The news is by your side.

نا ہم بدلیں گے، نا حالات بدلیں گے

کل مسلسل چھ سات گھنٹے ٹی وی کی سکرین پر بدلتے منظر دیکھ کر یہ احساس ہوا کہ ہم کتنی جلدی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ بھلا دیتے ہیں۔ پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ کچھ نیا مل جاتا ہے۔ کہیں اور بھاگ نکلتے ہیں۔ کسی اور چیز کے پیچھے سرپٹ دوڑتے ہیں۔ رکتے نہیں ہیں۔ پھر کچھ اور مل جاتا ہے۔ پھر نئی سمت میں چل پڑتے ہیں۔ کچھ اور کرتے ہیں۔ سوچتے بہت کم ہیں۔ بس کرتے چلے جاتے ہیں۔ یونہی چلتا رہتا ہے۔ بدلتا کچھ بھی نہیں۔ واقعی بدلتا کچھ بھی نہیں۔ یہ چکر ایسے ہی چلتا رہتا ہے۔ ہم چلے جاتے ہیں۔ ہماری جگہ لینے کوئی اور آ جاتا ہے۔

پانامہ لیکس کا واویلا ہوا۔ احتجاج احتجاج کا شور مچا۔ عمران خان نے کہا اب تو رائیونڈ مارچ ہو کر ہی رہے گا۔ حکمرانوں کو حساب دینا ہو گا۔ ہنگامہ برپا ہونا ابھی باقی تھا کہ بھارت نے دو نمبر قسم کی سرجیکل سٹرائیکس کا راگ الاپ دیا۔ پھر کیا تھا سب اسی دھن پر ناچنے لگے۔ پھر ہوا۔ رائیونڈ مارچ بھی ہوا۔ کرپشن کو جڑ سے مٹانے کی باتیں بھی ہوئیں اور پھر جج صاحب نے اگلی تاریخ دے دی۔ دو نومبر۔ اس بار پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے الفاظ میں ردوبدل کیا۔یعنی دھرنے اور لانگ مارچ کا نام بدل کر لاک ڈاؤن رکھ دیا۔ اسلام آباد کا لاک ڈاؤن۔

وزیرِ اعظم پاکستان یعنی بڑے میاں صاحب کو بظاہر ان دھرنوں سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا، نہ ہی ان کی حکومت ٹس سے مس ہو رہی تھی۔ لیکن پھر آئی سرل المیڈا کی خبر اور پھر امپائر کی انگلی پر سوال اٹھے۔ خبر کی تردید ہوئی، خبر اور صحافی دونوں ہی خوب ڈسکس ہوئے۔ چند دن یہی ڈرامہ چلتا رہا۔ پھر اس سیاسی منظر نامے میں ایک چائے والے کی اچانک انٹری نے ماحول بدل دیا۔ گویا سرل المیڈا کی جان چھوٹی، اور چائے والا قابو آ گیا۔

دو نومبر اب بھی ہتھوڑے کی طرح دماغ پر ضربیں لگا رہا تھا کہ میڈیا کے منہ پر ایک ایف سی اہلکار نےتھپڑرسید کر دیا۔ چائے والے کو راستے میں ہی کہیں چھوڑ کر سب رپورٹر کے پیچھے دوڑے اور تھپڑ کی بابت جاننے کی کوشش میں تجزیے پیش کرنے لگے کہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری نے اسلام آباد لاک ڈاؤن میں عمران خان کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ کون خاتون رپورٹر، کیسا ایف سی اہلکار۔۔ سب بھول کر سب پھر سے دو نومبر کی تیاریوں میں لگ گئے۔ عمران قادری جوڑی پھر سے ایک ہو گئی ہے۔ اب حکومت جاوے ای جاوے۔۔ ڈھن ڈھن ڈھن ڈھنا ڈھن ڈھن ڈھنا ڈھن۔

اور پھر دھماکوں کی گونج اور گولیوں کی بوچھاڑ نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ کوئٹہ ایک بار پھر نشانے پر تھا۔۔ قیامت کی رات آئی اور گزر بھی گئی۔ اکسٹھ شہید۔۔ سو سے زائد زخمی۔۔ صبح ہوئی۔ ایک لفظ مزمت کا۔۔ اور پھر ایک دوسرے پر الزامات کی فائرنگ چالو ہو گئی۔ حکومت فوری معصوم سی شکل بنا کر بیٹھ گئی اور عمران خان نے سازش کی بو سونگھ کر نواز شریف کی طرف انگلی اٹھا دی۔ پشاور دھماکا ہو گیا۔ اب سمجھ نہیں آ رہی تھی پشاور کو دیکھیں یا کوئٹہ کو روئیں۔

اگلے دن عمران خان نے شہباز شریف پر کرپشن کے الزامات لگا دیئے اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا نیا نام تجویز کر دیا۔۔ ڈبل شاہ۔۔ جواب میں چھوٹے میاں صاحب نے جذباتی انداز میں ہرجانے کا دعوی دائر کرنے کا اعلان کر دیا اور اپوزیشن لیڈر نے خاموشی میں عافیت جانی۔

کسی گمنام رکنِِ اسمبلی نے پاکستانی ٹیم کے پش اپس پر سوال کیا کھڑا کیا، سب کوئٹہ اور پشاور کو بھول کر پش اپس لگانے لگے۔ ادھر شیخ رشید صاحب کو لال حویلی خالی کرنے کے حکم کی صدا بلند کر دی تو مصباح الحق کے پش اپس بند اورشیخ رشید کے شروع ہو گئے۔
سوال بلند ہوا کہ یہ عمران خان جب جب دھرنا کرنے جاتے ہیں تو حالات خراب ہی کیوں ہوتے ہیں؟

جناب چھ گھنٹے مسلسل ٹی وی پر حالاتِ حاضرہ کی بدلتی ہوئی صورتِ حال دیکھیں۔ آپ کو بھی اندازہ ہو جائے گا۔ دھرنا ہو نہ ہو، لاک ڈاؤن ہو نہ ہو، دھماکے ہوں یا امن رہے، پر سکون ماحول ہو یا ہنگامہ۔۔ حالات نہیں بدلنے والے۔ کیونکہ ہم نے اس چکر میں ایسے ہی چلتے رہنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ نہ ہم بدلیں گے نہ حالات بدلیں گے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں