دل ٹوٹا ہوا تھا، پی آئی اے کی فلائٹ PK661 میں سفر کرنے والے 48 افراد اپنا آخری سفر طے کر چکے تھے۔ رات 10 بج کر45 منٹ پر میں بوجھل قدموں کے ساتھ اپنے کمرے میں داخل ہوئی، بغیر کسی ارادے کے، محض عادتاً میوزک پلیئر کو وہیں سے جِلا بخشی جہاں آخری بار سنتے سنتے بند کیا تھا تو وہی آواز کانوں میں رس گھولنے لگی۔۔ وہی جملے جو میں ہمیشہ تب سنتی ہوں، جب بہت اداس ہوتی ہوں، جب ہمت ٹوٹنے لگتی ہے۔ لیکن میرے بچپن کا یہ انجانا ساتھی ان لمحوں میں اپنے ان لفظوں سے میری ٹوٹتی ہمت کو پھر سے باندھ دیتا ہے۔
ْکیا ہوا اگر زندگی ذرا الجھ سی گئی
سوچو تو ذراجنگلوں میں بھی راستے تو ہیں
ہمیں بھی کوئی مل ہی جائے گا۔۔
مجھے یاد ہے کہ اس وقت میں ان شبدوں کا مطلب نہیں جانتی تھی، لیکن ایک ایک لفظ مجھے یاد تھا اور پتہ نہیں کیوں مجھے یہ جملے بے حد پسند تھے۔
بہار آتی ہے لیکن ان درختوں پر نہیں آتی
ہمارے نام پڑھتی ہے تو واپس لوٹ جاتی ہے
یہی ہر بار ہوتا ہے۔
اسکول میں مقابلوں میں مجھے ملی نغمے گانے کا بہت شوق تھا لیکن پھیپھڑے اس قدر کمزور تھے کہ ایک جملہ بھی پورا نہیں پڑھ پاتی تھی، سانس ٹوٹ جاتی تھی، لیکن دل دل پاکستان وہ واحد ملی نغمہ تھا جو میرا پسندیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ مجھے با آوازِ بلند گانا قدرےآسان بھی لگتا تھا، تو ہمیشہ کوشش کر کے یہی گاتی تھی، یہاں بھی وہ انجانا ساتھی کام آ جاتا تھا۔
آج بھی جب اتنا زیادہ خاموش ہو جانے کا دل چاہتا ہے کہ اپنی آواز خود کو بھی سنائی نہ دے اور بس چپ ہی لگ جائے تو اس انجانے ساتھی کی نرم ملائم آواز یہ کہتی سنائی دیتی ہے۔
کہہ دو جو بھی من میں آئے، ایسا نہ ہو خاموشی میں سننے والا ہی کھو جائے۔
جب ٹوٹے دھاگے باندھنے کے لئے تھوڑی امید چاہیے ہوتی ہے تو انجانے ساتھی کے کسی گیت کے یہ بول ہمت دے جاتے ہیں۔
آئے گی ایک بار کھو گئی جو بہار، میں اسی آس میں جیوں گا۔
میں نہیں جانتی تھی، جنید جمشیدکون ہے، کہاں ہے، لیکن اس کی آواز سنتے سنتے بڑی ہوئی۔ میرے بچپن کا انجانا ساتھی۔ ۔ وائٹل سائنز میرے لئے بہت وائٹل تھا اور اب بھی ہے۔
جب مجھے اس انجانے ساتھی کی باتیں سمجھ میں آنا شروع ہوئیں تو اس نے اپنا رستہ بدل لیا۔ سنگر سے سکالر بن گیا۔کہتا تو وہ بھی صحیح ہی تھا۔
ہم کیوں چلیں اس راہ پر، جس راہ پر سب ہی چلیں
کیوں نہ چنیں وہ راستہ، جس پرنہیں کوئی گیا۔
جنید جمشید کا بطور مذہبی سکالر کردار بھی بالکل ویسا ہی تھا۔ وہ تب بھی امید بانٹتا تھا اور اب بھی۔۔ بس طریقہ کار مختلف تھا۔ اس نے شہرت کا راستہ چھوڑا لیکن اللہ کے راستے میں بھی شہرت اور کامیابی اس کے پیچھے رہی۔
جنید جمشید کی پہلی نعت سن کر مجھے ایسا لگا جیسے میں واقعی مدینے کا سفر کر رہی ہوں۔ اس کی آواز میں کچھ ایسا الگ سا احساس تھا کہ جنید جمشید پھر کہیں دور چلا گیا اور وہ انجانا ساتھی واپس آ گیا، جو کہہ رہا تھا
محمد کا روضہ قریب آ رہا ہے، بلندی پہ اپنا نصیب آ رہا ہے۔
فرشتوں یہ دے دو پیغام ان کو، خبر جا کے دے دو ان کو فرشتوں
کہ خادم تمہارا سعید آ رہا ہے۔
ابھی کسی ٹی وی چینل پر جب اسی انجانے ساتھی کے پرانے گیت کے یہ بول سنے تو قسم سے آنسو نہیں تھم رہے تھے۔ شاید اب جا کر مجھے یہ احساس ہوا ہے وہ بھی اپنی پوری شدت کے ساتھ۔۔ کہ جنید جمشید کے ساتھ میرا یہ لاشعوری تعلق تب سے ہے جب سے میں نے ہوش سنبھالا اور تب تک رہنے والا ہے، جب تک میرا ہوش قائم رہے گا۔
مر بھی جاؤں تو مت رونا
بیتی ہوئی باتوں کو
یاد کرنا اور جی لینا
کل رات دس بجکر 45 منٹ پر مجھے یہ احساس ہوا کہ جنید جمشید اللہ کو تو پیارا ہو گیا لیکن وہ انجانا ساتھی کبھی ساتھ نہیں چھوڑے گا۔
رابعہ نور‘ پاکستان کے ثقافتی دارالحکومت لاہور سےتعلق رکھتی ہیں اور اے آروائی نیوز کے لیے بحیثیت براڈ کاسٹ جرنلسٹ اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔