The news is by your side.

اکہترسالہ جمعیت علمائے اسلام کی سوسالہ تقریبات

جمعیت علمائے اسلام (ف) 7,8,9اپریل 2017ء کو اپنا صد سالہ تقریبا ت منارہا ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی تقریب پشاورمیں منعقد ہوگی ۔ اطلاعات کے مطابق 7اپریل کو امام کعبہ اس تقریب میں شرکت کر کے نماز جمعہ کی امامت بھی کریں گے ۔ پاکستانی سیاست داں اپنے سیاسی مقاصد کے لئے ہر قسم کی جائز وناجائز طریقوں کو بروئے کارلانے سے نہیں ہچکچاتے۔ یہی کچھ مولانا کی سیاست پر بھی صادق آتا ہے ۔امام کعبہ سے نماز جمعہ پڑھانے کا مقصد اجتماع میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جمع کرنا ہے ۔تاکہ دنیا کے سامنے طاقت کا مظاہرہ کیاجاسکے ۔ ذرا تاریخ میں جھانک کر دیکھئے کہ آخر جمعیت علمائے اسلام (ف)کی بنیاد کب رکھی گئی تھی ؟کیا واقعی جمعیت علمائے اسلام (ف)سو سال مکمل کرچکے ہیں یا یہ صرف سیاسی مفادات کے لئے رچایا گیا تماشہ ؟۔

ہندوستانی تاریخ میں مذہبی سیاست کی بنیاد عدم تشدد اورسیکولرازم کے پیامبر گاندھی نے رکھا تھا۔جب پہلی عالمی جن عظیم میں برطانیہ اوراتحادیوں نے ترکی کے حصے بخریے کر کے عثمانی خلافت کو ناکارہ بنادیا تو ہندوستانی مسلمانوں کو اس کا بڑا رنج ہوا اور یہاں سے خلافت تحریک شروع کی جس کی قیادت میں سے اکثریت مولویوں کی تھی ۔ چونکہ اس وقت تک ہندوستانی سیاست میں گاندھی کاکوئی نمایاں کردار نہیں تھا سو جونہی خلافت تحریک شروع ہوئی گاندھی نے اس موقع کوغنیمت جانا اور علماء کے ساتھ مل کر تحریک خلافت میں شامل ہوگئے۔

انیس سو انیس میں گاندھی نے علماء کو اپنے لئے علیحدہ جماعت بنانے کی تجویز دی اور گاندھی ہی کی ایما ء پر جمعیت علمائے ہندکی بنیاد ڈالی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ خلافت تحریک ہی نے گاندھی کی سیاست کو چار چاند لگادیے۔ خود گاندھی کے بقول ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ اس تحریک کے آمر بن گئے ۔ تحریک خلافت کے اکثر راہنما ان سے مشورہ لیتے تھے۔1916ء قائد اعظم محمد علی جناح کی کوششوں سے لکھنو کے مقام پر آل انڈیا نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا تھا۔ جس میں کانگریس نے مسلم لیگ کے بہت سارے مطالبات منظور کئے تایخ میں اسے لکھنو پیکٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی ہی پیکٹ کے بعد کانگریسی قیادت نے قائد اعظم کو ہندومسلم اتحاد کے سفیر کا خطاب دیا ۔

لکھنو پیکٹ کے ذریعے جس ہندو مسلم اتحاد کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ گاندھی کی جارحانہ پالیسیوں اور سیکولر مسلم قیادت کے مقابلے میں مولویوں کو لاکھڑا کرنے کی وجہ سے اس اتحاد کا عملاً خاتمہ ہوگیا۔ اسی ہی وجہ سے قائد اعظم  نے 1920 ء میں کانگریس کو خیر باد کہہ دیا۔28دسمبر 1919ء کو امرتسر میں مولانا عبدالباری فرنگی محل کی صدارت میں علماء کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں جمعیت علمائے ہندکی بنیاد رکھی گئی ۔ جمعیت علمائے ہند تحریک پاکستان اور قائد اعظم کے پروزور مخالف تھی۔ اسی طرح لاہور میں 1941ء میں وجود میں آنے والی جماعت اسلامی بھی تحریک پاکستان اور قائد اعظم کے زبردست مخالف رہی  ہے۔ ان علما ء کے حملوں کو کنڑول کرنے کے لئے مسلم لیگی سیکولر قیادت مولانا شبیر احمد عثمانی کی قیادت میں جمعیت علمائے اسلام نامی ایک اورمذہبی جماعت کی بنیاد ڈالی جو تحریک پاکستان کے حامی تھے۔

اس بات کا ہمیں علم نہیں کہ مولانا فضل الرحمن جمعیت علمائے ہند سے اپنا ناطہ جوڑے ہوئے ہیں یامولانا شبیر احمد عثمانی کے جمعیت علمائے اسلام سے؟ لیکن دونوں صورتو ں میں صد سال تقریبات سمجھ سے بالاتر ہے ۔جمعیت علمائے ہند کو قائم ہوئے 97برس بیت چکے ہیں اور ابھی سو سالہ ہونے میں مزیدتین برس باقی ہے ۔ پھر یہ صد سالہ جشن تقریبات کا مطلب ؟ اگر مولانا فضل الرحمن مولانا شبیر احمد عثمانی کے قائم کردہ جمعیت علمائے اسلام کے ورثے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں تو اس کو توقیام پذیر ہوئے صرف 71برس کاعرصہ بیتا ہے۔1988ء میں جب مولانا فضل الرحمن نے جمعیت علمائے اسلام کی قیادت سنبھالی تو اس پارٹی کا نام جمعیت علمائے اسلام (ف) رکھ دیا گیا۔ اس حساب سے دیکھاجائے تو جے یو آئی (ف )کی عمر صرف 29سال ہے۔پھر بھی جمعیت علمائے اسلام (ف) سوسال کی  کیسے ہوگئی ہے ۔ اس ساری صورتحال میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی صد سالہ تقریبات سمجھ سے بالاتر ہے۔

سن 2002ء کے انتخابات کے لئے متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے ) نام سے سات مذہبی جماعتوں کا انتخابی اتحاد قائم ہو، جسے بعض مبصرین ملا ملٹری الائنس کا نام بھی دیتے ہیں۔ اسی ہی اتحاد کے نتیجے میں صوبہ سرحد(خیبر پختونخواہ) اور بلوچستان کی حکمرانی ایم ایم اے کے حصے میں آئی۔ جبکہ وفاق میں مولانا فضل الرحمن کو قائد حزب اختلاف کی نشست نصیب ہوئی ۔جس وقت مولویوں کو اکھٹا کرکے ایم ایم کی بنیاد ڈالی گئی تو عوام کے جذبات سے کھیلنے کے لئے اس اتحاد نے کتاب کو بحیثیت انتخابی نشان جاری کردیا۔ مولوی حضرات نے انتخابی نشان کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے خوب استعمال کیا انتخابی عمل کے دوران اسے نعوذباللہ قرآن پاک سے تشبہہ دی گئی۔

جونہی 2008ء کے انتخابات کا وقت قریب آیاتو یہی ایم ایم اے تہس نہس ہوگئی ۔ لیکن مولانا فضل الرحمن نے اسی ایم ایم اے کے پرچم تلے انتخاب لڑا۔ سیاسی گھٹ جوڑ اور مفادات کے حصول میں مولانا فضل الرحمن کا کوئی ثانی نہیں۔ اسی لئے تو انتخابات سے ایک سال قبل ہی نئے اندازِسیاست کی داغ بیل ڈالی ہے اور امام کعبہ کو بلا کر عوام کی توجہ حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔بلاشبہ 7سے 9اپریل تک پشاورمیں خوب سیاسی دنگل رچے گا۔ عوام کے جذبات سے کھیلنے کے لئے اس سے بہتر موقع مولانا کے پاس اور کیا ہوتا؟۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں