The news is by your side.

اے پی ایس سے پی ایس ایل تک

دو سال قبل دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا جس کے بعد اُس وقت کے آرمی چیف جناب راحیل شریف صاحب نے سفاک قاتلوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا اور اپنی مدتِ ملازمت تک اُس میں 90 فیصد کامیابیاں سمیٹنے میں نظر آئے۔

ضرب عضب کے فوائد جہاں قبائلی علاقوں کو ملے وہی اس آپریشن کے بعد کراچی کے حالات میں بہتری دیکھنے میں آئی، آئے روز ہونے والے قتل کی خبریں بالکل غائب ہوگئیں اور شہر میں کوئل کوککنے لگی اور حساس اداروں نے کراچی آپریشن میں سو فیصد کامیابی کے  دعوے بھی کیے۔
کراچی میں امن و امان کی بحالی کا سہرا وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کے لوگ مسلم لیگ کے کھاتے میں لکھنے کی کوشش میں رہے تو کبھی پی پی نے بھی کراچی آپریشن میں کامیابی کی وجہ صوبائی حکومت اور رینجرز کے تعلقات کو قرار دیا کیونکہ خصوصی اختیارات کا اندرونِ سندھ سے کوئی عمل دخل نہیں تھا۔

اب کراچی میں بالکل امن ہوچکا جبکہ ملک میں حالیہ دہشت گردی کی لہر کے بعد عسکری قیادت نے پنجاب آپریشن کا آغاز کیا، اس بار آپریشن کو رادالفساد کا نام دیا جس کا مقصد فساد کا جڑ سے خاتمہ ہے۔

پنجاب آپریشن سے پہلے اور بعد وفاقی حکومت اور وزراء پنجاب میں امن و امان کے دعوے کرتے نظر آتے ہیں جبکہ پنجاب میں ہی اسٹیک رکھنے والی جماعتوں کا مؤقف ہے کہ پنجاب میں تاحال مذہبی فرقہ وارانہ تنظیمیوں، داعش، جماعت الاحرار  کے مضبوط ٹھکانے ہیں۔ پنجاب آپریشن کی اجازت کے بعد میاں صاحب نے ترکی میں بیٹھ کر اعلان کیا کہ آپریشن رادالفساد کا پلان انہی کے سرکاری گھر میں تیار کیا گیا جبکہ کالعدم جماعتوں کے قربت رکھنے والے وفاقی وزراء حکومت کے اس اقدام پر نالاں بھی نظر آرہے ہیں۔

اسی اثناء پاکستان سپر لیگ کا فائنل طے شدہ اعلان کے مطابق لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کروانے کا اعلان کیا گیا، پی سی بی کے چیئرمین نے ہر صورت فائنل سجانے کا اعلان کیا جبکہ اس ضمن میں پی ایس ایل چیئرمین نجم سیٹھی  بھی کافی متحرک نظر آئے۔

فائنل لاہور میں منعقد کروانے یا نہ کروانے سے متعلق پنجاب ایپکس کمیٹی کے اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کیے گئے مختلف تجاویز اور امن و امان کے صوبے میں سیکیورٹی خدشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بات کا تجویز وزیر اعظم کو ارسال کی گئی جس میں سیکیورٹی پلان بھی شامل تھا۔
وزیراعظم نے فائنل کی منظوری دیتے ہوئے قوم کو خوشخبری سنائی کہ ہر صورت پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہی منعقد کیا جائے گا ساتھ ہی صوبائی حکومت نے قذافی اسٹیڈیم کے قرب و جوار میں موجود دکانداروں سے رابطہ کر کے انہیں 5 روز قبل سیل کرنے کا مشورہ دیا مگر مذاکرات کے بعد تین روز پہلے دکانیں اور راستے بند کرنے کا سمجھوتا طے پایا۔

دوسری جانب ابھی تک کسی انٹرنیشنل پلیئر نے لاہور میں کھیلنے پر رضامندی ظاہر نہیں کی، یہ بھی یاد رکھا جائے کہ سری لنکن ٹیم پر لاہور میں ہی حملہ کیا گیا تھا جس کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے پاکستان پر بند ہوگئے تھے۔

عالمی کھلاڑیوں کے پاکستان سپرلیگ کے فائنل میں نہ کھیلنے سے یہ ایونٹ علامہ اقبال چمپئن شپ یا پھر قائد اعظم ٹرافی کی صورت اختیار کرجائے گا کیونکہ ملکی کھلاڑی آپس میں ایسی لیگ میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوتے ہیں۔ انٹرنیشنل کرکٹ کو ملک میں واپس لانے کے لیے یہ کاوش قابل قدر ہے مگر کرفیو کا سماں اور اسٹیڈیم کو قلعہ بنادینے سے غیر ملکی ٹیموں کو اچھا امیج نہیں جائے گا۔

گزشہ چند ماہ قبل ہی کراچی میں دفاعی نمائش آئیڈیاز کا مکمل امن و امان کے ساتھ انعقاد کامیاب رہا جس میں 400 سے زیادہ غیرملکی وفود نے دورہ کیا اور پاکستانی دفاعی ہتھیار خریدنے کے معاہدے بھی کیے۔غیر ملکی وفود اس دوران مکمل اطمینان کے ساتھ شہر میں گھومتے پھرتے رہے اور اپنے دورے سے مکمل محضوظ بھی ہوتے رہے جبکہ اس نمائش کے مہمان خصوصی سابق آرمی چیف آف اسٹاف راحیل شریف صاحب نے بھی نمائش کے کامیاب انعقاد پر مسرت کا اظہار کیا اور ہربار کی طرح صوبائی اور وفاقی حکومت نے اس کی کامیابی کا سہرا اپنے سر لیا۔

چونکہ اب کراچی کے حالات بہت بہتر ہیں اور یہاں پاکستان کا سب سے بڑا ایونٹ آئیڈیاز کا انعقاد بھی کامیاب رہا تو حکومت اور عسکری قوتوں کو چاہیے تھا کہ وہ پاکستان سپرلیگ کا فائنل لاہور کے بجائے کراچی میں منعقد کرواتیں کیونکہ یہاں امن و امان مکمل قائم ہوچکاہے۔

صرف کراچی کے ایک ضلع میں ہی ایسا نڈر اور بہادر پولیس کا سپاہی ایس ایس پی راؤ انواز موجود ہے جو غیر ملکی کھلاڑیوں کی سیکیورٹی کا کام رینجرز کے ساتھ مل کر خوش اسلوبی سے سرانجام دے سکتا ہے اور سب سے اچھی بات یہ کہ نیشنل اسٹیڈیم سمیت کراچی کے مختلف علاقوں میں رینجرز کی چوکیاں موجود ہیں جہاں مستعد جوان اپنے ذمہ داریاں احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں۔

لاہور اور کراچی کی صورتحال کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو شہر قائد کی سیکیورٹی صورتحال بہت بہتر ہے اور یہاں انٹیلی جنس کا مربوط نظام قائم ہیں اسی باعث مصدقہ اطلاع پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں جبکہ پنجاب میں رینجرز کو خصوصی اختیارات ملے ہوئے ابھی چند ہی دن ہوئے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں