پہلے امی جی اور پھر استانیاں سبھی یہی کہتی تھیں کہ بیٹا پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب۔۔ اب سوچتی ہوں پتا نہیں کہاں کا نواب بنانا تھا۔ یہاں تو جو اچھا کھیلتا ہے وہ نواب ہے۔ اب چاہے اسے پڑھنا لکھنا آئے یا نہ آئے۔ پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنانا اماں ابا کا ترجیحی بنیادوں والا مشن ہوتا ہے۔ آج کل پرائیوٹ سکولوں نے بچوں کی تعلیم کو اچھا خاصا کاروبار بنا دیا ہے ۔ ابھی پہلی جماعت میں بچہ پہنچتا نہیں ہے۔ اس سے پہلے ہی ماں باپ کو ششکے لے بیٹھتے ہیں۔ آج ہیلووین منانی ہے، کل مدرڈے منانا ہو گا، پرسوں کلر ڈے منائیں گے آخرِ کار بچوں کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی بندر بنائیں گے اور ڈگڈگی پکڑ کر انھیں خوب نچائیں گے۔
کہیں امریکی سسٹم ہے، کہیں برطانوی انداز اپنایاجا رہا ہے، واہ کتنا اچھا اور مہذب کمائی کا دھندہ بن گیا ہے۔ پتا نہیں کیوں آج کل کے والدین ان نجی سکولوں کی غیر ضروری اور ناقابلِ فہم فرمائشوں پر اندھا دھند اپنی کمائی لٹائی جا رہے ہیں؟ سمجھ سے باہر تھی یہ بات کچھ دیر پہلے تک۔۔ پھر یوں ہوا کہ جلال پور بھٹیاں کے گورنمنٹ پرائمری سکول کی فوٹیج موصول ہوئی۔ دیکھ کر حیرت سے دیدے پھٹے کے پھٹے رہ گئے کہ پنجاب حکومت نے جانوروں کے لئے بھی مفت تعلیم کا انتظام کر دیا ہے۔ سات سال سے قائم گورنمنٹ پرائمری سکول جلال پور بھٹیاں میں گائے اور بھینسیں داخل ہیں۔
بظاہر سکول میں داخلے کی وجہ وہاں پانچویں جماعت تک کی تعلیم حاصل کرنا ہی نظر آتی ہے، چوکیداری تو گیٹ کے باہر ہوتی ہے، اور یہ جانور تو سکول کے کلاس رومز کے باہر بندھے ہیں، ویسے تو جب سے سکول بنا ہے یہاں استاد کی سیٹ خالی ہی ہے۔ شاید سکولوں میں مویشیوں کی تعلیم کا کلچر عام کرنے کے بعد حکومت کسی بھینس کو استاد، گائے کو ڈاکٹر اور گھوڑے کو انجینئر بنانے میں کامیاب ہو ہی جائے۔ اسی طرح سکول میں استاد کی سیٹ بھی فل ہو جائے گی۔ شاید یہ وزیرِ اعلی ٰپنجاب کی دوراندیشی کا ہی نتیجہ ہے۔ پھر سے عالی مقام نے اتنی دور کی سوچی ہے کہ مجھ کمزور نظر کو چشمہ ناک پر ٹکا کر بھی دور دور تک کچھ نظر نہیں آ رہا۔
بندہ پوچھے باہرگورنمنٹ پرائمری سکول کی تختی لٹکی ہے، اندر سینکڑوں بچوں کے مستقبل کو تختہ دار پر لٹکا رکھا ہے۔ جہاں پانچ جماعتیں پڑھنا گناہ بنا دیا ہو وہاں عذاب نہیں نازل ہو گاتو کیا ہو گا۔ پرائمری سکول میں استاد تعینات کرنا اور بچوں کو تعلیم دینا کونسی راکٹ سائنس ہے۔ ہاں یہ واقعی انوکھاکارنامہ ہے کہ سکول میں مویشی منڈی بھی کھڑی کردی، فصلیں بھی کاشت کر لیں اور علاقے کا کوڑا دان بھی بچوں کی اسی درسگاہ میں بنا دیا گیا۔ ایک سکول کا اتنا موثر استعمال کوئی دانشورہی کر سکتا ہے۔
وزیرِ اعلی پنجاب کا نعرہ، پڑھو پنجاب، بڑھو پنجاب۔۔ ارے کونسا پنجاب۔۔ سڑکیں بنیں گی لاہور میں، اورنج لائن ٹرین لاہور میں، میٹرو لاہور میں، یونیورسٹیاں، کالج، بڑے ہسپتال لاہور میں۔۔ جب سب کچھ لاہور میں ہی کرنا ہے تو آپ وزیرِ اعلی ٰبھی لاہور کے ہی بن جائیے۔ خواہ مخواہ پورے پنجاب کو پیچھے لگایا ہوا ہے۔ یا پھر میاں صاحب جہاں پورا لاہور کھود کر اتنا بڑا اورنج لائن ٹرین منصوبہ بنانے جا رہے ہیں وہاں اپنی ہی سرکار میں شامل جلال پور بھٹیاں کے اس پرائمری سکول کا مختصرسا دورہ کیجیے تاکہ آپ کو پتا چلے کہ آپ کی سرکار میں بچوں کے لئے پانچ جماعتیں پڑھ جانا بھی آسان نہیں۔ شکریہ شہباز شریف کہ تبدیلی آ رہی ہے۔ لاہور سمیت پنجاب کے ہر شہر میں سرکاری سکولوں کا حال بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے بعد پرائیوٹ سکول کا مافیا بن جانا اور اندھی کمائی کرنا بالکل سمجھ میں آتا ہے۔ سرکاری سکولوں میں بھینسوں کے ساتھ چارا کھانے کے لئے چھوڑنے کے علاوہ آج کل کے اماں ابا کے پاس ایک ہی چارا ہے کہ اپنی جائیدادیں بیچیں، پانی کی طرح محنت سے کمائے پیسے بہائیں اور بچوں کو نجی سکولوں میں تعلیم دلوائیں۔
رابعہ نور‘ پاکستان کے ثقافتی دارالحکومت لاہور سےتعلق رکھتی ہیں اور اے آروائی نیوز کے لیے بحیثیت براڈ کاسٹ جرنلسٹ اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔