ویسے تو زندگی کے ایک ہی جیسے معمول میں ہر وقت مصروف نظر آنے کی اداکاری کرنے سے فرصت ہی کہاں ملتی ہے۔ اس کے باوجود بہت مشکل سے وقت نکالا اور سوچا کہ ایک تو میں سیاستدان نہیں دوسرا یہ اقتدار کی کرسی نہیں جو میں مسلسل اس پر براجمان رہنا اپنا حق ہی سمجھ لوں۔ اسی خیال کے ساتھ اٹھی اور کوریج کے لئے ارسال ہوئے درجنوں دعوت ناموں پر ایک سرسری سی نظر دوڑائی تو ایرانی کلاسیکل میوزک بینڈ کی لاہور میں پرفارمنس کے پیغام پر نظر ٹک گئی۔ سوچا جہاں اتنا ڈھیروں وقت مصروف رہ کر ضائع کر دیتی ہوں تو کچھ تھوڑا سا وقت ادھر بھی لگا آؤں۔
ایران میں اسلامی انقلاب کی اڑتیسویں سالگرہ کی تقریبات کا سلسلہ لاہور کے خانہ فرہنگ ایران میں بھی جاری تھا۔ الحمرا آرٹس کونسل میں ایرانی کلاسیکل بینڈ کوک کی پرفارمنس دیکھنے کے لئے ہر طبقہ فکر کے لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ہر جگہ دیر سے یا وقت سے پہلے پہنچنے کی عادت پختہ سی ہو گئی ہے تو یہاں بھی جب پہنچی تو ایرانی موسیقی اور فارسی کلام کی گونج دور سے ہی کانوں میں رس گھول رہی تھی۔ ہونقوں کی طرح ہال میں داخل ہو کر جب ایک نشست ڈھونڈ کر سنبھالی تو اس پڑھے لکھے اجتماع میں اپنی بے ذوقی اور کم آگہی کا احساس سماعتوں سے آ کر ٹکرا گیا۔
ظاہر ہے فارسی زبان سے کچھ خاص شناسائی نہ تھی تو اپنے اردگرد نگاہ دوڑا کر خود پر تصوف کی ایک ناقابلِ فہم سی کیفیت طاری کر لی۔
شاید خیال کی لہریں فضا میں سفر کرتے کرتے ایرانی بینڈ کے ایک ممبر تک جا پہنچیں، جو ہاتھ میں ایک الگ وضع کی دف سنبھالے ساکت بیٹھا تھا،اچانک اس کے ہاتھوں میں جنبش ہوئی اور پھر جیسے سب رک گیا۔ نجانے کیسے اس دف نے ایسے ساز بکھیرے کہ زبان اور ادراک کی تمام رکاوٹیں خود ہی پار ہوگئیں۔ دف کے ساتھ ایرانی ساز تنبک کا ملاپ خوب سے خوب تر ہو گیا۔ ایرانی تار بھی تھی اور شاید بانسری بھی۔۔ اور پھر ان سب سازوں کے بیچ میں بیٹھے اس گلوکار کی آواز کا سوز۔۔ مفہوم سمجھ میں نہ آنے پر بھی سوچ نے سوچ تک سفرکیا اور احساس سے احساس تک کا فاصلہ چند ہی ساعتوں میں طے ہوگیا، اور جو پیام تھا وہ ذہن میں سرایت کر گیا۔
وہاں بیٹھے بیٹھے چند لمحوں میں یہ ادراک ہوا کہ کبھی کبھی عقل اور دلیل کا دروازہ بند کر کے احساس کو تیرنے کے لئے سمندر میں کھلا چھوڑ دیا جائے تو ضروری نہیں کہ وہ آپ کو شارک بن کر کاٹ لے، بلکہ ہو سکتا ہے عقل کی بھول بھلیوں میں الجھانے کی بجائے وقت کی لہروں پر سوار ہو کر آپ کو شعور کے ساحل تک جلدی پہنچا دے۔ یعنی ایرانی انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر ایرانی کلاسیکل موسیقی کو سمجھنے کی بجائے محسوس کرنے کے اس مختصر سے مرحلے میں ایک پرسکون سا انقلاب میرے اندر بھی جاگ گیا۔
رابعہ نور‘ پاکستان کے ثقافتی دارالحکومت لاہور سےتعلق رکھتی ہیں اور اے آروائی نیوز کے لیے بحیثیت براڈ کاسٹ جرنلسٹ اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔