میڈیا میں زیادہ تر ریٹنگ جذباتیت پر ملتی ہے ، حقائق البتہ اکثر اس کے برعکس ہوتے ہیں ۔ اسی جذباتیت کے چکر سے نکل کر حقائق کی جانب بڑھیں تومعلوم ہوتا ہے کہ جرائم کا تعلق دو بڑے شعبوں سے جڑا ہے ۔ ایک قانون یا پولیس ہے جس کا کام جرم رونما ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے ،سماج البتہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ معاشرہ جس میں ہم پروان چڑھتے ہیں ، یہ سماج جو ہماری سوچ کے دھارے کا رخ طے کرتا ہے ، جرائم کے پھیلاؤ یا سدباب کا اصل محور ہوتا ہے ۔ سماج کا کام جرم سرزد ہونے سے پہلے کا ہے ۔
معاشرے اور سماج کی تربیت کسی بھی شخص کو جرائم سے نفرت یا رغبت کی طرف مائل کرتا ہے ۔ قصور کی7 سالہ زینب قتل کیس سے لے کر حال ہی میں فیصل آباد کی 6 سالہ بچی فضا نور کے مجرم کو سزا سنائے جانے تک کی داستانوں میں یہی بات سامنے آئی ہے ۔ اب پولیس سے لے کر عدالت تک ادارے اپنا فرض ادا کر رہے ہیں لیکن سماج ابھی بھی وہیں کھڑا ہے ۔ قصور کی زینب کے قاتلوں کو پولیس نے چند روز میں گرفتار کر لیا تھا ۔ عدالت نے شواہد کی بنیاد پر اسے پھانسی کی سزا دی اور پھر انتہائی کم وقت میں قاتل کو پھانسی دے دی گئی ۔ فیصل آباد کی فضا نور کا کیس بھی اب ایک کیس سٹڈی بن چکا ہے ۔
عام انتخابات کے دوران انسپکٹرز کی سطح تک پولیس افسران تبادلے ان کی اپنی رینج سے باہرکر دیئے گئے تھے ۔ لاہور کا شاعر انسپکٹر عمران حیدر تھیم بھی اسی بہاؤ کے ساتھ بہتا ہوا فیصل آباد ٹرانسفر ہو گیا ۔ وہاں اس نے صرف دو ماہ ڈیوٹی کی اور الیکشن کے بعد اسے واپس لاہور بلا لیا گیا ۔ یہ انسپکٹر فیصل آباد گیا تو 6 سالہ بچی فضا نورکو اغوا کر کے زیادتی اور پھر قتل کرنے کا کیس اس کے سامنے آیا ۔ اس انسپکٹرنے انتہائی مختصر مدت میں یہ کیس حل کیا ، ملزم سے تفتیش کی ، شواہد اکٹھے کئے اور ان کی بنیاد پر ایسی رپورٹ تیار کی جسے قانونی طور پر جھٹلانا ممکن نہ رہا اور یوں عدالت نے گذشتہ دنوں جنسی زیادتی کے مجرم اورقاتل کو تین بار سزائے موت سنا دی ۔
میں کرائم آبزرور کے طور پر ایسے کیسز کا مطالعہ کر رہا ہوں لہذا ان دنوں میرے لئے یہ کیس سٹڈی کا درجہ رکھتے ہیں ۔ اب تک میرے سامنے جو صورت حال واضح ہو رہی ہے اس کے مطابق آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی نے جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کے ساتھ ساتھ عدلیہ اوردیگر اداروں کے ساتھ رابطہ مضبوط کرتے ہوئے پولیس سروسز ڈیلیوری کی راہ میں حائل مشکلات کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کا اصل فائدہ وہ پولیس افسر و اہلکار اٹھا رہے ہیں جو ایک عرصہ سے مظلوموں کے لئے کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن کم وسائل اور دیگر معاون اداروں کی جانب سے عدم تعاون کا رویہ ان کی راہ میں رکاوٹ بن رہا تھا ۔ اب یہی لوگ بہترین اور تیز تر نتائج دے رہے ہیں۔ یقیناًاس میں عدلیہ سمیت وہ ادارے بھی قابل تحسین ہیں جنہوں نے مل بیٹھ کر عوامی مسائل کے حل کی راہ میں حائل ہونے والے معاملات پر تبادلہ خیال کیا اور ان رکاوٹوں کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔
یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ پنجاب پولیس اور عدلیہ نے تیز تر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن ہمارا سماج صرف اتنی ترقی کر سکا ہے کہ قصور کی زینب کی عمر 7 سال تھی جبکہ فیصل آباد کی فضہ کی عمر 6 سال تھی ۔ شخصی تربیت کا یہ عالم ہے کہ ہمارے یہاں والدین بچوں کو ون ویلنگ سے نہیں روکتے لیکن اس ون ویلنگ کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے جوان بیٹے کی لاش پر گھنٹوں روتے ہیں ۔ یہی والدین اپنے بچوں کی پتنگ بازی اور ہوائی فائرنگ پر خوش ہوتے ہیں اور پھر یہی ان بچوں کی ضمانت کے لئے دھکے کھاتے نظر آتے ہیں ۔ بدقسمتی سے ہمارے سماج میں تربیت کی بجائے قانون شکنی کا کلچر فروغ پا رہا ہے۔ ہم نتائج کی پروا کئے بنا جرائم پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور پھر اس وقت کف افسوس ملتے ہیں جب اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ سچ کہوں تو ہمارے جرائم اسی سماج کے آئنہ دار ہیں ۔
اسی صورت حال کو دوسرے رخ سے دیکھتے ہیں ۔ ہمارے یہاں شہریوں کے لئے تفریحی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ ملک بھر میں کھیلوں کے مقابلوں کا کلچر ہی نہیں ہے ۔ نوجوانوں سے لے کر بزرگوں تک کے پاس ایسا کوئی خاص مشغلہ نہیں جسے وہ فارغ اوقات میں اپنا سکیں ۔ موٹر سائیکل اسٹنٹ ، پتنگ بازی اور فائرنگ محفوظ اورانتہائی خوبصورت مشغلے بن سکتے ہیں اگر ان کے لئے حکومتی سطح پر اقدامات کئے جائیں ۔
یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ لاہور جیسے علاقے میں پیراگلائڈنگ کو فروغ دینے والے راجہ یاسر جیسے پروفیشنل پیرا گلائیڈر اور پائلٹ کو اس لئے روکا جا رہا ہے کہ جہاں وہ نوجوانوں کو پیرا گلائیڈنگ کی سہولت فراہم کرتے ہیں اس سے چند کلومیٹر پیچھے ایک ایسا گھر ہے جہاں ایک اہم عوامی شخصیت سال میں شاید کچھ دن کے لئے ٹھہرتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر چند کلومیٹرآگے پیرا گلائیڈنگ کرنے والوں نے مزید آگے کی جانب جانا ہو تواسے سکیورٹی رسک کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ۔ اس طرح تو لاہور میں ہر کلومیٹر کے فاصلے پر اشرافیہ کا کوئی نہ کوئی گھر آ جائے گا ۔ بی بی شہید اور بھٹو یاد آتے ہیں جو غریب ہاری کے گلے لگتے وقت کسی قسم کی سکیورٹی کو مسئلہ نہیں بناتے تھے ۔
اگلے روز پروفیشنل شوٹر اورماسٹر ٹرینر کاشف قادری سے گفتگو ہو رہی تھی ۔ میں نے سوال اٹھایا کہ یہ تربیت جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دی جاتی ہے ، عام شہری کو کیوں نہیں دی جا سکتی ؟ ہم موٹر سائیکل ، گاڑی یا بس چلانے سے پہلے ڈرائیونگ کی تربیت لیتے ہیں تو ہمیں لائسنس جاری کیا جاتا ہے جس کے بعد موٹرسائیکل یا گاڑی چلانے کی اجازت ملتی ہے ۔ سی ٹی او لاہور کیپٹن (ر) لیاقت ملک نے تو خاص طور پر لائسنس کی پابندی کروا دی ہے لیکن دوسری جانب اسلحہ کی تربیت اور اس تربیت کے مستند سرٹیفکیٹ کا کوئی نظام یہاں نظر نہیں آتا ۔
ملک بھر میں لاکھوں افراد کے پاس اسلحہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کے پاس ایساکوئی لائسنس یا سرٹیفکیٹ ہے جس سے معلوم ہو کہ وہ اسلحہ کا محفوظ استعمال جانتے ہیں ؟ اسلحہ کا اجازت نامہ ایک الگ معاملہ ہے لیکن اس کی تربیت لینا بالکل مختلف ہے ۔
ہمارے نوجوانوں کو اسلحہ چلانے کا شوق ہے لیکن کسی ان ڈور شوٹنگ رینج تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ شوق تقریبات میں ہوائی فائرنگ یا پھر مجرمانہ سرگرمیوں میں پورا کیا جا رہا ہے ۔ اگر ہماری سرکار ماہر ٹرینرز اور شوٹرز کی خدمات لے کر پولیس کالجز اور دیگر فورسز کی شوٹنگ رینجز کو عوام کے لئے تربیتی سنٹراور پریکٹس کلب کے طور پر کھول دے تو نہ صرف ان اداروں کا ریونیو بڑھے گا بلکہ شہریوں کی اسلحہ ہینڈلنگ کی تربیت بھی ہو گی ۔
ہم تو اس بات کے قائل ہیں کہ ڈرائیونگ سینٹرز کی طرز پر اسلحہ کے محفوظ استعمال کی مختصر تربیت کو لازمی قرار دیتے ہوئے اسلحہ لائسنس کے ساتھ اس کے سرکاری سرٹیفکیٹ کا منسلک ہونا بھی لازم ہو، تاکہ گھروں میں اچانک گولی چل جانے سے لے کر شادیوں میں براتیوں کی ہلاکتوں کے واقعات ختم ہو سکیں ۔اگر اسلحہ لائسنس کے حامل شہری ہوائی فائرنگ کی بجائے فیس ادا کر کے شوٹنگ رینج میں نشانہ بازی کی پریکٹس کر سکیں تو بہت سے جرائم ہی نہیں حادثات بھی ختم ہو جائیں گے ۔
موجودہ حکومت کا رجحان کھیلوں کو فروغ دینے کی طرف ہے جس کی وجہ سے امید ہے ملک بھر میں ان ڈور اور آؤٹ دور کھیلوں کے میدان تیار ہوں گے ۔ موجودہ آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی بھی جس طرح جرائم کی روک تھام کے لئے جدید ٹیکنالوجی اور پنجاب پولیس کی تربیت کے ساتھ ساتھ عوام کی سہولیات کے لئے اقدامات کر رہے ہیں اس سے بھی امید ہے کہ کم از کم پنجاب حکومت اور آئی جی پنجاب مل کر ایسے اقدامات کر نے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جس سے غیر قانونی اسلحہ اور غیر قانونی فائرنگ ختم ہو جائے گی اور شہریوں کو تربیت یافتہ ٹرینرز سے فائرنگ رینج میں نشانہ بازی کی شوق کو مہمیز کرنے کا موقع مل سکے گا۔
ان رینجز میں فورسز سے ریٹائرڈ ٹرینرز اور دیگر ملکی و غیر ملکی پروفیشنلز کی مدد سے آؤٹ سورسنگ کے طور پر پولیس افسروں و اہلکاروں کو ماڈرن ٹیکٹس سکھانے کا مستقل سلسلہ بھی شروع کیا جا سکتا ہے کیونکہ جب تربیت شوق میں ڈھل جائے تو مہارتیں کندن بن جاتی ہیں ۔