The news is by your side.

عورتوں پر تشدد‘ دن منانے سے کیا ہوگا؟

بے شک ہم ترقی کی سیڑھیاں تیزی سے چڑھ رہے ہیں لیکن ہر بڑھتے قدم کے ساتھ ہماری اخلاقی قدریں اس سے بھی زیادہ تیزی سے گر رہی ہیں۔ میں عام طور پر خواتین کے حقوق کی آواز بلند کرنے والے مخصوص طبقے کی نمائندہ خواتین و حضرات کی بلاوجہ کی توجیہات کو سخت تنقیدی نگاہوں سے دیکھتی ہوں، لیکن آج جب دنیا خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منا رہی ہے ، تب نجانے کیوں میرے دل میں ہمیشہ کی طرح یہ خواہش پھر سے جاگی کہ خواتین پر تشدد کے واقعات کی خبریں چیخ چیخ کر پڑھتی اینکر کے پاس کم از کم آج کوئی ایسی دل دہلا دینے والی خبر نہ ہو، مگر جس بے حس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہاں دلوں میں ایسی خواہشات لے کر پھرنے والوں کو سزا کے طور پر دو دن بھوکا رکھناچاہیے تاکہ ایسی ناممکن قسم کی خواہشات کا اظہار کر کے وہ خود کو اور کسی اور کو بھی شرمندہ کرنے کی جسارت ہی نہ کریں۔

اب نتیجہ دیکھ لیجیے نا، دل تو ٹوٹ گیا نا۔ آج خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جا رہا ہے اور لاہور کی ایک سٹیج اداکارہ قسمت بیگ کو لحد میں اتارا جا رہا ہے۔ قسمت بیگ کا جرم یہ تھا کہ وہ ایک سٹیج اداکارہ تھی اور اس کو سزا یہ ملی کہ اس کے جسم میں بارہ گولیاں اتار دی گئیں تاکہ وہ دوبارہ سٹیج پر ناچ نہ سکے۔ یہاں میرا مدعا ہرگز یہ عرض کرنا نہیں کہ قسمت بیگ کیا کرتی تھی، کیوں کرتی تھی۔ میرا خود ساختہ زمینی خداؤں سے بس سوال اتنا ہے کہ آپ کو کس نے اتنا با اختیار بنا دیا کہ آپ کسی عورت کے کردار کو پرکھنے کے لئے اپنا ایک پیمانہ بنائیں اور پھر اس کی زندگی اور موت کا فیصلہ کریں۔ چلیں جواب نہ دیں۔ لیکن ایک بات جان لیں کہ اگر کبھی اپنے ہی بنائے گئے معیار پر مردوں کے کردار کو جانچ کر ان کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرنا شروع کر دیا گیا تو عین ممکن ہے کہ مرد ناپید ہو جائیں۔

افسوس یہ ہے کہ اس کے علاوہ کوئی حل بھی نہیں۔ وہ کہتے ہیں نا، جب خود پر پڑتی ہے تب ہی سمجھ آتی ہے۔ جو خود کو خدا سمجھنے لگیں، انہیں سزا کا خوف کب رہتا ہے۔ پاکستان میں ہر ایک گھنٹے میں دو خواتین تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ یہ ریکارڈ تو ہمارے پاس موجود ہے، لیکن یہ کسی کو نہیں معلوم کہ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے والے کتنے افراد کو قرار واقعی سزا بھی ملتی ہے۔ کبھی نو سالہ شمسہ کی معصومیت کسی درندے کی ہوس کا شکار ہو جاتی ہے، کہیں پانچ سالہ سنبل کے ساتھ مرد کے روپ میں کوئی حیوان زیادتی کر کے فرار ہو جاتا ہے۔ کہیں 26 سالہ مقدس کو اس کے ظالم سسرالی مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادیتے ہیں۔ کہیں جواں سال رمشا کو اجتماعی درندگی کا نشانہ بنا کر مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بس نام بدلتے رہتے ہیں لیکن حالات و واقعات وہی رہتے ہیں۔

اور ہم کیا کرتے ہیں؟؟؟ ہم ہر سال آج کے دن شمعیں روشن کرتے ہیں، سیمینار منعقد کرواتے ہیں اور خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن پر لمبی چوڑی تقریریں کرتے ہیں۔ پتا نہیں کس کو آگہی اور شعور دیتے ہیں اور پھر ایک سال کے لئے غائب ہو جاتے ہیں۔ اس دوران جب بھی ایسا کوئی دردناک واقعہ منظرِ عام پر آ جائے گاتو ہم پھر سے اپنے اپنے بلوں میں سے نکلیں گے اور آ کر مذمت کریں گے یا احتجاج یا پھر تقریر۔

مختصراًیہ اپنی اپنی کارروائی ڈال کر ہم پھر سے اپنی دنیا میں مگن ہو جائیں گے۔ اگر ایک بار صرف ایک بار خود کو یا کسی اپنے کو اس متاثرہ عورت کی جگہ رکھ کر دیکھیں تو شاید ہم صرف دن ہی نہ منائیں بلکہ عورتوں پر تشدد کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لئے اپنا حقیقی کردار بھی نبھائیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں