The news is by your side.

لبرل جمہوریت کے شاخسانے

لبرل ڈیموکریسی اٹھارہ اور انیس ویں صدی عیسوی کویورپ میں جاگیردارانہ نظام کے خلاف ابھر کے سامنے آئی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے یورپ وامریکہ کو ترقی کے عروج تک پہنچایا لبرل ڈیموکریسی آزاد مارکیٹ اورسرمایہ دارانہ نظام کو تحفظ دینے کا ایک ذریعہ ہے گوکہ آزاد مارکیٹ کا تصور جاگیرداری نظام معیشت اور ملوکیت جیسے سیاست کے خلاف علم بغاوت تھی۔ البتہ انیس ویں صدی کے عظیم ماہر عمرانیات کارل مارکس اور اینگلز نے لبرل ڈیموکریسی یعنی سرمایہ دارانہ معیشت کے اندرونی تضادات کو آشکار کرچکے ہیں اور بنی نوع انسان کو اس نظام سے لاحق خطرات سے روشناس کراتے ہوئے عوامی اشتراکی نظام کے قیام کی نوید سنائی تھی۔

ترقی یافتہ سرمایہ دار معاشروں نے اس ممکنہ اشتراکی انقلاب کی روک تھام کے لئے لائحہ عمل اختیار کیا۔ مارکس اور اینگلز کی دلیل یہ تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ایک وقت ایسا آئے گا جب طلب کے مقابلے میں رسد بہت بڑھ جائے گی لوگوں کی قوت خرید اس نظام کے زیر سایہ ختم ہوجائے گی اور اسی لمحے مقدس سرمایہ دارانہ نظام کا شیش محل بھی اشیائے پیداوار کی فراوانی اور قوت خرید نہ ہونے کے سبب دھڑام سے زمین بوس ہوسکتا ہے جس کی جگہ اشتراکی (سوشلسٹ) نظام لے گا۔

سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی یہ پیشن گوئی مکمل نہ ہوسکی تو روسی عالم اور انقلابی راہنما لینن نے دلیل پیش کی کہ چونکہ سرمایہ دارریاستوں نے اپنے نظام کی تحفظ کے لئے پسماندہ معاشروں پر قبضہ کرکے انہیں اپنی کالونیوں میں تبدیل کردیا اور ان معاشروں کو بحیثیت مارکیٹ اپنے پیداوار کی فروخت اور سستے داموں خام مال کے حصول کے لئے استعمال کیا وہاں کی خام مال نکال کر اپنے ملکوں میں لے جاتے ہیں اور فیکٹریوں سے تیار شدہ مال ان کالونیوں میں لاکر فروخت کیا جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کے مزیداستحکام کا باعث بنا۔جب دوسری عالمی جنگ کے بعد کالونائزیشن کا پرانا تصور ختم ہوگیا یعنی سرمایہ دارانہ سامراج نے فیصلہ کیا کہ براہ راست کسی ریاست پر قبضہ جماکر ان کی دولت لوٹنا اب ممکن نہیں رہا تو اس کی جگہ نیو کالونائزیشن نے لے لی جس کے مطابق سامراج اپنی مفادات کی تحفظ کے لئے سفارت کاری اور پس پردہ رہ کر اپنے من پسند حکمرانوں کو مختلف ریاستوں پر مسلط کرتے ہوئے اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں یوں عالمی سامراج نے نیوکالونائزیشن کی مدد سے اپنے مفادات کے تحفظ کا بندوبست کیا۔

ان سارے فلسفیانہ مباحثوں کے بعد جب اگست 1947ء کے بٹوارے پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ سامراجی قوتوں کے عزائم کے عین مطابق دونوں ملکوں یعنی پاکستان اور بھارت کو اپنے وجود میں آنے کے ساتھ ہی سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ نظاموں میں جکڑا گیا اس سلسلے میں خصوصی منصوبہ بندی کے تحت شمالی ہندوستان میں سویت یونین کے خلاف ایک بفر ذون یعنی پاکستان کی تشکیل عمل میں آئی جس کی حفاظت کے لئے دو اور مزید بفر ذون ملک کے اندر ہی قائم کئے گئے سویت یونین اور چین کے ممکنہ توسیع پسندی کو روکنے کے لئے شمالی علاقہ جات تخلیق کیا گیا جبکہ افغانستان اور کسی حد تک سویت یونین کے خلاف پختونوں کے جذبہ ایمانی کو ابھارنے کے ساتھ ساتھ فاٹا اورپاٹا کومزید مستحکم بنایاگیا۔

پاکستان کو سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ساتھ جاگیرداری ، قبائلی سرداری اور ملائیت کی ایک کچھڑی میں بدل دیا گیا ۔ یوں ہمارا معاشرہ گزشتہ 69برسوں سے ان چاروں استحصالی نظاموں میں جکڑے ہوئے ہیں جس نے یہاں رہنے والے انسانوں سے ان کی انسانیت چھین لی ہے ۔ یہاں کی برسوں پرانی تہذیبی روایات، ثقافت وادب ، برداشت، رواداری ، اخو ت اور بھائی چارگی رائج نظام کی بدولت ناپید ہوچکی ہے جبکہ اس کی جگہ غربت ، افلاس ،جہالت ، تاریکی اور آگ وخون کی دلدل نے لی ہے آج حالت یہ ہے کہ ملک کی آباد ی کا بڑاحصہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبورہے جنہیں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ چند روز ہوئے حروف کے گورکھ دھندوں کے ماہر قلاباز وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک غیری ملکی وفد سے ملاقات کے دوران انہیں یہ خوشخبری سنادی کہ موجودہ حکومت کی کامیاب معاشی حکمت عملیوں کی بدولت ملک میں غربت کی شرح ساٹھ فیصد سے کم ہوکر 28فیصد تک آچکی ہے اورانشاء اللہ اس میں مزید کمی آئے گی۔

محترم وزیر خزانہ کو ہندوسوں سے کھیلنے کا ہنر تو خوب آتا ہے جس طرح مشرف دور میں شوکت عزیر نامی جن نے ملک کی معاشی استحکام کے بلندوبانگ دعووں سے قوم کو بے وقوف بنارہے تھے اسی طرح اسحاق ڈار بھی شوکت عزیر کے نقش وقدم پر رواں ہے ۔اس دوران محترم وزیر خزانہ کو وفاقی وزارت منصوبہ بندی وترقی کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیاجانے والا وہ رپورٹ بھی نظر نہیں آیا جس میں بتایاگیا تھا کہ ملک کے تیس فیصد عوام خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔یعنی تقریبا ساڑھے پانچ کروڑ سے زائد افراد کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں،دوسری جانب پائیدار ترقی کا چرچا ہے کہ تھمنے کانام نہیں لے رہاہے۔میڑوبس سروس، فلائی اوور اورانڈر پاس بنا کے جس ترقی کا جھانسہ دیا جارہاہے اس کا نتیجہ ساڑھے پانچ کروڑ پاکستانیوں کی بھوک وافلاس اور جہالت وتنگ دستی کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں ۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری کو لے کر ترقی کے جو بلندوبانگ دعوے ہورہے ہیں اس کا بھی وہی نتیجہ نکلے گاکیونکہ موجودہ کرپٹ نظام میں جو بھی ترقیاتی منصوبے شروع ہوں گے چند افراد بالخصوص حکمران طبقوں کی دولت میں اضافہ ہوتاجائے گا ۔ جبکہ غریب مزید غربت کی چکی میں پستہ رہے گا۔

ملک کا سب سے بڑا مسئلہ موجودہ معاشی نظام ہے جو اپنے اندر کرپشن، لوٹ کھسوٹ اور بے راہ روی پر مبنی اندھی مادیت کوجنم دیا ہے ۔اسی معاشی نظام کے طفیل یہاں کا ہر شخص دوسرے کی جیب کاٹ کر خوشی محسوس کرتا ہے۔ یہی معاشی نظام انسان کو انسانیت کی منزل سے گرا کر ایک ایسے درندے کی روپ میں دھار دیا ہے جو اپنے ہم جنسوں کولوٹ کر ہی خوشی محسوس کررہے ہیں ۔یہ عمل انتہائی نچلے طبقے سے شروع ہوکر حکمرانوں تک جاتا ہے ہماری مثال کوئی انڈہ چور ‘ کوئی مرغا چور‘ سب چور ہی چور کی سی ہوگئی ہے۔ اس عالمی طورپر مسلط سرمایہ داری کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر کے چند افراد خفیہ کمپنیاں بنا کے دولت بیرون ممالک میں جمع کررہے ہیں یہ دولت ان سرمایہ دار طبقوں کے اپنے معاشروں کے غریب افراد کا خون چوس کر باہر منتقل شدہ ہے۔ ایک مشہور قول ہے کہ فساد کی جڑ انسان کی ذہنی کمزوری نہیں بلکہ خود غرضانہ سماجی نظام ہے جس نے انسان سے اس کی انسانیت چھین کر اس کی شخصیت کو بربادکردیا ہے۔ یہ توڑ پھوڑاس وقت شروع ہوئی جب معاشرہ طبقات میں تقسیم ہوا۔اسی معاشی نظام ہی کی بدولت دولت چند ہاتھوں میں مرکوز ہوکر رہ گئی ہے جبکہ معاشرے کا بڑا طبقہ محرومیت کا شکار ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کی کل دولت کا 98فیصد دو فیصد سرمایہ داروں کے قبضے میں ہیں ،جبکہ صرف دو فیصد دولت پر 98فیصد محروموں کا گزارہ ہورہاہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام ہی کے شاخسانے آئے روز کی جنگ وجدل، دہشت گردی ، معاشروں کی ٹوٹ پھوٹ اور ہتھیاروں کی اندھی دوڑ کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔

دیکھاجائے تو اس مقدس سرمایہ دارانہ نظام نے صرف بیسویں صدی میں دنیا کو دوعالمی جنگوں سے دوچار کرکے کروڑوں انسانوں کو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں موت کے آغوش میں دھکیل دیا ہے ۔ اسی معاشی نظام نے ویت نام میں لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ،مشرقی وسطیٰ ،افغانستان ، پاکستان وغیرہ میں جاری دہشت گرد ی اور انتہاپسند تنظیموں کی تخلیق سرمایہ دار ممالک کی جنگی جنوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہتھیاروں کی فروخت کے لئے کھیلا جانے والا جوا ہے۔ اگر بنی نوع انسان کو مزید تباہی وبربادی سے بچا کر اس کی کھوئی ہوئی انسانیت دوبارہ بحال کرنا ہے تو پھرلبرل جمہوریت یعنی سرمایہ دارانہ نظام کی ظلم وبربریت سے دنیا کو بچانا ہوگا وگرنہ مزید تباہی وبربادی بنی نوع انسان کامقدر ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں