The news is by your side.

ہم وہاں بستے ہیں‘ جہاں بیٹوں کا کاروبار ہوتا ہے

ہم اس بستی میں بستے ہیں جہاں بیٹوں کا سودا کیا جاتا ہے۔جی ہاں! ایک بار پھر کہوں گی کہ ہمارے اس مہذب معاشرے میں بیٹوں کا بزنس ہوتا ہے۔ بیٹا کاروبار سنبھالے نہ سنبھالے لیکن اس پر کاروبار ضرور کیا جاتا ہے اور اچھے پڑھے لکھے لوگوں میں بھی بیشتر ایسے ایسے جاہل ہیں جو دینی اور دنیاوی فریضہ جان کر بیٹا بیچ دیتے ہیں۔آپ نے بھی ایسا ہی کیا ہو گا۔ نہیں کیا!تو پھر مستقبل میں کر لیں گے کیونکہ بیٹوں کا سودا کرنا ہماری روایت ہے۔ سودا بھی دیکھو کتنا فائدے کا ہے۔ بیٹا بیچ بھی دو اور رکھو بھی اپنے پاس ہی۔

ہمارے ہاں سب کام ہی عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ بیٹے کی شادی کرنی ہو تو موجیں لگ جاتی ہیں۔ جتنا گھسیٹ سکتے ہو بیٹی کے باپ سے گھسیٹ لو۔ اور وہ مسکین بھی یہ سوچ کر بیٹھا ہوگا کہ میں تو بیٹی کا باپ ہوں، جو مرضی ہو جائے، میرے لئے تو یہ سودا گھاٹے کا ہی ہے۔ بیٹی بھی دوں گا۔ پھر اس کے اور پورے سسرال کے کپڑے بھی دوں گا (جیسے پہلے وہ جسم پرکیلے کے درخت سے پتے اتار کر باندھتے تھے)۔ سارا فرنیچر بھی میں ہی دوں گا (بیٹا شادی سے پہلے تو فرش پر سوتا تھا)۔ برتن بھی میں نے ہی دینے ہیں(یا شیخ! عرب سے تعلق رکھتے ہیں نا بیٹی کے سسرال والے ایک ہی برتن میں پورا خاندان نبٹ جاتا ہے، اب باقی برتن تو ظاہر ہے دینے پڑیں گے)۔ بستر تک مجھے ہی کرنے ہیں۔گرمی بہت پڑتی ہے بھئی، اے سی بھی دے دوں (نو کمنٹس)۔گاڑی دے سکتا ہوں تو وہ بھی دوں گا (بھکاریوں میں تو بیٹی نہیں بیاہ رہا، نہیں میں بالکل نہیں سوچوں گا)۔
یہ خیال تو ذہن میں بھی نہیں لاناکہ اگر ان نواب ابنِ نواب کو سب میں نے ہی دینا ہے بھئی تو میں اپنی بیٹی دوں ہی کیوں۔ بیٹا کیوں نا رخصت کروا لاؤں۔۔ توبہ ہے۔۔ ایسا ہو نہیں سکتا کیونکہ کاروبار کرنے کا اور پھر اس پر منافع لینے کا حق صرف بیٹے کے باپ کا ہے۔ یعنی بیٹے والوں نے تو اچھا خاصا سودا کر لیا۔ لڑکی بھی آ گئی بہو بن کر، اب یہ ضروری نہیں کہ اسے بیٹی سمجھا بھی جائے۔ اس کا فیصلہ لڑکی کے ساتھ کتنا مال آیا ہے، یہ دیکھ کر ہی کریں گے۔

اب اتنی قیمت ادا کر کے لڑکی اگرگھر آ کر اچانک چڑیل کا روپ سادھ لے تو مرچیں بھی بڑی لگتی ہیں۔ تب یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اس چڑیل نے تو خریدا ہی تھا نا،آپ نے تو سودا کیا تھا اپنے بیٹے کا۔ اب تو وہ بک گیا۔ اب کیوں اس بے چارے کو جورو کا غلام کہتے ہو۔ جو بویا تھا اب وہ کاٹو۔

اگر لڑکی کی لائی ہوئی جہیز نام کی لعنت سسرالیوں کے اعلیٰ معیار پر پوری نہیں اترتی تو کچھ بعید نہیں کہ اس کی پڑھی لکھی ساس اسے ہر موقع پر برجستہ طعنہ ماریں اور اگر بے چاری کی قسمت کسی ان پڑھ غریب کے ساتھ پھوٹی ہے تو یقیننا اپنے بیٹے کا اچھا منافع بخش سودا نہ ہونے کا بدلہ بھی وہ اسی لڑکی سے کچھ ایسے لیں گے کہ پھر میرا بیانیہ ضروری نہیں،کسی بھی اخبار کی سرخی میں اس کی خبر لگ جائے گی۔

مجھے اس باپ سے زیادہ شکایت ہے جو سالوں اپنی پھول سی بیٹی کو پالتا پوستا ہے، اسے تعلیم بھی دے دیتا ہے لیکن آخر میں جب بیٹی کی شادی کا وقت آتا ہے تو گھاٹے کا سودا کر لیتا ہے۔ بیٹی بھی دیتا ہے اور ساتھ اس کے سارا سازوسامان بھی۔ اس گھاٹے کے سودے کے بعد یہ امید بھی رکھتا ہے کہ اگلے اس کی بیٹی کی عزت کریں۔ مجھے بتائیے سودے بازی میں عزت کیسی؟ یہ کیسا قانون ہے جہاں اپنے جگر کا ٹکڑا بھی دے دو اور پھر عنایات کی بارش بھی کرو۔ کس نے بیٹی کے باپ کو اتنا مجبور بنا دیا؟ کیا شادی ایک کاروبار ہے؟ کیا مائیں بیٹا پیدا ہونے کی دعا اس لئے مانگتی ہیں تاکہ اگلی دفعہ گھاٹے کا سودا کرنے والوں کی صف میں وہ نہ کھڑی ہوں؟ افسوس ہم واقعی ایسی بستی میں ہی بس رہے ہیں جہاں بیٹوں کا منافع بخش کاروبار ہوتا ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں