The news is by your side.

تھپڑ کا شور‘قصوروار کون

نظر سے ایک ویڈیو گزری جس کے نیچے جلی حروف میں لکھا تھا کہ (نازیبا حرکتیں کرنے پر خاتون رپورٹر نے کیا کہا کہ بے غیرت سندھ پولیس کے اہلکار نے رپورٹر کو زوردار تھپڑ دے مارا)۔ پڑھتے ہی رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ لیکن دماغ نے کہا ایزی ایزی ! یہ سوشل میڈیا کی ہیڈ لائن ہے۔ لنک پر تو کلک کرو۔ ویڈیو دیکھنے کے بعد تو میٹر ہی گھوم گیا۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر ہم سب مل جل کر چاہتے کیا ہیں؟ ؟۔

مذکورہ بالاخاتون رپورٹر اصل میں ایک نجی چینل کی اینکر صائمہ کنول تھیں جو کراچی میں نادرا کے دفتر کے باہر قطار میں کھڑی خواتین کو شناختی کارڈ بنوانے کے دوران پیش آنے والی مشکلات پر اپنی ٹیم کے ساتھ رپورٹنگ کرنے پہنچی تھیں اور غالباً اپنا پروگرام ریکارڈ کروا رہی تھیں۔

ویڈیو کے مطابق وہاں ڈیوٹی پر مامور سکیورٹی گارڈ نے مذکورہ اینکر اور اس کی ٹیم کو کوریج سے روکنے اور دفتر کی حدود سے باہر نکالنے کی کوشش کی تو خاتون اینکر (جو یا تو غصے میں اخلاقیات میں رہتے ہوئے غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کے اصول بھول گئی تھیں یا شاید براڈکاسٹنگ کے چیدہ چیدہ اصولوں سے واقف ہی نہ تھیں) آپے سے باہر ہو گئیں۔ابھی وہ گارڈ کی شدید جھاڑ جھنکار کر ہی رہی تھیں کہ گارڈ کی اصلی کمبختی آ گئی اور اس نے اپنے آپ کو بے حد جاہل ثابت کرتے ہوئے خاتون (وہ بھی اینکر)کی عزت کا لحاظ کئے بغیر جھٹ سے ایک زوردار تھپڑ جڑ دیا اور پھر شور شرابے میں ویڈیو تمام ہو گئی۔

نادرا کے گارڈز کا نجی چینل کی خاتون اینکر اور ٹیم پر تشدد

اب میری ناقص عقل یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایک خاتون نیوز اینکر کو رپورٹنگ کے دوران خونخوار ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ کیا وہاں اپنا پروگرام ریکارڈ کروانے سے پہلے انہوں نے نادرا کے کسی افسر سے اجازت طلب کی،   افسر کو چھوڑیں وہ جو خادم باہر نکالنے پر تلا ہوا تھاکیا اس کو بتا کر کیمرا آن کیا تھا۔ ایسی کیا ایمرجنسی کی صورتِ حال تھی وہاں۔۔ جو اتنا واویلا کرنا پڑا؟؟۔

گارڈ کو یقیناً یہی آرڈر دیا گیا ہو گا کہ بھئی یہ تمہارا کام ہے انہیں باہر نکالو۔ یہ آرڈر تو کوئی نہیں دے سکتا کہ خاتون جانے سے انکار کریں تو طمانچہ رسید کر دو۔۔ ہاں خاتون اینکر بار بار یہ بات ضرور کہہ رہی تھیں کہ اس شخص کا چہرہ دکھاؤ کیمرے میں،  اور یہ پوچھنے پر بضد تھیں کہ کیا تمہارے گھر میں ماں بہنیں نہیں ہیں۔ افسوس! اس بے موقع سوال کا انتہائی بھیانک جواب ملا۔

سلام ہے اس چینل کے ذمہ دار اعلیٰ عہدیداران پر جنہوں نے اپنی خاتون اینکر کی اس بے عزتی کی ویڈیو کو لیک بھی کر دیا۔ یہ ویڈیو دکھا کر کس بات کا فیصلہ کروانا تھا؟ گارڈ نے تھپڑ مار کر خاتون اینکر کی بے حرمتی کی؟ اس کے لئے ویڈیو جاری کرنے کی ضرورت نہ تھی، موقع پر عینی شاہدین موجود تھے ۔ پھر یہ کہ خاتون اینکر کو براڈکاسٹنگ اور صحافت کی بنیادی تعلیم اور ٹریننگ دینے میں وہ ناکام رہے؟ یا پھر یہ کہ اینکر ہونے کا معیار بدتمیزی میں کمال گردانا جاتا ہے؟ مطلب؟ کیا ثابت کر دیا؟ یہ کہ ایسی ویڈیو ریلیز کر کے چار دن اپنا چینل دوسرے چینلز اور سوشل میڈیا پر خوب چلے گا؟ دنیا جان جائے گی؟۔

اس سب کے لئے کیا اس خاتون اینکر کا مزید مذاق بنانا ضروری تھا، جو ایک کامیاب کوشش پہلے سے ہی کر کے اپنا مذاق بنواچکی تھیں۔ بہتر یہ تھا کہ اس سکیورٹی گارڈ کے خلاف سخت کارروائی کروائی جاتی (جس کے لئے یہ ویڈیو چلانا ضروری نہیں تھا) اور خاتون اینکر کو اخلاقیات اور صحافت دونوں کی الگ الگ تربیت دی جاتی ناکہ اس کا ڈرامہ لگایا جاتا۔

امید کرتی ہوں کہ اس واقعے سے ہمارے کچھ شعبدہ باز اینکرز نصیحت پکڑیں گے۔ ویسے ایک امکان یہ بھی ہے کہ کچھ ضرورت سے زیادہ ہوشیار خواتین و حضرات براڈ کاسٹرز اس طرح کی لائیو ہٹ کر کے خود کو سپر ہٹ کرنے کی کوشش بھی کر یں۔ یہی کہہ سکتی ہوں یاللہ شکر ہے ہمیں عقل دی ہے اب ہمیں اس عقل کو استعمال کرنے کا حوصلہ بھی دے دیں پلیز!۔

اس تحریر کو کوئی دل پر نہ لے، یہ میری رائے ہے جو کسی ایک شخص یا فرد پر لاگو نہیں ہوتی۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں