی ابادی نصف رہ جاتی ہے۔ دن میں مضافات کے قصبوں سے لوگ نوکری کرنے آجاتے ہیں، بمبئی میں بھی ایسا ہی ہے۔
تو آپ نے دیکھا؟ کراچی شہرمیں کراچی کے شہری ہی نہیں تو اس کو بنائے گا سنوارے گا کون؟ کل یا آج کے سیاسی حالات کی بات میں نہیں کرتا۔ ایسا لاہوریا پنجاب کے کسی شہر میں نہیں، گلگت یا سوات میں نہیں سرحد یا بلوچستان میں نہیں میں۔ وہ تو30 لاکھ افغان مہاجرین کو بھی اپنا ہی سمجھتے ہیں۔ کراچی ہرگذرتے دن کے ساتھ تباہ ہورہا ہے اورپھیلتا جارہا ہےلیکن پھیلتا تو کینسر بھی ہے۔ میں نے اس شہر کو سب سے پہلے 1965 میں دیکھا اورآخری بارابھی دیکھ کے لوٹا ہوں، میں سیاست کی بات نہیں کرتا، یہ جانتا ہوں کہ یہ شہر50 سال پہلے کیا تھا اوراب کیا ہے۔ اس کا ایسا حال ایک سال یا دس سال میں نہیں ہوا، ایسا رفتہ رفتہ ہوا۔ میں اس کی وسعت کی بات بھی نہیں کر رہااس کے مزاج کی بات کررہا ہوں جس نے اسے دنیا کے دس خطرناک ترین شہروں میں شامل کیا۔ اپنا مشاہدہ میں اپنی آپ بیتی کی صورت میں ہی پیش کرسکتا ہوں جو شاید آپ کو جگ بیتی لگے۔۔۔ یار زندہ صحبت باقی
جاری ہے