ہمارے ایک صحافی دوست اس بات پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں کہ پولیس اور خاص طور پر تھانہ کلچرتبدیل نہیں ہو سکتا ۔ چونکہ دانشور ہیں لہذا دلیل سے بات کرنا پسند کرتے ہیں ۔ ہم اکثر پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھے چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاتے ہیں ۔ چند ماہ قبل تک میں بھی ان کی اکثر باتوں کی تائید کرتا تھا لیکن پھر تصویر کا ایک اور رخ بھی واضح ہونے لگا ۔ لاہور جم خانہ کلب کی ایک شام یاد آتی ہے ۔ سابق آئی جی اور دانشور الطاف قمر صاحب سے پولیس کی کارکردگی پر ہی بحث ہو رہی تھی ۔ وہ ڈی آئی جی ٹریفک کے طور پر وارڈنز سسٹم متعارف کروا چکے تھے لہذا مجھ ایسے طالب علم یہ جاننا چاہ رہے تھے کہ کیا پولیس کا نظام کبھی بہتر ہو سکتا ہے یا نہیں ۔ الطاف قمر صاحب نے اس روز ہمیں دلائل سے ہی اس بات پر قائل کر لیا کہ بعض اصلاحات ہو جائیں تو پولیس کا نظام ہماری توقع سے بھی بڑھ کر بہتر ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے وارڈنز کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ چند برس قبل تک ٹریفک پولیس کے اہلکار چالان کی بجائے ’’چائے پانی‘‘ کے حوالے سے بدنام تھے لیکن اب موجودہ سسٹم میں ہمیں چالان کرنے کی ’’شکایات ‘‘ تو موصول ہوتی ہیں لیکن ایسی کوئی شکایت نہیں ملتی کہ وارڈنز نے چالان نہ کرنے کے لئے رشوت طلب کی ہو۔
الطاف قمر کا ذکر اس لئے آگیا کہ چند روز قبل بیدیاں پولیس ٹریننگ سینٹر میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا پولیس دربار سے خطاب تھا جس میں شرکت کا موقع ملا۔ اس روز احساس ہوا کہ پنجاب پولیس ایک عرصہ سے تبدیلی کی جانب سفر کر رہی ہے ۔ اس سفر کی راہ میں جو رکاوٹیں حائل تھیں انہیں موجودہ آئی جی پنجاب تیزی سے دور کر رہے ہیں۔
میری متعدد سینئر پولیس افسران سے تھانہ کلچر اور پولیس کے پرانے نظام کو بہتر کرنے کے حوالے سے مکالمے رہے ہیں۔اپنی صحافتی ذمہ داریوں کے دوران میں متعدد پولیس اہلکاروں سے بھی ملا ہوں ۔ ان ملاقاتوں کی روشنی میں یہ بات واضح ہوئی کہ پولیس میں اس وقت تک تبدیلی نہیں آ سکتی جب تک ایک عام اہلکار کا معیار زندگی بہتر نہ ہو ۔طویل ڈیوٹیوں اور قلیل تنخواہوں نے عام پولیس اہلکار کی سوشل اور معاشی زندگی تباہ کر دی ہے۔ ایک عام پولیس اہلکار بھی ہماری طرح عام انسان ہے لیکن 18، 18 گھنٹے کی ڈیوٹی کے بعد جب وہ سوتا ہے تب بھی اسے یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں کوئی ایسا واقعہ نہ ہو جائے کہ اسے دوبارہ اٹھ کر ڈیوٹی پر پہنچنا پڑے ۔ اسے عید سمیت کسی تہوار پر چھٹی نہیں ملتی ۔ اس کے بیوی بچے اس کے بنا عید منانے کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں ۔ وہ اکثر ہماری حفاظت کے لئے اپنے خاندان کی تقریبات میں بھی شرکت نہیں کر پاتا ۔ یہ ساری باتیں پولیس افسران کے ساتھ ہونے والی نشستوں میں بھی سامنے آتی رہی ہیں لیکن یہاں مسئلہ یہ تھا کہ ہماری پارلیمنٹ نے اس سلسلے میں ایسی کوئی قانون سازی نہیں کی جس سے پولیس فورس کے مسائل حل ہو سکیں ۔ اس میں بھی دو رائے نہیں کہ جب تک آبادی میں اضافہ کے تناسب سے تھانوں کی نفری نہیں بڑھائی جائے گی اور مہنگائی کے تناسب سے پولیس اہلکاروں کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہو گا تب تک تبدیلی ممکن نہیں ۔
حالیہ پولیس دربار میں وزیر اعلی ٰپنجاب کی جانب سے ایسے اعلانات کئے گئے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ پنجاب پولیس تبدیلی کی جانب سفر کر رہی ہے ۔ وزیر اعلی پنجاب نے ایک اعلان تو یہ کیا کہ کانسٹیبل ، ہیڈ کانسٹیبل اور اے ایس آئی کا سکیل بڑھا دیا ۔ پہلے سے بھرتی افراد کو ایک سکیل کی پروموشن مل گئی اور نئی بھرتیاں اگلے سکیل کے حساب سے ہوں گی ۔ اس سے یقیناًعام پولیس اہلکار کی معاشی زندگی بہتر ہوگی ۔ اسی طرح 13 ہزار نئے کانسٹیبل بھرتی کرنے کا اعلان کر دیا ۔ یہ بھرتیاں بھی ہر سال ہوں گی جس سے یقینی طور پر عام اہلکار کا اضافی دباؤ ختم ہو گا ۔ اسی طرح شہید ہونے والے اہلکاروں کے ورثا کے امدادی پیکج کو بھی 50 لاکھ سے 1 کروڑ کر دیا گیا۔یقیناًاس کا کریڈیٹ آئی جی پنجاب کو جاتا ہے جنہوں نے وزیر اعلی کو ان اقدامات پر قائل کیا ۔ اگر بجٹ کے حساب سے دیکھیں تو 2 لاکھ سے زائد نفری کی حامل پنجاب پولیس کی تنخواہوں اور پیکجز میں اضافہ سے اربوں کا اضافی فنڈز لگے گا لیکن اس کے نتائج یقیناًزیادہ اہم ہوں گے ۔
میرا جن دانشور دوستوں سے پولیس کلچر پر تبادلہ خیال ہوتا رہا ہے ان سب کا یہی کہنا تھا کہ جب تک سپاہی کے حالات اور معیار زندگی بہتر نہیں ہو گا اور آبادی کے تناسب سے ہزاروں مزید اہلکار بھرتی نہیں ہوں گے تب تک سسٹم میں بہتر ی نہیں آئے گی ۔ ٹریفک وارڈنزز کا سسٹم ہمارے سامنے ٹیسٹ کیس ہے ۔ ان وارڈنز کی تنخواہوں اور سکیلز میں اضافہ ہوا تو رشوت کلچر بھی اپنی موت آپ مر گیا۔ یہی تجربہ اب دیگر پولیس اہلکاروں کے لئے کیا جا رہا ہے ۔ میں براہ راست بھرتی ہونے والے ان نئے سب انسپکٹرز کے حوالے سے کافی پر امید ہوں جو اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ وطن کی خدمت کے جذبے سے بھی سرشار ہیں ۔ یہ جوان اچھی تنخواہ اور بہتر تعلیم کے ساتھ اب میدان عمل میں آ رہے ہیں ۔ میرے ساتھ ایم فل کرنے والے کئی احباب بھی ان میں شامل ہیں ۔ یہ وہی دوست ہیں جو یونی ورسٹی میں تھانہ کلچر تبدیل کرنے کے حوالے سے خاصے پرجوش نظر آتے تھے ۔ اب خدا نے انہیں ہی اس امتحان کے لئے چن لیا ہے ۔
دلیل اور مکالمہ پر یقین رکھنے والوں کی ایک اچھی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ انا کی شال اوڑھنا پسند نہیں کرتے ۔ یہ طبقہ سوچ اور فکر کی تبدیلی کا قائل ہے ۔ مکالمہ کا پہلا اصول ہی یہ ہے کہ اگر کوئی شخص دلیل سے قائل کر لے توسوچ کی تبدیلی میں شرمندگی یا انا حائل نہیں ہوتی ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے پرائمری کے طالب علم کی سوچ پی ایچ ڈی کرنے تک کئی ’’یوٹرن‘‘ لے چکی ہوتی ہے ۔ ہم ایسوں کو بھی جب مکالمہ کی کشتی میں بٹھا کر دلیل کے چپو تھمائے جائیں تو ہم دوسرے کنارے کی جانب بڑھنے میں عار محسوس نہیں کرتے ۔ کچھ عرصہ سے سامنے آنے والی خبروں خصوصا فرنٹ ڈیسک ، کمپلینٹ سیل ،آپریشن و مانیٹرنگ سسٹم ، ماڈل تھانوں اور ڈولفن فورس سے محسوس ہوتا ہے کہ شاید آئی جی پولیس مشتاق احمد سکھیرا بھی ان اقدامات سے ہم ایسوں کو مایوسی سے امید کی جانب لا رہے ہیں ۔ اللہ کرے پولیس میں تبدیلی کا یہ خواب جلد پایہ تکمیل تک پہنچ جائے ۔