کراچی پریس کلب کے نجیب ٹیرس پر وہ ایک عرصے بعد ملا‘ میں اس کو دیکھتے ہی میں گرم جوشی سے بولا ، ’اور مہاجر کیسا ہے‘۔اس نےماضی کی طرح اپنے بھر پور انداز میں جواب دیا ، ’ہاں پنجابی ٹھیک ہوں‘ لیکن آج اس کی آواز میں وہ خنک تھی نہ دھمک۔
میرا دوست ایک ٹوٹے پر کاپرندہ معلوم ہوا۔ میں زمانے کا شغل آدمی ہوں لیکن سمجھ گیا آج جگت لگانےسے پہلے اس کے غم کا اندازہ لگانا ہو گا۔ لگ رہا تھا کہ آج شاید اس کو جوڑنا پڑے گا۔ میں نے سامنے پڑھے لال ڈبےسے ایک موت کی سلائی سلگائی اور لمبا سانس کھنیچ کر اس کی آنکھوں میں دیکھا تو وہ بولا ’میں نہیں بول پاؤں گا‘ آفس میں کام زیادہ تھا‘ تھکا ہوا ہوں! تو بول بس۔
میں نے اس کا غم ہلکا کرنے کے لئےاس کے مخالفین کو کوئی درجن بھر گالیاں دیں تو بولا ’اورسیکٹر انچارج تجھے پتا ہے کہ ’رضوان اوراس کے دوستوں کی ایسی کی تیسی کردی ہے ۔ ابے یہ اس قابل ہی نہیں ہیں ان کو تمیز سے سنیں‘۔ پانچ منٹ کی گفتگو میں وہ بنا رکے ڈبے کو خالی ہی کرتا گیا میں نے کہا‘ ابے پاگل ہو گیا کیا !تو نے تو کم کردی تھی وہ بے ساختہ زیر لب مسکرایا اور کہا جس کے لئے کم کی تھی وہی انجان ہو گئی۔
چل بے! باؤلا پن نہ کر۔سچ بتا مسئلہ کیا ہے ؟۔
وہ مسکرایا تجھے سے دل لگاہوا ہے لیکن اب اتنا بھی نہیں۔ بس پنجابی! تم لوگ بڑے بے وفا ہوتے ہو۔ میرا بھیانک قہقہ حلق سے کچھ بھیانک انداز میں نکلا کہ ٹیرس میں بیٹھے تقریبا سب افراد نے سر گھما کر دیکھا۔دیکھ بھائی! ہمیں نہیں بنا‘ تو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہرلڑکی کو اپنے پیچھے چلانے کا فن جانتا ہے۔
گہرے دھوئیں میں سے اس کی آنکھیں جھانکیں تو چشمے کے پیچھے اس کی آنکھوں کی نمی اور مسکراہٹ نے مجھے بہت کچھ سمجھا دیا۔
میں نے اس کے قریب ہوتے ہوئے کہا ’انچارچ بتا یار مجھ سے بھی شئیر نہیں کرے گا میں جانتا تھا کہ وہ یہ بات صرف مجھ سے ہی کرسکتا ہے اور اس کی گردن میں سرئیے کا مسئلہ تھا یا فالتو کا وہ خول جو اس نے اوپر چڑھایاتھا۔ میں اکثر اس سے یہی کہتا تھا کہ بیٹے کچھ بھی کرلے جنازہ چار افراد مل کر اٹھائیں گے اور وہ ہمیشہ مجھے چڑانے کے لئے بولتا تھا کہ ’لیکن ان میں کوئی پنجابی نہ ہوگا‘۔
یونیورسٹی میں اپنے غصے، منفرد اسٹائل اور نظریات کے سبب وہ لڑکیوں میں پاپولر تھا ۔لیکن ان سب کے باوجود بھی کبھی میں نے اسے کسی لڑکی کے ساتھ بیٹھا نہیں دیکھا تھا۔
ہوا کیا کچھ نہیں یار! وہ گویا ہوا۔ بس زہریلے کو لینے اس کی یونیورسٹی گیا تھا، وہ گاڑی میں بیٹھ رہا تھا اور وہ جامعہ کے دروازے سے نکل رہی تھی بس وہیں لگا کہ دل میں کچھ کسک سی ہوئی سمجھ نہیں پایا ہوا کیا۔کچھ دن اسی طرح پریشان رہا جب بس میں نہ رہا تو ارمغان سے مدد مانگی اس نے مدد تو دی لیکن کچھ ایسے کہ سالگرہ میں بلا لیا وہاں اس سے ملاقات میں کب انسیت ،عادت اور محبت میں تبدیل ہوئی پتا ہی نہیں چلا۔
ارمغان نے کسی اس کےمبینہ جاننے والے سے بات کی تو پتا چلا برادری سے باہر نہیں دیتے۔گھر والوں کے سامنے کچھ سبکی ہو گئی لیکن کچھ ہی دن ارمغان نے بتایا ایسا نہیں ہے۔ نہ وہ اس کا جاننے والا تھا نہ رشتہ دار بس ہماری فلیڈ میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں۔
پھرمہاجر پنجابیوں کی دیوار میں نقب لگانے میں مصروف ہو گیا ابھی مصروف ہی تھا کہ پتا چلا اس کی کہیں اور بات طے ہوگئی اور دیکھ یار ارمغان بھی بیس کو بتا رہا ہے اور اس کی شادی ٹھیک چار دن بعد ہے۔
یار ارمغان کی بات نے پاؤں تلے زمین ہی نکال دی۔ دودن کھانا نہیں کھا سکا‘ بیمار ہوا تو گھر والوں کا اندازہ ہواکہ بچہ جو پنجابی اورمہاجر کی دیوار گرانے کی بات کررہا ہے وہ گرانے دینی چاہئیے۔ اماں آئیں کہابیٹا یہ لوگ اچھے نہیں ہوتے ہمارے ماحول کے نہیں لیکن پھر بھی بات کریں گے بھابھی نے بھی احسان جتایا کہ ارے یار پریشان نہ ہو میں نے سمجھا دیا ہے امی کہ۔۔۔۔۔۔
پھر تو نے سنائی کھری کھری ۔
نہیں میں نے کہا اب وہ مر گئی میرے لئے۔ایسا کیوں کہا ۔۔بس کیوں کہ مجھے لگا کہ میں اس ریس میں اکیلا ہی تھا۔
ایسا کیسے ہو سکتا ہے تو لوگوں کو اتنا غلط نہیں پرکھ سکتا ۔نہیں یار میں ہمیشہ سے ہی ولن رہا ہوں۔بس اس محبت کہانی میں میراسائیڈ رول تھا۔
پھر بھی ایک افسوس رہے گا اس نے دوست ہونے کے ناطے زرا اعتبار نہیں کیا اور کچھ بھی شئیر نہیں کیا۔
حاصل کرنا یا فتح کرنا کبھی خوائش نہیں تھی جتنا اس کو اپنے پاؤں پر کھڑا اورخوش دیکھنے کی تھی۔بس اس نے وہ بھی چھین لی۔
ابے بد معاشی کر لیتا تجھ سے بہتر کون جانتا ہے یہ کام۔دنیا کی ایسی کی تیسی کر رکھی تھی تو نے ایک ٹائم۔
نہیں یار بدنام ہوجاتی۔
لعنت نامرد آدمی تو اس کو راضی کرتا۔وہ مان جاتی۔نہیں تو بتا تو دیتا۔
نہیں یار وہ دم والی نظر نہیں آتی ہے‘ ایسے میں اس کو مجھ سے ذرا دلچسپی ہوتی تو ممکن تھا کہ اس کو دکھ پہنچنا دیتا۔
پاگل ہے یار تو کہہ کر میں نے اس کو بھینچ کر کہا۔
پاگل نہ بول وہ رندھی آواز میں بولا۔ اس پر کاپی رائٹ ہے اس کا ۔اور ساتھ ہی اپنی وفا کی نشانی دو آنسوؤں سے میرے کندھے کو نم کردیا۔
اگلے پانچ منٹ کی خاموشی میں وہ دھوئیں کے مرغولے اڑاتا اپنے آپ کو نکوٹین کی ٹکور دیتا رہا اور میں سوچتا رہا کہ آج لسانی تفر یق کی تلخ حقیقت نے ایک اور نوجوان کو زندگی سے دور کردیا ہے۔