The news is by your side.

کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

پاکستان کےعام شہری انصاف کی فراہمی میں پاکستان کے عدالتی نظام کی اجتماعی کارکردگی پرنہ میرے اظہار خیال کی ضرورت ہے نہ اہمیت لیکن لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے۔شاید مجھے اخبار پڑھنے کی عادت ترک کردینی چاہیے۔یہ وقت یو ٹیوب پر دھیلا پیسہ خرچ کیےبغیر پر لطف فلمیں دیکھ کر اورسرور آفریں موسیقی میں گم رہ کر کہیں بہتر طور پر گزارا جا سکتا ہے۔۔ صرف آج کی تین خبروں نے مجھ پر آگہی کا عذاب ہی تودیا۔

پہلی خبر ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری سمیعہ شاہد کے حالیہ قتل کی تھی جس نے اپنے برطانوی شوہر سے طلاق لے کر پاکستان میں دوسری شادی کرلی تھی۔ سابق شوہر کی مجروح انا یہ برداشت نہ کرسکی، پاکستان آکے اس نے اپنی سابق بیوی کو قتل کیا۔اسے خودکشی کا رنگ نہ دیا جاسکا اورانکشاف یہ ہوا کہ اس کار خیر میں اس کی والدہ ماجدہ اور ہمشیرہ بھی شریک رہیں۔آج کی خبر یہ تھی کہ خیر سے وہ اس کار خیر کی تکمیل کے بعد ولایت لوٹ گئے،اب عدالت ان کو مفرور ملزم ہی قرار دے سکتی تھی سو اس نے دیا۔بے چارگی یہ ہے کہ اب انہیں انٹر پول کی مدد کے بغیر پاکستان کی کسی عدالت انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاسکتا۔۔ یہ ایک طویل پیچیدہ عمل ہے‘ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔

بلحاظ سنگینی و شقاوت قلب دوسری خبر پشاور کے علاقے کی ہے جہاں نامعلوم افرادنے رات کے وقت تیں لاشوں کو جلا کے کوئلہ کیا،دیکھنے والوں نے گمان کیا کہ شاید کسی نے کوڑے کو ٓاگ لگائی ہوگی کیونکہ (شاید) ہوا مخالف ہونے کی وجہ سے گوشت جلنے کی بو کسی نے محسوس نہیں کی،صبح نماز کے لیے جانے والوں نے       سوختہ لاشوں کو دیکھا تو پولیس کو آگاہ کیا لیکن لاشیں اس حد تک جل گئی تھیں کہ عورت مرد کی شناخت بھی ممکن نہ رہی تھی۔یہ صرف پیروں کی انگلیوں پر باقی رہ جانے والے نیل پالش سے پتا چلا کہ تینوں عورتیں تھیں۔ وجہ قتل آپ خود قیاس کریں‘ پولیس کو کہیں سے بھی تین عورتوں کےاغوا یا لاپتا ہونے کی کوئی رپورٹ نہیں ملی خیال ہے کہ قتل کہیں اور ہوا۔ان کو سپرد اتش دور لے جاکے کیا گیا۔کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ۔انسان کی سفاکی اور شقاوت قلبی کی کوئی حد ہے؟ سوچتے رہیے۔

تیسری خبر کا چرچا ٓج میڈیا پر بھی ہوا جو انصاف پروری کی حیا سوز مثال ہے۔کسی نے اپنے غیرت مند سپوت اور بھتیجے کی مدد سے اپنی بیٹی اور اس کی پسند کے شوہر کو قتل کیا اور آج مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہوکے کہا کہ میں نے سزا و جزا کا فیصلہ اللہ پر چھوڑتے ہوے قاتلوں کو معاف کیا جن میں وہ خود بھی شامل تھا۔عدالتی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا کہ مجرم نے خود کو معاف کیا اورعدالت نے تینوں کو صاف بری کرتے ہوئے رہا کردیا۔۔ میں نے وکلا کو سنا جو بتا رہے تھے کہ۔۔

۱۔مجرم کا خود کو معاف کرنا خلاف قانون ہے۔

۲۔ غیرت کے نام پر قتل کا قانون نافذ ہوجانے کے بعد ورثا کے معاف کرنے سے سزاے موت نہیں ہوتی لیکن عدالت مجرم کوعمر قید کی سزا دینے کی پابند ہے۔

یہ تینوں مثالیں غیرت کے نام پر عورت کے قتل کی ہیں جس کےخلاف ان گنت انسانی حقوق اور صنفی امتیاز کی تنظیمیں نام نہاد جہاد میں مصروف ہیں۔۔کیا ہوگا اور کب ہوگا اگر کچھ حاصل ہوگا؟ کیا برطانیہ امریکہ اور جرمنی سے موازنہ کرنے والے احمقوں کی خیالی جنت میں رہتے ہیں ْ؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ ہم ان سے تعلیم اورتہذیب میں کتنے سو سال پیچھے ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔۔وہ سب جانتے ہیں لیکن انہیں اپنا کاروبار بھی تو چلانا ہے۔ میں کسی این جی او یا انسانی حقوق کے ایکٹوسٹ کا نام کیا لوں؟۔

چوتھی خبر آج کی نہیں چند دن پہلے کی ہے۔ قتل کے جرم میں سزا یافتہ ایک قیدی کی اپیل کی سپریم کورٹ میں سماعت چھ سال بعد ہوئی اور عدالت عالیہ نے انصاف کا بول بالا کرتے ہوئےاس کی رہائی کا حکم جاری کیا۔اس وقت ملزم کی زنداں میں وفات کو دو سال بیت چکے تھے

یاد آئی مرے عیسےٰ کو دوا میرے بعد

لیکن میری بات کا یہ مطلب نہ نکالا جاےؑ کہ میں آج کے سیاسی نظام کی ابتری پر تبصرہ کر رہا ہوں۔۔ میں نے ہر دور میں انصاف کا معیاریہی دیکھا ہے۔۔ نصف صدی سے پہلے کی ایک مثال اخبارات کے ریکارڈ پر ہوگی۔۔گجرات کی ایک مشہور سیاسی شخصیت نے دن دھاڑے سب کے سامنے گجرات میں نہر کے کنارے سایکل پر جاتے ایک شخص کو گولی کا نشانہ بنایا اور نامور ترین وکیل اعجاز بٹالوی کی وکالت نے اسے باعزت بری کرالیا۔ نام لینے کی ہمت مجھ میں نہیں۔ دوسرا واقعہ پنڈی میں زمیندار پنجاب ٹرانسپورٹ سروس کے بس اڈے پر پیش ایا جہاں ایک عورت کو اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ ویٹنگ روم میں رات رہنا پڑا تھا۔ صبح اس کی برہنہ لاش زندہ بچے کے ساتھ سڑک پر ملی تھی۔اس کی آبرو ریزی اور قتل کا مجرم کوئی ثابت نہیں ہوا۔

بقول مرحومہ میڈم نور جہاں ’کہاں تک سنوگے کہاں تک سناؤں‘۔ہر جرم کی پرورش نظام کہنہ کی کہانی ہے۔

شہیدِ ملت ہمارے پہلے وزیر اعظم کے قتل کی کہانی اس سے بھی پرانی ہے۔۔ خیر سے ہم چار وزیر اعظم،تین گورنر۔ تین چیف منسٹراور ایک صدر قتل ہوتے دیکھ چکے ہیں جن کے قاتل نامزد ہی نہیں ہوئے۔ تو پھر ہم خاک نشیں کس شمار قطار میں ۔ہمیں خوش رہنا ہے نوشتہ تقدیر پر کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہےاور انتظار کرنا ہے ۔ شکوہ نہیں کہ ہے کہاں روزِ مکافات اے خدا!۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں