The news is by your side.

صحافت یا سرکس ‘ سرل المیڈا اور میڈیا

ڈان اخبار کے معتبر صحافی سرل المیڈا کی ایک بڑی خبر نے جہاں حکومتی اور فوجی حلقوں میں حشر برپا کر دیا۔ وہیں صحافی بھی حکومت کی جانب سے سرل المیڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالے جانے پر سیخ پا ہو رہے ہیں، لیکن ایک سوال جو ہر کسی کی زبان پر ہے وہ یہ کہ کیا سرل المیڈا کی یہ خبر ڈان اخبار کو بغیر پی ایم ہاؤس اور آئی ایس پی آر سے رابطہ کئے چھاپنی چاہیے تھی؟ بھارتی میڈیا کا اس خبر کو لے کر جاری پروپیگنڈا دیکھ کر اندازہ ہو بھی رہا ہے کہ یہ خبر واقعی قومی مفاد کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ تو کیا ایسی خبر کو چھاپنے سے پہلے ایڈیٹوریل بورڈ کو دیکھنا نہیں چاہیے تھا۔ خبر چھپنے کے بعد تو ظاہر ہے ذمہ داری اب صرف صحافی کی نہیں بلکہ اخبار کی ہے۔ تو ڈان اخبار کا اپنے صحافی کی خبر پر ثابت قدم رہنا بالکل سمجھ میں آتا ہے۔

سرل المیڈا کی خبر اور اس کے بعد حکومت کے اچانک ردعمل سے جہاں ریاست کے دو بڑے ستون فوج اور صحافت ہل کر رہ گئے ہیں،  وہیں حکومت بھی خبر کے ذرائع ڈھونڈنے میں مصروف ہے جنہیں مخفی رکھنا صحافی کا حق ہے۔ اس خبر سے ایک بات ضرور سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی یلغار کے باوجود پرنٹ میڈیا کومے کی حالت سے باہر آ گیا ہے اور نیوز چینلز پر بھی اخبار میں چھپنے والی اس خبر اور اس کے شدید مضمرات زیرِ بحث ہیں۔

صحافت کے شعبے کا ایک ادنیٰ حصہ ہونے کے ناطے نیوز چینلز میں فرائض منصبی نبھانے والے اپنے قابلِ احترام ساتھیوں سے ایک سوال پوچھنے کی جسارت کر رہی ہوں کہ یہ جو ہم بریکنگ نیوز، ایکسکلوسو اور آج کی بڑی خبر کے نام پر اپنے خبر ناموں میں اکثر و بیشتر صحافت کا جنازہ نکالتے ہیں کیا وہ جائز ہے؟؟ بے حد احترام کے ساتھ گزارش ہے کہ نیوز چینلز پر چلنے والی ہر بریکنگ نیوز کیا بریکنگ نیوز کہلانے کی مستحق ہے؟ یا پھر میں کہیں ماضی میں رہ گئی ہوں اور بریکنگ نیوز کا مطلب کب بدل گیا، مجھے پتا نہیں چل سکا۔۔   وزیرِ اعظم کا جہاز لینڈ ہو گیا،   بریکنگ!، عمران خان جلسہ گاہ میں پہنچ گئے، بریکنگ!۔

میں نے بہت سے چینلز پر رپورٹرز کو بہت سے ان کیمرا اجلاسوں کے اندر کی خبریں اس طرح دیتے سنا ہے جیسے وہاں میٹنگ منٹس لینے کی ذمہ داری ان ہی کی تو تھی۔ لیکن خبر ہمیشہ ذرائع کے مطابق دی جا رہی ہوتی ہے۔ ان کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا جاتا ہے نہ ہی ان سے ذرائع کے متعلق سوال کیا جاتا ہے۔ رپورٹنگ کے فرائض نبھاتے ہوئے یہ بات تو میں بھی سمجھتی ہوں کہ کس کس طرح یہی ذرائع انفارمیشن کو گھما پھرا کر خبر لیک کروانے کے لئے رپورٹرز کا استعمال کرتے ہیں۔ اور رپورٹرز بھی بریکنگ نیوز دینے کے لئے بیٹھے بیٹھے کیسے ایک شرلی چھوڑتے ہیں اور پھر ایک خبر کو سودے کی طرح بیچ دیتے ہیں۔ اب بھئی،  کون آ کر پوچھے گا کہ  یہ خبر صحیح تھی یا غلط۔ کیونکہ الیکٹرانک میڈیا میں فولو اپ ایک ایسی نایاب چیز کا نام ہے جس کی کبھی کبھی ضرورت پڑتی ہے وہ بھی صرف تب تک جب تک کوئی اور بڑی خبر نہ آ جائے۔ یہاں تو خبر باؤنس بھی ہو جائے تو بات آئی گئی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ الیکٹرانک میڈیا میں چھوٹی چھوٹی خبروں میں ہی بریکنگ نیوز نکل آتی ہے۔ جو جلد ہی بھلا دی جاتی ہیں۔

پندرہ نیوز چینلز پر ایکسکلوسو کی پٹی کے ساتھ ایک ہی خبر نشر ہو رہی ہوتی ہے اور ایک ہی احتجاج کی فوٹیج پر سب چینلز اپنا اپنا ایکسکلوسوکھیل رہے ہوتے ہیں۔ مجھے بتائیے اگر یہ فوٹیج ہر چینل پر آن ایئر ہو رہی ہے وہ بھی ایک ساتھ ۔۔ تو بھئی اس میں ایکسکلوسو کیا ہے؟۔

ہم نے پڑھا تھا کتا کاٹے تو خبر نہیں انسان کتے کو کاٹے تو خبر ہے۔کچھ نئے نویلے نام نہاد صحافی اس بات کو لے کر اتنے سنجیدہ ہو گئے ہیں کہ خبر بنانے کے لئے لوگوں کو ایسے مشورے دینے سے بھی گریز نہیں کرتے کہ یہ کرے گا تو ٹی وی پر چلے گا۔

یہ تو خبرنامے کا احوال تھا ۔ ٹاک شوز میں تو بڑے بڑے صحافی اور اینکرز انہیں خبروں کو لے کر ایسی ایسی انفارمیشن دیتے ہیں کہ کانوں سے دھوئیں نکل جاتے ہیں۔لیکن کوئی نہیں پوچھتا۔ کبھی لگتا ہے حکومت جا رہی ہے کبھی بوٹوں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ کچھ اینکرز تو ایسا شو لگاتے ہیں کہ زمین پھٹتی نظر آتی ہے اور آسمان سر پر آتا دکھائی دیتا ہے۔ لگتا ہے کہ قیامت سامنے آئی کھڑی ہے۔ لیکن ان سے کوئی نہیں پوچھتا۔

بالکل سب کو آزادی رائے کا حق ہونا چاہیے، میڈیا آزاد ہونا چاہیے لیکن شترِ بے مہار نہیں۔ نامور صحافی، معزز اینکرز اور سینیئر تجزیہ کار اگر سیاست، عدالت، فوج، معاشرتی مسائل اور جرائم کی داستانوں پر چیخ چیخ کر اپنی رائے دینے کے ساتھ ساتھ صحافتی اقدار پر بھی سیر حاصل گفتگو کریں تو شاید کوئی بھی سٹوری رپورٹ کرتے ہوئے یا کسی بھی حساس معاملے پر انویسٹی گیٹو جرنلزم کے نام پر اپنا ذاتی تجزیہ دینے کی بجائے خود بھی ان صحافتی اقدار کی پیروی کر سکیں۔

یہ میرے مشاہدے اور محدود تجربے پرمبنی میری رائے ہے اور یقیننا مجھ پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ خبر دینے کے چکر میں خود خبر بننے سے بلاشبہ نقصان ہو گا اور شاید کچھ فائدہ بھی ہو جائے۔ لیکن خبر دینے کے لئے تماشا بنانے کا شعار ان تمام صحافیوں اور نیوز چینلزکو بھی ختم کرنا ہو گا جو آج سرل المیڈا کی خبر پر تجزیے پیش کر رہے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں