The news is by your side.

لاکھوں کی رشوت خود چل کر آئی لیکن ۔ ۔ ۔ خدا دیکھ رہا تھا

صد شکر کے خدا نے ہم صحافیوں کو جج نہیں بنایا ۔ اگر انصاف کا ترازو ہمارے قبیلے کے ہاتھ لگ جاتا تو ویسا ہی انصاف ہوتا جو ایک بندر نے بلیوں کے درمیان کیا تھا ۔ صحافت کے امام کب کے رخصت ہو چکے ۔ سر سید احمد خان ، مولانا ظفر علی خان ،حسرت موہانی ، چودھری رحمت علی اور شورش کاشمیری ایسے جس صحافت کی بنیاد رکھ گئے تھے اسے ہلانے میں ہمارے بعض تجزیہ نگاروں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ خبر اور تجزیہ کو پرکھنے کا معیار چھوڑیں اب تو ذاتی خواہشات کو خبر اور تجزیہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ عامل صحافیوں کی جگہ شوبز سے منسلک ایسے چہرے سامنے آ چکے ہیں جن کا صحافتی تجربہ تو کچھ نہیں لیکن بہر حال شکل اور آواز اچھی ہے ۔

ایک وقت تھا کہ اداروں کے مالکان باقاعدہ اشتہار لگاتے تھے کہ ان کے ادارے کے لئے سگریٹ اور دیگر مضر صحت اشیا کا اشتہارقبول نہیں کیا جاتا ۔اب حالات یہ ہیں کہ ریٹنگ کے لئے معیار قربان کر دیا جاتا ہے ۔

یاد آتا ہے کہ  سکرپٹ رائیٹنگ کے آغاز میں مجھے ایک سینئر پروڈیوسر نے کہا کہ ڈرامے میں ماں مرنی چاہیے ۔خاکسار نے سوال کیا کہ ماں ہی کیوں ؟ سکرپٹ کے مطابق تو یہاں باپ کی موت دکھائی جائے گی ۔ جواب واضح تھاکہ ’ باپ کے مرنے پر ریٹنگ نہیں ملتی‘۔ ماں کی موت کا منظر ناظرین کے جذبات پر اثر کرتا ہے اور ہمیں ریٹنگ ملتی ہے ۔ لہذا ماں اور بہن مارو ، باپ کو اگر سکرپٹ سے نکالا جا سکتا ہے تو نکال باہر کرو ۔ یہ اضافی کردار ہے ۔ ہمارے اکثر ڈرامے آج بھی اسی فامولے کے تحت لکھے جا رہے ہیں ۔ سکرپٹ رائیٹر اور پروڈیوسر ماں بہن مارتے جا رہے ہیں ۔ اگر یہ نہ ہو تو طلاق ضرور کروا دیتے ہیں ۔ عشق ممنوع پر بھی ریٹنگ مل جاتی ہے ۔کسی ایک لڑکے کی خاطر بہنوں کی چپقلش اورساس بہو کی سازشوں کو بھی ریٹنگ کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔

یہ وہی خرافات ہیں جن کے خلاف ہم لکھتے اور بولتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں ایسا نہیں ہوتا ، یہ ہمارے معاشرے کی عکاسی نہیں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ڈرامہ کو ریٹنگ کے بل پر اشتہار ملتے ہیں اور ریٹنگ حقیقی زندگی کے برعکس ایسے ہی مناظر دکھا کر حاصل کی جارہی ہے ۔

یہی ریٹنگ گیم ڈراموں سے ہمارے نیوز چینلز کی طرف منتقل ہو چکی ہے ۔ ہمارے نیوز اور پروگرام پروڈیوسرز دونوں کو ہی بخوبی معلوم ہے کہ کس کے خلاف بولنے سے ریٹنگ ملے گی ۔ خبر کی کس اینگلنگ پر ریٹنگ مل سکتی ہے ۔ نیوز پیکج کس طرح کا ہو تو ریٹنگ اوپر جائے گی ۔اس میں مالکان کی پسند نا پسند کو بھی اہمیت حاصل ہے ۔ اینکرز اور تجزیہ نگاروں کو بھی بخوبی علم ہے کہ کس چینل پر کس سیاسی جماعت کے حق اور کس کے خلاف بولنے سے ریٹنگ اور جگہ ملے گی ۔ سچ کہوں تو اس ریٹنگ گیم کی زد میں آ کر ہم حقیقت سے دور ہو چکے ہیں ۔ہمارے ڈرامے اگر غیر حقیقی زندگی دکھاتے ہیں تو کئی میڈیا ہاؤسسز بھی ریٹنگ کے چکر میں ہمیں مکمل سچ نہیں بتاتے ۔ ہمیں خوداحتسابی کی ضرورت ہے ۔

یہ احساس اس لئے بھی بڑھ گیا ہے کہ ہماری یہ ریٹنگ پالیسی ہمارے اچھے لوگوں کے لئے زہر قاتل بن رہی ہے ۔ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ پولیس کے خلاف لکھنے سے ریٹنگ ملتی ہے لیکن یہ سوال کوئی نہیں اٹھاتا کہ جو پولیس اہلکار ایماندار ہیں ان کو ’’رگڑا‘‘ لگانے سے جو گناہ ملتا ہے اس کی ذمہ داری کون قبول کرے گا ۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ عرصہ قبل ایک لیڈی پولیس اہلکار کوبنک کے پاس سے ایک بیگ ملا تھا جس میں لاکھوں روپے تھے ۔ اس نے یہ بیگ اس کی اصل مالکن تک پہنچادیا ۔ ایمانداری اور فرض شناسی کے اس واقعہ کی محض ایک چھوٹی سی خبر شائع ہوئی تھی ۔

اب ایک خبر آئی ہے کہ کچھ دن قبل 18 نومبر کی رات بھی ایسی ہی ایک داستان رقم ہوئی ۔ اس رات ایس ایچ او صدر قصور، محمد یونس دیگر پولیس اہلکاروں کے ہمراہ فیروز پور روڈ ناکے پر کھڑا تھا۔ اس نے ایک مشکوک کارکو رکنے کا اشارہ کیا جس میں تین افراد سوار تھے۔ پولیس اہلکاروں نے گاڑی کی تلاشی لی تو اس میں پچاس لاکھ روپے سے زائد رقم اوراسلحہ برآمد ہوا۔خو ش قسمتی سے پنجاب پولیس میں آئی ٹی سے متعلق اہم ٹیکنالوجی کا استعمال فروغ پا چکا ہے اور کئی سافٹ ویئرز بھی متعارف کرائے جا چکے ہیں ۔آئی ٹی اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا فائدہ یہاں ہوا اور شناختی کارڈ نمبر سے ملزم کی شناخت ہو گئی ۔ ناکے پر موجود افراد کو معلوم ہوگیاکہ کار سوار رائیونڈ کے دوہرے قتل کے مقدمہ میں اشتہاری ہے ۔

اصل کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے ۔ جب ملزم کو معلوم ہوا کہ اس کی شناخت ہو چکی ہے تو اس نے ان پولیس اہلکاروں کو 20لاکھ روپے رشوت کی پیشکش کی۔ سرد رات کے اس اندھیرے اللہ کے سوا انہیں کوئی نہ دیکھ رہا تھا ۔ چند ہزار تنخواہ پانے والے تین افراد کو ایک لمحے میں 20 لاکھ مل رہے تھے ۔ ان کے پاس یہ سہولت بھی موجود تھی کہ وہ تھوڑی بحث کے بعد ملزم کو گرفتار نہ کرنے کے عوض 50 لاکھ ہی رکھ لیتے۔ یک مشت اتنی رقم تو شاید انہیں ریٹائرمنٹ پر بھی نہیں ملنی لیکن ان پولیس اہلکاروں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا ۔ انہوں نے نہ صرف ملزم کو گرفتارکیا بلکہ تھانہ سٹی رائیونڈ کے ایس ایچ او نذیر احمد کو بلا کر ملزم، گاڑی اور برآمد شدہ پچاس لاکھ روپے کی رقم اس کے حوالے کر دی ۔

یہ خبر بھی ہمارے میڈیا پر جگہ نہ لے سکی ۔ سوشل میڈیا بھی اس حوالے سے خاموش رہا ۔ اب آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا نے فرض شناسی اور ایمانداری کا مظاہرہ کرنے پر ایس ایچ او صدر قصور سب انسپکٹر محمد یونس کو 3لاکھ روپے نقد اور تعریفی سرٹفیکیٹ جبکہ اے ایس آئی محمد شریف اور محمد عمران کو پچاس ، پچاس ہزار روپے نقد انعام اور تعریفی سرٹفیکیٹ دئیے تو میڈیا کو اس داستان کا علم ہو سکا ۔ میڈیا کے لئے شاید یہ چھوٹی سی خبر ہو لیکن میرے لئے یہ بہت بڑی بریکنگ نیوز ہے ۔آئی جی پنجاب نے ان ایماندار سب انسپکٹر اور اے ایس آئی کی حواصلہ افزائی کی ہے لیکن معاشرے میں ان کو جو عزت ملنی چاہئے وہ ہم تاحال نہیں دے رہے ۔ یہ لوگ میرے ہیرو ہیں ۔ سوال آپ سے ہے کیا آپ انہیں بھی ریٹنگ کا ٹھپہ لگا کر کرپٹ قرار دیں گے یا پھر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اعلان کریں گے کہ یہی لوگ ہمارے اصل ہیرو ہیں جنہیں رات کے اندھیرے میں بھی خیال تھا کہ خدا دیکھ رہا ہے ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں