The news is by your side.

پنڈی – جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب – حصہ پنجم

پنڈی اور مری کا نام اب ساتھ ہی لیا جاتا ہے۔ تاریخ میں مری کا نام اس وقت آیا جب سرد ملک سے آنے والے گورے حاکم نے بر صغیر میں طویل عرصہ قیام کی منصوبہ بندی کی۔۔شاید تاریخ اور تہذیب میں کئی صدیوں تک اپنی حاکمیت کو دوام دینا وہ خواب تھا جس کی تعبیراسے دست ِامکاں میں نظر آتی تھی،انتظامی اور سیاسی امور سے الگ ایک مسئلہ اس ملک میں اپنے لیے زندگی کو آسان بنانا بھی تھا ۔میدانی علاقوں کے موسم گرما کی چلچلاتی دھوپ اور لو سے بچنے کے لیے  لوٹ کے وطن جانا اور سردیوں کی آمد تک حکومت کا انتظام معطل رکھنا ممکن نہ تھا چنانچہ اپنے ذہن رسا سے اس نے وہ خطے تلاش کیے جہاں بیٹھ کے آرام کے ساتھ کاروبار سلطنت چلائے جا سکیں ۔’تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر‘۔۔ ہمارے شاعر مشرق کو یہ پیغام بہت بعد میں دینا تھا۔۔ انگریز نے ایک عارضی دارالحکومت شمال کے پہاڑوں کی بلندیوں پر بنالیا۔شملہ، مسوری ،  ڈلہوزی اور مری اسی مقصد کے تحت آباد کیے گئے اور ہل اسٹیشن یا سمر ہیڈ کوارٹرکہلائے۔ برٹش آرمی کی ناردرن کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر شاید 1853 میں راولپنڈی بنا تو مری کو موسم گرما کے مرکز کی حیثیت دی گئی۔حیرت ہے کہ ذاتی عیش وعشرت کے لیے قلعے، باغ اور محلات تعمیر کرنے اور حرم آباد رکھنے میں نام پیدا کرنے والے مسلمان حکمرانوں کو یہ خیال نہیں آیا۔ نہ کسی وزیر باتدبیر نے صلاح دی۔ انہوں نے کبھی پہاڑ پر جا نےکی زحمت کی تھی ، نہ یورپی اقوام کی طرح سمندر میں اتر کے دیکھا تھا کہ ’ کناروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘۔شاید مورخ اس کی تاویل یوں پیش کرے کہ مغل حکمران دارالحکومت سے دور جاتے ہوئے  اس اندیشے کا شکار ہوتے تھے کہ ان کی عد م موجودگی میں کوئی اورنگ زیب جیسا فرزند ارجمند تخت پر قابض ہوکے انہیں شاہجہاں کی طرح مرنے کے لیے کسی قلعے کے مینار میں قید نہ کردے،انگریز حاکم کو یہ ڈر کیوں ہوتا۔

پنڈی کے بعد مری یوں ہے جیسے شریک حیات کے بعد بقول شاعر’ منکوحہ آید بہ تانگہ داشتہ آید بکار‘۔آزادی ملنے کے بعد انگریز کے نقش قدم پر چلنے کو اپنی شان سمجھنے والے کالے صاحب نے بھی یہ چلن قائم رکھا اور مری کو پنجاب حکومت کا سمر ہیڈ کوارٹر رہنے کا اعزاز حاصل رہا۔ مری میں گورنر ہاوس تھا اورنتھیا گلی میں تو گورنر جنرل ہاوس بھی رہا،حکمرانون کی منظور نظر ہواتو مری کاروپ نکھرتا گیا اور جب علامہ صاحب نے فرمایا کہ  کیوں حاکم و محکوم میں حائل رہیں پردےتو انار کلی کوٹھے پر آگئی۔ اگر آپ پہچان لیں تو ایک تصویر میں ایک صدی سے بھی پہلے کی مری اپنے تاریخی پوسٹ آفس کے ساتھ نظر آرہی ہے،یہ تصویر 1910 کی ہے ۔

AHMED POST 8
مری کا جو حال آج ہے پہلے نہ تھا۔ آج مری تک ریلوے لائن تو بچھائی جا رہی ہے لیکن اس ٹمبر مافیا کو روکنے کی تدبیر کوئی نہیں جو اس کی ہزار رنگ رکھنے والی ہریالی کا ملبوس تار تار کر کے اپنے خزانے بھرنے میں شب و روز سرگرم ہے ۔مری جاتے ہوئے  آپ کو جگہ جگہ اس کا پیرھن یوں چاک چاک دکھائی  دے گا جیسے کسی لاوارث نازنیں کے بے رحمی سے نوچے جانے والے ملبوس میں سے بدن کے زخم فریاد کناں نظر آئیں۔  مری تک دو رویہ سڑک پر اتنا زیادہ ٹریفک جام رہنے لگا تھا کہ بین الاقوامعیار کی ایک موٹر وے بنادی گئی جس پر جدید گاڑیاں سو ڈیڑھ سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتی چھیکا گلی پہنچ سکتی ہیں۔مری میں اب سردی گرمی میں یہاں کی استعداد سے کہیں زیادہ سیاح آجاتے ہیں کہ جتنے یہاں سما نہیں سکتے۔

مجھے اندازہ نہیں کہ مری کو ’’ملکہ ٔ کوہسار‘‘کا نام کس نے اورکب دیا تھا۔پنڈی سے آغاز ہونے والے  راستے گلیات کا آغاز گھوڑا گلی سے ہوتا ہے جہاں کا لارنس کالج آج بھی اپنی تاریخی نیک نامی کی روایات کا امین ہے،اس کے بعد ایبٹ اباد تک ایک اندازے کے مطابق 22 گلیات ہیں مثلا جھیکا گلی، نتھیا گلی، ڈونگا گلی وغیرہ۔ اب بھی اکثریت مری سے 30 کلومیٹر دور نتھیا گلی کو مقابلہ حسن میں پہلے نمبر پر رکھتی ہے تو شاید غلط نہیں کرتی۔ ایک بار میں نے مری کے نواح میں ’باڑیاں‘ سے نتھیا گلی تک تقریبا” 30 کلومیٹر کا نشیب وفراز والا راستہ ایک دوست کے ساتھ پیدل طے کیا۔’وقت پیری شباب کیباتیں۔۔ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں‘۔

AHMED POST 2

جب آپ راولپنڈی سے کشمیر ہائی وے پر سفر کا آغاز کرتے ہیں تو آپ کوآج بھی پہلے سنگ میل پر’مری 62 کلومیٹر‘ کے ساتھ ’سرینگر 231 کلومیٹر‘ بھی لکھا ہوا نظرآتا ہے ۔ اردو کے نامور ناول نگار مرحوم عزیزاحمد کے ناول ’گریز‘ کو دس بہترین ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے لیکن ان کا ناول ’آگ‘ کشمیر کے کلچر کی تاریخ پر مستند ترین دستاویز ہے ۔اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ’سری نگر‘سے راولپنڈی تک ’دھن بھائی جی‘کے مسافر بردار تانگے براستہ کوہالہ مری چلتے تھے اور تین دن میں یہ فاصلہ طے کرتے تھے،راستے میں رات کومسافروں کے قیام کی جگہ تھی صبح گھوڑے بھی بدلے جاتے تھے تو سفر پھر شروع ہوتا تھا۔نیچے کی تصاویر میں آپ ایک تانگے کو سرنگ سے برآمد ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔ دریائے جہلم پرکوہالہ کا نیا پل آج پاکستان اور آزاد ریاست جموں و کشمیر کے درمیا ن حد فاصل ہے۔یہ پل اس سے قبل تیں بار طغیانی میں بہہ چکا ہے۔

AHMED POST 4AHMED POST 7

اس راہ پر خطر پر سفر کو وسیلہ ظفر  بنانے والے مختلف وقتوں میں ہر قسم کی ٹرانسپورٹ پرانتہائی پر صعوبت حالات میں سفر کرتے رہے ہیں۔کبھی چھت پر تو کبھی اس دور کی جیپ سے مکھیوں کی طرح چمٹ کر۔ اس کا اندازہ آپ مختلف تصاویر سے کر سکتے ہیں۔ راستہ کتنا خطرناک تھا اور حادثات اکثر ہوتے تھے۔

AHMED POST 5

اس راستے پر پہلی بس سروس تقسیم سے قبل شروع ہونے والی’’الائیڈ چراغ دین اینڈ سنز‘‘ جس کی 1930 ماڈل کی بسوں کو اب محض تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔جب ملک تقسیم ہوا اور کشمیر بھی دو لخت ہوگیا تو ان کی 8 بسوں کو سرینگر میں ضبط کرلیا گیا کیونکہ یہ ایک پاکستانی کمپنی تھی، ان کی بسیں راجا بازار سے چلتی تھیں۔ اس کے بعد ’پنڈی مری ٹرانسپورٹ‘ نے سروس شروع کی ،ان کا سفر بھی راجا بازار سے شروع ہوتا تھا۔گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس غالباً  1960 سے قبل ہی شروع ہوچکی تھی ۔آپ  کی دلچسپی  کے لیے ان کا کرایہ نامہ جو ہر بس میں آویزاں ہوتا تھا پیش ہے۔آج اس روٹ پر ’’ڈائیو‘‘ کی جدید ترین بسوں کے ساتھ نئے ماڈل کی ہائی  ایس ویگنوں، پرائیویٹ ٹیکسیوں اور’کیری ڈبہ‘ یعنی ہائی روف گاڑیوں کا اژدھام ہے۔پرائیویٹ کاروں کا جم غفیر الگ ہے اور دسمبر جنوری کی برفانی سردی میں بھی رات رات بھر کا ٹریفک جام معمول کی بات ہے۔

AHMED POST 6

جب انگریز کی عسکری قیادت نے پنڈی کو ’شمالی ہائی کمان‘ کا مرکز بنایا تو رفتہ رفتہ سطح مرتفع پوٹھوہار کے اس چھوٹے سے شہر کی اہمیت بڑھ گئی اوراس کا مزاج کالونیل ہونے لگا۔آج 70 سال بعد بھی اس کے آثار معدوم نہیں ہوئے لیکن مجھے پاکستان بننے کے فوراً بعد کا پنڈی یاد ہے جو اپنی معاشرت میں ایک چھوٹے ولایت کا نمونہ تھا۔نہ صرف چھاؤنی کی عمارات کے طرز تعمیر میں بلکہ انداز زندگی میں بھی۔میں نے کلب ٹائپ ریسٹورنٹ’سلور گرل‘ کا ذکر کیا تھا جہاں مخصوص لوگ نظر آتے تھے،ایک کونے میں خاصا بڑا پیانو تھا جو کوئی برطانوی دور کا ریٹائرڈ پاکستانی افسر بڑی مہارت سے بجاتا تھا۔ریک پر’ٹائم لائف اور ’پلے بوائے‘  قسم کے رسالے موجود رہتے تھے اور ایک ’جیوک باکس‘ تھا۔ریکارڈ بجانے کی جدید ترین ایجاد۔ شیشے کے ایک کیبنٹ میں سو کے قریب ریکارڈ ساتھ ساتھ کھڑے رہتے تھے۔ اوپر لگے کیٹلاگ میں دیکھ کر اپنی پسند کا ریکارڈ منتخب کیجئے۔ ایک درز یا ‘سلاٹ’ میں آٹھ آنے کا سکہ ڈالیے اور دیکھیے کس طرح مشینی ہاتھ اس ریکارڈ کوقطار میں سے اٹھا کے ‘ٹرن ٹیبل’ پر رکھتا ہے اور دوسرا نازک سا ہاتھ ریکارڈ پر آتے ہی  گیت بجنے لگتا ہے۔اس کے ختم ہوتے ہی پہلا ہاتھ پھر حرکت میں آتا ہے اور اس ریکارڈ کو واپس اپنی جگہ رکھ دیتا ہے؟ کیا آپ میں سے کسی نےیادِ ماضی ہوجانے والی اس مشین کو دیکھا؟۔افسوس یہ ہے کہ میرے پاس اس پرانے ’سلور گرل‘ کی کوئی تصویر نہیں جو میں آپ کو دکھا سکوں۔

شیزان’ ریسٹورنٹ‘ آج کے جی پی آو کے عین مقابل تھا اور یہاں جو چائے اور کنفیکشنری ملتی تھی وہ کہیں نہ تھی لیکن اس سے لطف اٹھانے والوں پر لازم تھا کہ وہ پتلون یا سوٹ اور بوٹ میں ہوں۔شلوار اور پشاوری چپل میں آپ اندر نہیں جا سکتے تھے، 1962 کے بعد ایوب خان کی اسمبلی کا اجلاس لال کڑتی کے قریب جی ایچ کیو اسٹدی سنٹر ہال میں ہوا تو چند معزز اراکین اسمبلی کو شیزان میں داخل ہونے سے روکا گیا کیونکہ وہ ‘ڈریس’ میں نہیں تھے۔اس پر استحقاق مجروح ہونے کا شور مچا تو یہ روایت ختم کی گئی۔

لیکن ایک اور خالص یورپ کی روایت موٹل کی تھی جس کا اب کوئی وجود ہے نہ سراغ۔بیشتر ہم وطن جن کو بیرون ملک جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔مو ٹل سے واقف نہیں ہوں گے، یہ  ہوٹل ہی کی ایک صورت ہے۔ جنرل صبیح قمرالزماں سابق چیئرمین اسٹیل مل کے والد کا’ گیٹ میل موٹل‘ تھا۔ انہوں نے مجھے “جسٹس امیر علی  کی تاریخا سلام پڑھنے کو دی تھی اور ان کے بھائی ملیح قمرالزماں کا سوات میں ہوٹل تھا۔۔دوسرا تھا ’کشمیر موٹل‘ اب 40 سال بعد میں واپس آیا ہوں تو کچھ یاد نہیں آتا کہ یہ کہاں تھے لیکن تھے کہیں مال روڈ کے قریب۔موٹل میں ایک دو اور تین کمروں کے رہایشی یونٹ تھے جہان کچھ صاحب ثروت لوگ اپنی فیملی کے ساتھ مستقل رہایش رکھتے تھے۔نہ جانے کیوں۔ ایساہی کرکٹر اینکر ’پی جے میر‘ کے والد کا ریلوے اسٹیشن کے سامنے’میٹروپول‘،  مال پر’فلیش مین‘ اور صدر میں مسز ڈیوس کا’پراٗئیویٹ ہوٹل‘تھے۔ہماری عدالتی تاریخ کا سب سے روشن ستارہ جسٹس ’اے آر کارنیلیس‘ مرتے وقت تک لاہور کے’ فلیٹیز ہوٹل‘ میں مقیم رہے، سنا ہے اس جگہ کو تاریخی قرار دے دیا گیا ہے۔ان کی کار بھی سپریم کورٹ میں قومی یادگار کے طور پر محفوظ کر لی گئی ہے ۔

اسلام آباد کو آج پنڈی کا جڑواں شہر کہا جاتا ہے۔ جغرافیائی منطق سے ایسا کہنا جائزسہی  لیکن تاریخی حقائق کی بنیاد پر ایسا کہنا کچھ یوں لگتا ہے کہ ایک باپ اپنی بالغ اور نومولود بیٹوں کو جڑواں کہنے لگے۔اسلام آباد کی پید ایش کو 1960 سے اب تک 56 سال بنتے ہیں جب کہ پندی کی تاریخ کی صدیوں پر محیط ہے۔میرے میٹرک کرنے تک پندی کی شہری حدود کچہری چوک پر وہاں ختم ہوتی تھیں جہاں اب مال روڈ ختم ہوتی ہے،اس چوک سے آگے صرف اڈیالہ جیل تھی۔۔وہ تاریخی جیل جہاں پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم کو پھانسی دینے کی خونی روایت قائم کی گئی۔ اسے اب جناح پارک میں تبدیل کر دیا گیا ہے

یہ بلند دیواروں کی ایسی دہشت رکھنے والی جگہ تھی کہ میرا کبھی گزرہوا تو تصور میں پابہ زنجیر مجرم اور تختہ دار پر جھولتی لاشیں ہی آئیں، جن کی زبانیں باہر نکلی ہوئی تھیں۔اس سے آگے ویرانہ تھا اور پھر کہیں چکلالہ کینٹ۔ جناح پارک میں اب کیا نہیں ہے۔میکڈانلڈ،  کوسمو ڈیپا رٹمنٹل اسٹور، روف ٹاپ گارڈن ریسٹورنٹ، پاپا سیلیز اورپانچ اسکرین والا سینی پیکس۔باغ، لان، فوارے۔ اس پرانی دہشتناک جگہ کا تصور بھی یہاں ناممکن ہے جو جیل تھی۔ہاں یادگار عہد رفتہ برگد کا واحد بوڑھا پیڑ ہے جس کے چوڑے تنے سے اس کی ’داڑھی‘ لٹکتی ہے اور اس کی گھنی پھیلی ہوی شاخوں میں سر شام سینکڑوں ہزاروں چڑیاں بسیرا کرنے لوٹ کر آتی ہیں تو ان کے شور سے ماحول گونجتا ہے ۔

اس کے عین سامنے ایک ماربل کے پلیٹ فارم پر مختلف اونچائی کے چار ستون چار صوبوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔انہی میں کوئی ایک اس پھانسی گھاٹ کی جگہ ہے جہاں بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی۔۔دس سال قبل میں لوٹ کے پنڈی آیا تو ایک صبح میں نے عجیب منظر دیکھا۔۔ کثیر تعداد میں لوگ اسی جگہ بیٹھے قرآن خوانی کر رہے تھے،کچھ رو بھی رہے تھے اور چند جیالوں نے جناح پارک پر سیاہی پھیر کر بھٹو پارک لکھ دیا تھا (جو شام تک مٹادیا گیا) پھر مجھے یاد آیا کہ وہ 4 اپریل کی تاریخ تھی اس سے مماثل ایبٹ اباد میں وہ جگہ ہے جہاں اسامہ بن لادن کو مارا گیا تھا۔عرصہ دراز تک لوگ تجسس یا عقیدت میں آتے تھے لیکن ان کو احاطے کے باہر ہی روک دیا جاتا تھا۔ پھر بھی کچھ باہرھی کھڑے رہ کر قراں خوانی کرتے رہے۔اب انتظامیہ نے وہاں قبرستان بنانے کا فیصلہ کیا ہے کہ جو قراں خوانی کرے صرف اسامہ بن لادن کے لیے نہ ہو ۔

وہ جگہ جو اب اسلام آباد ہے سرسبز پہاڑیوں اور قدرتی چشموں کی سرزمین تھی جس میں ایک جگہ سید پور تھی جہاں ہم بھی پکنک منانے جاتے تھے لیکن جو راہ ادھر کو جاتی تھی۔ کہیں نہیں ہے ،کہیں بھی نہیں ہے اس کا سراغ۔سیدپوری پوری روڈ جب شہر کی حدود سے نکلتی تھی تو ایک پتلی سی سڑک رہ جاتی تھی جس پر ہم سایکل سوار دوطرفہ پھل دار درختون کے سائے میں سے گزرتے تھے تو ہاتھ بڑھا کے رس دار آلو بخارے یا شیریں خوبانی توڑنے کیلئے کسی کی اجازت درکار نہیں ہوتی تھی۔

AHMED POST 3

12میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد سید پور آتا تھا جس کو اب ایک مکروہ طریقے سے یوں ’سید پور ماڈل ولیج‘ کا ماڈرن نام دیا گیا ہے تو یوں لگتا ہے کہ گاؤں کی گوری کو پنگھٹ پر اسکرٹ اور بلاؤز پہنا کے کھڑا کر دیا گیا ہو،اصل سید پورکا گاوں جہاں سے شروع ہوتا تھا       اب وہاں کارپارکنگ ایریا ہے اوردیس پردیس جیسے برگر کلاس کے مادرن ریسٹورنٹس ہیں جہاں سید پور کا باسی اور عام آدمی اندرا یک حسرت کی نظر تو ڈال سکتا ہے قدم نہیں رکھ سکتا۔ یہ کار پارکنگ ایریا بھی ایک مدفن ہے جہاں تاریخ کو زندہ درگور کر دیا گیا ہے۔اس کے نیچے’اشنان گھاٹ‘ تھے۔پہاڑی چشموں کا پانی بلندی سے نیچے کی طرف آتا تھا تو ڈھلوان پر مردوں  اورعورتوں کے الگ الگ نہانےکے تالاب کو بھرتا تھا ۔یہ وہ سوئمنگ پول نہیں تھے جس میں مغربی جل پریاں اس مخصوص لباس میں غوطہ زن نظر اتی ہیں جس ہر چند کہیں کہ ہےنہیں ہے۔۔ جی نہیں۔۔صبح دم اشنان ہندو مت میں ایک مذہبی فریضے کی حیثیت رکھتا تھا اور معاشرتی اقدار کے مطابق خواتین کیلئے سخت پردہ تھا اب ان تالابوں پر چھت ڈال کے ان کا نام ونشاں یوں متایا گیا ہے کہ وہ میرے جیسے معدودے چند پرانے بڈھوں کے صرف تصور میں باقی ہیں۔

 فرمودہ اقبال بھی تو یہی تھاکہ ’جو نقش کہن تم کو نظر آئےمٹادو۔ جزاک اللہ

ان تالابوں کے بعد وہ مندر تھا جو اب کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا شو روم ہے اس میں سے مورتیاں ہٹالی گئی ہیں اور دیواروں کو اسلام آباد کی تشکیل و تعمیر کے مناظر دکھانے والی تصاویر سے بھر دیا گیا ہے۔یہاں آنے والے جوتوں سمیت اندر پھرتے ہیں تو مجھے بھارت سے اسرائیل تک ان مساجد کا خیال آتا ہے جن کی بے حرمتی پر ہماری غیرت ایمانی جاگ اٹھتی ہے حالانکہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کا احترام اسلام کی تعلیمات میں شامل ہے۔۔خیر یہ موضوع سے ہٹ کے ایک جملہ ٔمعترضہ تھا۔ سید پور گاوں کے کچے مکانوں والی گلیاں تھیں جن سے گزر کے پکنک منانے کےلیے آنے والے بلندی کا سفر کچے پتھریلے راستے پر کرتے تھے اور بالاخر ایک ایسی جگہ پہنچ جاتے تھے جہاں اوپر سے آنے والے چشمے کا شفاف پانی آبشار کی صورت گر کے ایک قدرتی تالاب کو بھرتا تھا اور تالاب سے چھلکتا تھا تو گاوں اور اشنان گھاٹ کا رخ کرتا تھا۔پکنک منانے والے اس آبشار کے نیچے نہاتے تھے۔ قدرت کا وہ آب رواں اب’واٹر سپلائی اسکیم‘ کا حصہ ہے اور نیچے اشنان گھاٹ کی طرف اورسید پور کی گلیوں میں سیوریج کا گندا بدبو دار پانی بہتا ہے۔۔ ایک دلچسپ حقیقت آج بھی نور پور، سید پور ،شاہدرہ اور شاہ اللہ دتا جیسے مضافات کے پہاڑوں سے اترنے والے قدرتی پانی کے چشمے ہیں جہان لوگ پکنک مناتے ہیں اور چند مقامات پر پن چکیاں آج بھی کام کرتی ہیں۔

جاری ہے

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں