محض سنی سنائی نہیں آپ بیتی ہے۔والد صدر مدرس یعنی ہیڈ ماسٹر تھے۔بچے کو داخل کراتے وقت کہا جاتا تھا کہ ہڈی ہما ری چمڑی آپ کی اور اس کار خیر کے لیے جو آلۂ تشدد مستعمل تھا اسے ڈنڈا نہیں بلکہ مولا بخش کہا جاتا تھا۔اسی مولا بخش نے اس کندہ ٔناتراش کو ٹھوک پیٹ کراحمد اقبال کے سانچے میں ڈھالا۔ والد نے کچھ قبل از وقت ہی مجھے میٹرک کی کلاس میں داخل کرانا چاہا تھا لیکن ایک دیسی اسکول والوں نے کہا کہ بچے کو چھٹی جماعت میں لے سکتے ہیں ۔ بحث کے بعد طے ہوا کہ میں نے اسکول میں آٹھویں کا سالانہ امتحان پاس کرلیا تو داخلہ ہو جائے گا۔
اس وورمیں بھی میں بچہ ہی تھا جب میٹرک فرسٹ ڈویژن اور انگلش میں امتیازی نمبز کے ساتھ مجھے گورڈن کالج میں داخلے کے لیےپرنسپل ڈاکٹر آر۔آر۔اسٹیوارٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس نے مجھے تھپکی دی اور ایک بات کہی جو اب تک میرے دل پر نقش ہے۔’’بوائے! زندگی میں کوئی عمر سے بڑا نہیں ہوتا‘‘۔شیخ سعدی نے فارسی میں کہا تھاکہ ’’بزرگی از علم است نہ کہ بہ سن و سال‘‘۔ آج میں اس سفید بالوں والے شفیق انسان کو یاد کرتا ہوں تو مجھے اس کا قد ان سب سے بلند نظر آتا ہے جو حسب نسب یا مال و زراور طاقت یا حاکمیت کے زعم میں سربلندی کا غرور رکھنے کے با وجود بونے تھے۔
میرے ہم عصر خوش نصیب تھے جو انگریز کے غلام تھے۔ ان سب سے جو صدیوں شرق تا غرب ہندوستان میں جاہ جلال سے شہنشاہی کر گئے لیکن علم کی کوئی شمع نہ روشن کر سکے جس کا اجالا باقی رہتا۔ سات سمندر پار سے آنے وال تاجروں نے اسپرین کی ایک گولی سے بخار اتارنے کا جادو دکھا کے شہنشاہ جہانگیر سے جاگیر نہیں مانگی صرف ایک تجارتی مرکز قایم کرنے کا اجازت نامہ مانگا لیکن جب وہ سونے کی چڑیا کہلانے والے ہندوستان کے مالک ہوئےتوزمین کے بعد دل مسخر کرنے کےلئے انہوں نے جس اسلحہ کا استعمال کیا وہ علم کے ساتھ اخلاق و کردارتھا۔
گورڈن کالج بھی ایک قدیم ترین درسگاہ تھی جہاں تعلیم کا مطلب کتابی نصاب کی تکمیل سے زیادہ کردار کی تشکیل تھا اور یہ کام انہوں نے تلقین شاہ بن کے نہیں کیا۔انہوں نے نوجوان ذہنوں کو کردار کی عظمت سے مسحور کیا ۔ میں کسی ایک کی بات نہیں کرتا،وہ سب مینارہ نور تھے جن کی روشنی سے ہماری تمام زندگی منور رہی۔وہ پرنسپل ہو یا کوئی پروفیسر۔ اپنی زندگی کو طلباء کےلیے ایک قابل تقلید مثال بنانے کو اپنا مشن سمجھتے تھے۔کئی بار میں نے پتلون پر استری یا جوتوں پر پالش نہ ہونے پر سر جھکا کے ان کا لیکچر سنا۔’’جو آدمی خود کے لیے کچھ نہ کر پائے ،وہ فیملی کے لیے کیا کرے گا۔معاشرے کے لیے اور ملک کے لیےکیا کرے گا۔۔؟‘‘ انھوں نے اپنا ہاتھ جگن ناتھ کے مقولے پر عمل کیا۔۔اپنا کام خود کرنا سکھایا۔۔ ’’تم لوگ بچوں سے کہتے ہو کہ پانی پلاو۔۔بیوی سے کہتے ہو کہ تمہارے جوتے پالش کرے کپڑے استری کرے جیسے تم معذور ہو۔کچن میں اپنے کھانے کے برتن دھو کے رکھنے سے تمہاری مردانگی کی شان میں فرق پڑتا ہے‘‘۔
پنڈی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب – حصہ سوئم
مجھے زندگی میں اعتماد کی اہمیت کا احساس انہوں نے دلایا، بار بار دلایا،ہمت ہے تو ڈاکا ڈالو لیکن جہاں اعتماد کی بات ہو وہاں ایک پیسہ بھی ادھر سے ادھر نہیں ہونا چاہیے ۔بات کچھ زیادہ ہی سنجید گی اختیار کرگئی۔کچھ ذکران روایات کا جو آجایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں۔ ایک روایت تھی مخلوظ تعلیم کی۔ مشن اسکولوں اور کالجوں کے بارے میں ایک طبقۂ فکراپنے تحفظات رکھتا تھا کہ وہاں عیسائیت کی تبلیغ ہوتی ہے لیکن میں دو مشن کالجوں کا پڑھا ہوا آج بھی خدا کو حاضر ناظر جان کے کہہ سکتا ہون کہ اپنے 4 سالہ دور طالب علمی میں کسی نے عقائد پر سرےے سے بات ہی نہیں کی حالانکہ بیشتر اساتذہ چرچ سروس کو اپنی خدمات مستعار دیتے تھے۔وہ اپنے کردار سے دلوں کو تسخیر کرتے تھے لیکن میں نے ایک بھی مسلمان کو عیسائی ہوتا نہ دیکھا نہ سنا۔دوسرا اعتراض مخلوط تعلیم پر تھا ،مگر میں نے ایک ہی ادارے میں زیر تعلیم طلباء اور طالبات کے درمیان بڑے مثبت رجحانات فروغ پاتے دیکھے۔ایک تھا ادب آداب اور رکھ رکھاؤ میں صنف نازک کا احترام اور اس کے ساتھ خود کو زیادہ سے زیادہ پرکشش اور قابل توجہ بنائے رکھنے کا مقابلہ۔چونکہ وردی کا رواج نہیں تھا اس لیے بہترین لباس میں کالج آنے کا دستور تھا لیکن مشن کسی فیشن پریڈ کی اجازت نہیں دیتا تھا، اس ماحول کا اثر تھا کہ خواتین کے ساتھ معاملات زندگی میں کوئی نفسیاتی مسئلہ کبھی حارج نہیں ہوا۔
یکم مارچ کو کالج کا یوم تاسیس یا فاؤنڈرز ڈے منایا جاتا تھا اور پورا کالج کہیں پکنک پر جاتا تھا اور اسکے لیےپاکستان ریلوے سے اسپیشل ٹرین لی جاتی تھی،شاید 1953 میں ٹیکسلا کا پروگرام بنا۔بیشتر ریلوے افسران کے بچے اسی کالج میں پڑھتے تھے چنانچہ بہترین ڈبوں پر مشتمل خصوصی ٹرین رات کو ہی الگ پلیٹ فارم پر لگ جاتی تھی۔شہر بھر کے جیالے جوشیلے آدھی رات کے بعد پورا ڈھول ڈھمکا کرنے اسٹیشن پہنچ جاتے تھے۔وہ رات بھر ہلڑ کرتے تھے بوگیوں کو سجاتے تھے ان پر لاوڈ اسپیکر لگاتے تھے۔ٹرین کی درمیانی بوگیاں لڑکیوں کے لیےتھی وہ کھڑکیوں سے اپنے دوپٹے باندھ دیتی تھیں جو سارا راستہ رنگینی بکھیرتے جاتے تھے۔کسی بوگی سے گانے بجائے جاتے تھے جو پوری آواز سے سارا راستہ نشر ہوتے تھے۔۔’’اب سنیں پروفیسر خواجہ مسعود کی فرمایش، تیرے مکھڑے تے کالا کالا تل وے”۔پھر سیٹیاں چیخ پکار، چلتی ٹرین سےلٹکتے لڑکے چھت پر چڑھ کے ڈانس کرتے ہوئے،ٹرین جہاں سے گزرتی تھی دیہاتی منہ کھولے دیکھتے تھے کہ یہ کس کی بارات ہے۔وائس پرنسپل ’جے بی کمنگ‘ اور ان کی بیوی پنجابی کے ماہر تھے اور اردو کے گانے اور لطیفے بھی سناتے تھے۔
ٹیکسلا میں دن اسی ہلے گلے میں گذرا تھا پروفیسرز اور طالبات کے درمیان رسہ کشی کا مقابلہ ہوا۔معمر لوگ نوجوانون کا کیا مقابلہ کرتے مگر لڑکیاں بھی جیت گئیں۔کیمسٹری کے شاہ رحمان کو آخر میں باندھا گیا تھا کیونکہ وہ کچھ بھاری بھرکم اور پہلوان ٹائپ تھے ۔لڑکیوں سے ہارنے کے بعد دیگر پروفیسروں نے رسی چھوڑ دی تو لڑکیاں شاہ رحمان کو کھینچ لے گئیں۔وہ دہائی دیتے رہے کہ ’’اوئے رب دا واسطہ چھوڑو مینوں‘‘۔جیت گئی ہو تم، بعد میں وہ توند پر بندھے رسے کی رگڑ سے پڑنے والے نشانات دکھا کے فریاد کرتے رہے۔’’آر ایٖف ٹیبی‘‘ اور ان کی بیوی نے زبردست ڈانس کیا۔۔گانا تو سب کو گانا پڑتا تھا اور لطیفوں کو چھوٹے چھوٹے ڈراموں کی صورت پیش کیا جاتا تھا۔
پرنسپل ڈاکٹر اسٹیوارٹ کی شریک حیات کا انتقال ہوا تو ان کی آخری رسوم چوک فوارہ راجہ بازار کے چرچ میں ادا ہوئیں اور اس میں کالج کے طلبا و طالبات نے شرکت کی۔پھر کچھ عرصے بعد تنہائی کا آزار ختم کرنےکے لیےانہوں نے دوسری شادی کی تو ان کا مذاق بھی آڑایا گیا لیکن اس شادی کا جشن شہر بھر میں ان کے طلبا نے منایا۔ڈاکٹر صادق لاہور گورنمنٹ کالج سے ریٹایر ہوئے تو گورڈن کالج میں پڑھانے لگے۔وہ ڈراماٹک سوسائٹی کے بھی صدر تھے چنانچہ ان کی موت بھی ڈرامائی تھی۔پی ٹی وی سے انٹرویوز پر مبنی ایک گھنٹے کا پروگرام نعیم بخاری کئی سال پیش کرتے رہے ۔ایک پروگرام کے مہمان ڈاکٹر صادق تھے،ان سے پہلا سوال ہوا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے بڑی زندہ دلی سے جواب دیا، دوسرا سوال ہوا تو ڈاکٹر صاحب چپ! نعیم بخاری نے دو بار کہا ’’ڈاکٹر صاحب‘‘،مگر وہ اس دنیا میں ہوتے تو جواب دیتے۔ ٹی وی کی تاریخ میں یہ واحد لائیو یعنی براہ راست دکھائی جانے والی طبعی موت تھی۔پروگرام وہیں آف کر دیا گیا تھا لیکن میرے تصور میں اس وقت بھی وہ جان لیوا منظر ہے۔
اگرکالج کے ایک نامور کردار ’بریگیڈیر‘ کا ذکر نہ کیا تو یہ روداد ادھوری رہے گی۔وہ ایک گوری چٹی دراز قد اور بے حد خوبصورت لڑکی طلعت تھی جو مجھ سے دوسال آگے تھی۔وہ انتہائی پر اعتماد بلکہ بولڈ لڑکی تھی جو پہلے کرنل مشہور تھی۔ایک بار کسی لڑکے نے اپنے ساتھی سے کہاکہ ’’وہ دیکھ کرنل۔ طلعت نے ایک دم پلٹ کے کہا وہ پرانی بات ہے۔اب ترقی کے بعد میں بریگیڈیر ہوں‘‘۔اس کے بعد وہ بریگیڈیر کہلانے لگی۔ وہ ڈراموں میں حصہ لیتی تھی۔سب سے بے تکلف تھی اور ہنسی مزاق بھی کرتی تھی لیکن بد تمیزی پر ہاتھ بھی مار دیتی تھی۔اب آپ سے کیا پردہ،،کالج پہنچ کے ہم بھی جوان تو ہوگئے تھے۔یہ الگ بات ہے کہ عمر میں سب لڑکیوں سے چھوٹے تھے۔۔ ایک دن دوستوں کے اکسانے پر اسے چھیڑ بیٹھے۔۔پیریڈ بدلا تو وہ اوپر سے نیچے آرہی تھی ہم نے اوپر جاتے جاتے وہ کہہ دیا جو بتایا گیا تھا،’بریگیڈیر۔۔آئی لو یو‘ سب ہنس پڑے مگر وہ رک گئی۔’’اچھا۔۔۔۔؟ مجھ سے شادی کروگے؟‘‘ وہ جھک کر بولی اورمیری حالت غیر۔کچھ بولنے کی کوشش کی تو آواز ندارد۔اس نے میرا کان پکڑ لیا اورکہا کہ’’منے۔۔اپنی عمر کی لڑکیوں کو پھنساؤ ‘‘اور آگے بڑھ گی ۔۔زینے میں اوپر نیچے رک جانے والوں کا ہنس ہنس کے برا حال ۔بعد میں اس کو دیکھ کے میں راستہ کاٹنے لگا تو ایک دن خود ہی آگئی اور ہاتھ ملا کے بولی’بھئی شادی نہیں ہو سکتی لیکن ہم اچھے دوست تو بن سکتے ہیں۔۔سوری اس دن جو ہوا‘ ۔طلعت کا اپنی کلاس کے ایک لڑکے سے افیئرچلا اور بعد ازخرابی کہ دونوں کی فیملی با اثر تھی دونوںشادی ہو گئی۔مجھ حال ہی میں معلوم ہوا ہے کہ اس کا انتقال میں2014 میں ہوگیا۔
آج میں دکھی اس بات پر بھی ہوتا ہوں کہ میرے بچوں کو ایسی درسگاہ میسر نہیں آئی جہاں ڈگری دلوانے سے زیادہ کردار اور شخصیت کی تعمیر کو اہمیت دی جاتی تھی۔۔قومی ملکیت میں لیے جانے کے بعد گورڈن کالج بھی ختم ہو گیا اور ایڈورڈز کالج پشاور بھی جہاں سے میں نے بی اے کیا تھا تو کنووکیشن کی صدارت صدر پاکستان نے کی تھی اور ڈگری مجھے گورنر مغربی پاکستان اختر حسین نے ہاتھ ملا کے مبارکباد کے ساتھ دی تھی۔افسوس کہ اس یادگار تقریب کی کوئی تصویر میرے پاس نہیں
زیرِ نظر تصویر کالج کا ‘نشان’ ہے۔۔اس پر لکھا ہوا ہے..Seek and ye shall find..اس کا مکمل ترین ترجمہ ہوسکتا ھے ۔۔جویندہ یابندہ۔۔ لیس لل انسان الا ما سعیٰ یہی میری حیات مستعار کا سبق ہے۔