The news is by your side.

فیس بک ‘ دانشوروں کی آماجگاہ

پرائیویسی کے تمام دستیاب وسائل کے باوجود شاید کوئی بھی یہ نہیں کرتا کہ اس دیوانِ عام کوخلوت خانۂ خاص بنانے کے لیے ہم ذوق اور ہم خیال احباب تک محدود کر لے۔ناپسندیدہ ہی نہیں ناقابل برداشت افراد بھی ہم سب کے لیے مسلسل کوفت اور ذہنی اذیت کا سب بنے  رہتے ہیں۔میں خود بھی اکثر احباب ۔۔۔اب انہیں ایسا تو کہنا ہی پڑے گا‘ کی گہر افشانی پر جز بز بلکہ چراغ پا ہوتا ہوں ۔ میرے جیسے شاید سب ہی ہیں کہ بعض اوقات لا حاصل اور تضیع اوقات سمجھنے کے باوجود لا یعنی بحث میں الجھ کر مزید فرسٹریٹ ہوتے ہیں اوردل کی بھڑاس نکالنے کے لیے فریاد و فغاں بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ فیس بک پرکیسے کیسے ابو جہل قابض ہیں ۔علما ءکو دنیا میں تو فضلاء کو فیس بک پر قربِ قیامت کی ساری نشانیاں نظر آتی ہیں کہ غضب خدا کا اردو کے شعرکے ساتھ سرکس کے شیرسے بدتر سلوک ہورہا ہے۔۔شیر فروش بھی شعر فروش ہو گئے ہیں۔۔ اور اس میں مبالغہ ذرہ برابر نہیں کہ احمد کی پگڑی محمود کے سر۔۔ ٹرک شاعری کے نمونے شاعر مشرق سے منسوب کردینا یا اپنی بے سرو پا بکواس کو غالب کے سر تھوپ دینا ڈینگی فیور سے زیادہ عام مرض ہے۔۔اور تکلیف دہ بھی ۔

لیکن! آئے ہے بے بسیٔ عشق پہ رونا غالب۔ شکوہ شکایت فریاد و فغاں اور احتجاج کے باوجود مجھ سمیت ہم سب ایک بہت آسان۔ ہر سکون اورمحفوظ راستہ اختیار نہیں کرتے کہ اپنے پسندیدہ ہم خیال اور ہم ذوق سو پچاس یا دو چار سو احباب کو چھوڑ کرباقی سب کو بلاک کر دیں جن سے ہم اپنی جان ناتواں کو ضیق میں محسوس کرتے ہیں۔آخر کیوں؟بندہ تو صرف سر کھجا سکتا ہے۔ جواب کوئی سوجھتا نہیں۔ ایک فلسفیانہ خیال یہ ہے کہ غنچہ و گل کی طرح خس و خاشاک بھی ہیں باعث رونق چمن۔عرش کی یہ بلندیاں فرش کی پستیوں سے ہیں،دانش وری کے لیبل کی قدر تو انہی کے دم سے ہے جو خود کو دانشور نہیں سمجھتے۔

اب یہ بات الگ ہے کہ فیس بک پر قدم رنجہ فرمانے والے کو دانشوری کا دورہ تو یوں پڑتا ہے جیسے محفل میں ڈاکٹردریافت ہو تو سب کو یاد آجاتا ہے کہ انہیں کتنے امراض لاحق ہیں۔فیس بک کی بزم ہی ایسی ہے کہ چپ تو کسی سے بیٹھا نہیں جاتا۔۔ سیاست اور دین کا معاملہ تو ایسا ہے کہ بس اکھاڑے میں اترنے کی دیر ہے اورلنگر لنگوٹ کسے حریف مقابلے پر موجود۔ اب پہلوان کے پاس داو ٔ  تو یہاں دلیل‘  چت کون ہوتا ہے‘  ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا‘ بات پہنچی تری جوانی تک۔ اس محفل میں بھی زبانی جوتم پیزار ہوتے ہم نے دیکھی ہے۔ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی۔۔دونو کی نظر اپنی اپنی۔۔ وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے۔۔مجنون نظرآتی ہے ‘  لیلےٰ نظر آتا ہے۔۔ خواہ وہ ہو تیسری جنس  سے تعلق رکھنے والا۔

کچھ ایسا ہی معاملہ ادب اور شاعری کا بھی ہوتا ہے۔آداب شب وصل اس کے لئےجو شرعی نکاح مسنونہ کرے‘  زیادتی  کرنے والے کواخلاق ومروت سے کیا سروکار۔ تو ردیف‘ بحر اور عروض سے واسطہ سخن فہم و سخن شناس کو۔جو غالب کا طرفدار بلکہ غالب کی ہمسری کا دعویدار ہو اس کوان ’فضولیات‘ سے کیا نسبت۔الفاظ کے معانی پر غور وہ کرے جس کو لفظ کی حرمت کا پاس ہوجس کو معانی سے بھی غرض نہ ہو اس سے کیا گلہ کرنا جناب بس خون  جلائیے ۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں