میری پیدائش پر آپ لوگ بہت خوش تھے، ابھی سوچ رہے تھے کہ میرا عقیقہ کر کے نام رکھیں مگر ایسا نہ ہوسکا۔ ابھی آپ کی اور بابا کی آواز صرف چار روز ہی سنی تھی۔ اماں آپ کی تو صحت بھی ٹھیک نہیں تھی مگر آپ نے میری صحت میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔
یہ دنیا میں میرا چوتھا روز تھا کہ گھر میں دھواں بھر گیا، شروع میں تو مجھے سانس لینے میں دقت بہت ہوئی ۔ آپ اور بابا یہ سمجھ رہے تھے کہ میں سورہی ہوں اس لیے دونوں مطمئن ہوگئے مگر جب بہت دیر گزری تو آپ پریشان ہوگئے۔ بابا مجھے گود میں لے کر اسپتال کے لیے دوڑے آپ طبیعت ناسازی کی وجہ سے ہمارے ساتھ نہیں جاسکیں، مگر جاتے وقت آپ نے مجھے تیار کیا اور ماتھے پر جوبوسہ دیا وہ آخری تھا شاید اس بات کا علم آپ کو بھی نہ ہو۔
بابا مجھے لے کر اسپتال پہنچنے کے لیے راستہ ڈھونڈتے رہے مگر کہیں راستہ نہ ملا، مجھے تو علم نہیں تھا کنٹینر کیا ہوتے ہیں، مگر بابا چیخ رہے تھے کہ خدا کے واسطے کنٹینر ہٹا دو میری بچی کی طبیعت خراب ہے۔ اس دوران مجھے شدید تکلیف ہوئی جو فرشتوں سے برداشت نہ ہوسکی۔
فرشتوں نے بابا کی گود میں ایک مخملی کپٹرا ڈالا جس سے میری تکلیف ختم ہوگئی ، جس کے بعد میں صرف سُن سکتی تھی۔ بابا اسپتال پہنچے تو ڈاکٹر وں نے ان سے کہا کہ آپ نے بہت دیر کردی ‘ یہ بات سن کر وہ چیخ کر رونے لگے۔ انہوں نے آپ کو اطلاع دی تو آپ کی حالت بھی غیر ہوگئی۔ بابا میرے منہ پر کپڑا ڈال کر اسپتال سے باہر نکلے تو ہر کسی سے شکوہ کررہے تھے کہ کنٹینرز نے میری بچی کی جان لے لی۔ گھرآئے آپ لوگوں نے مجھے تیار کیا اُس کے بعد فرشتے مجھے اپنے ہمراہ لے گئے۔
میرے یہاں پہنچنے پر میرے جیسے بہت بچے ملے جن کا تعلق شام، افغانستان سمیت دیگر ممالک سے تھا۔ اماں آپ کو پتہ ہے مجھے تو زیادہ نقصان نہیں ہوا مگر وہ بچے شدید زخمی ہوکر یہاں تک پہنچے، اسی طرح ملک کے دیگر حصوں کے میں نشانہ بننے والے بچوں سے بھی ملاقات ہوئی، ہم سب یہاں بہت خوش ہیں اور پرسکون ہیں۔
یہاں پر ایک بسمہ نامی بچی سے میری دوستی ہوگئی جس کا تعلق کراچی ہے سے وہ سول اسپتال جاتے وقت بلاول بھٹو کے وی آئی پی پروٹوکول کا نشانہ بن گئی تھی۔ گزشتہ سال دسمبر میں جنت میں پہنچ چکی ہے، ہم دونوں میں پانچ دن میں گہری دوستی ہوگئی۔
کل ہم باتیں کررہے تھے تو شام، یمن کے ہم عمر بچے بھی ہمارے پاس آئے اور ہم سب ایک دوسرے سے یہی پوچھ رہے تھے کہ آخر ہمارا قصور کیا ہے۔ خلیجی ممالک سے تعلق رکھنے والے بچوں کا ایک ہی بیان تھا کہ ہم اقتدار کی خاطر لڑی جانے والی جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے ۔میرا اور بسمہ کا بھی یہی جواب تھا جسے سُن کر وہ بھی حیران رہ گئے۔
یہاں میرے آنے کے بعد ایک فوجی انکل اور دو نوجوان بھی آئے جو دھرنے کی وجہ سے دنیا کو الوداع کہہ گئے، گزشتہ روزہم سب بیٹھے ہوئے تھے کہ دھرنا ختم ہونے کی اطلاع ملی تو ہم سب کے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ ’’نہ ہم اپوزیشن میں، نہ پاناما کی حمایت یا مخالفت میں، نہ احتساب کے شور میں اور نہ ہی حکومت یا پھر اُس کا حصہ‘‘۔
شہید میجر انکل نے دعا کروائی کہ اب مجھے سمیت اور دو لوگوں کے اہل خانہ کو انصاف ملے کیونکہ حکومت اور دھرنے کے سربراہ کو اُن کے مقاصد پوری طرح حاصل ہوگئے اور ایک نے تو یوم تشکر بھی منانے کا اعلان کیا جس میں باقاعدہ جشن منایا جائے گا جبکہ حکومت نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو اپنی فتح قرار دیا۔
ہمارا گھر والوں سے رابطہ ہونا ناممکن ہے ورنہ ہم نے یہ طے کیا کہ انہیں بھی ٹی او آرز ، چور، کرپٹ ، شہد، آخری سورج، نادر موقع اور چندے کا اعلان کر کے اسلام آباد آکر اپنے ٹی او آرز تسلیم کروانے کی جدوجہد کے طریقے بتائیں گے کہ شاید کسی مقتدر شخص کی نظر پڑے اور وہ اس تحریر کو پڑھنے کی کوشش کرلے جو پوری قوم کی پیشانی پر مقدر بن کر ثبت ہوچکی ہے ‘ وہی تحریر جو میری موت کا سبب بن گئی۔ کاش کہ جیسے میری موت ہوئی یہ میرے ملک میں آخری موت ہواور پھر کوئی بیٹی کسی مجبور باپ کے ہاتھوں میں دم نہ توڑے ورنہ مجھے لگے گا کہ ایک بار پھر میرا دم گھٹ گیا۔