ہمارے لان میں لگی انگور کی بیلوں پر خوشے بننا شروع ہو گئے ہیں ۔ یہ اسعد نقوی کی پودوں سے محبت کا نتیجہ ہے ۔ ان دنوں ایک جانب گلاب کی بہاریں ہیں ، دوسری جانب انگور کی بیلیں پھیلی ہیں، رات کی رانی کی خوشبو رات بھرآنگن کو خواب ناک بنائے رکھتی ہے ، ہمارا بوڑھا کچھوا لیموں کے پودے کی جڑ میں گیلی مٹی کھود کرلیٹا رہتا ہے ، امرود کا پودا ابھی قدرے چھوٹا ہے ۔ بہرحال اسعد نقوی کی محنت رنگ لا رہی ہے۔ گذشتہ دنوں اسے کسی نے بتایا کہ انگور کےان نوزائیدہ گچھوں پر جالی دار تھیلیاں چڑھا دو ورنہ شہد کی مکھیاں آجائیں گی اورتمہارے انگور ختم ہو جائیں گے ۔ چھٹی کے روز اسعد نقوی جالی تلاش کر رہا تھا۔
ابا جی کو معلوم ہوا تو انہوں نے قدرے سختی سے منع کر دیا ۔ کہنے لگے ، یاد رکھنا! ان انگوروں پر جالی لگائی تو انگورمیں کیڑے پڑ جائیں گے۔ ایک دانہ بھی تم میں سے کسی کو نصیب نہیں ہو گا ۔ تمہیں کیا لگتا ہے خدا نے اپنی مخلوق کے لئے رزق میں سے حصہ رکھا ہو تو تم چھین سکتے ہو ؟ جو تمہارا رازق ہے اس نے پرندوں کو بھی بھوکا نہیں رکھنا ۔ ان پھلوں پر صرف انسانوں کا حق نہیں ہوتا ۔ پھلوں میں برکت اورمٹھاس تب ہی آتی ہے جب ان پودوں سے سبھی حق داروں کو ان کا حصہ مل چکا ہو ورنہ پورے کے پورے باغ کیڑوں کی نذر ہوجاتے ہیں۔ ایسا ہرشعبے میں ہے۔ جو گوالہ بھینس کے تھن پر تھیلی لپیٹ کر کٹے کو دودھ سے محروم رکھتا ہے اس کو دودھ کے کاروبار میں فائدہ نہیں ہوتا۔
جو اللہ کی مخلوق کا رزق روکنے کی کوشش کرتا ہے اس کا رزق تنگ ہو جاتا ہے۔ یاد آتا ہے ، ہمارے گھر میں کبھی تھوڑی بہت تنگی آنے لگے تو ہم چھت پر ڈالے جانے والے باجرے کی مقدار بڑھا دیتے ہیں۔ گھر میں سال بھرکی گندم اکٹھی آتی ہے ۔ ماں جی مہینے بعد کچھ گندم صاف کر کے پسوانے بھجواتی ہیں ۔ اس روز ہمارے صحن میں ڈھیروں چڑیاں ہوتی ہیں ، ہرماہ گندم میں سے ان چڑیوں کا حصہ نکلتا ہے ۔ اسی طرح دھونے کے بعد گیلی گندم خشک ہونے کے لئے صحن میں پھیلائی جاتی ہے ۔ سفید چادروں پر گندم کے ڈھیر پر دو روز تک چڑیاں اپنا حصہ لیجاتی رہتی ہیں۔ ہمیں ان پرندوں کو اڑانے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ دو روز بعد گندم ایک بوری میں بھر کرچکی بھجوائی جاتی ہے ۔ اسی طرح ماں جی نے کچن میں پانی سے بھرا ایک ڈبہ رکھا ہوا ہے ، روٹی بچ جائے تواس کے ٹکڑے اس ڈبے میں ڈال دیئے جاتے ہیں ۔ یہ بچے ہوئے ٹکڑے پرندوں کا حصہ ہوتا ہے لہذا یہ بھی چھت پر موجود برتن میں انڈیلے جاتے ہیں۔
پہلے کبھی غور نہ کیا تھا لیکن چند سال قبل لاہور میں آٹے کا بحران آ گیا ، اتفاق سے ہمارے یہاں بھی گندم ختم ہو چکی تھی ۔ سنا تھا کہ شہر میں آٹے کے لئے لمبی قطاریں لگ رہی ہیں ۔ سرکاری ٹرک لائن لگا کر آٹے کا ایک تھیلا فروخت کرتے ہیں ۔ دو بار ایسا ہوا کہ گھر والوں نے مجھے بھیجا کہ آٹا جہاں سے ملے خرید لانا ۔ دونوں بار ایسا لگا جیسے میرے لئے ہی اسٹاک لایا گیا تھا ۔ دونوں بار لوگ لڑ جھگڑ رہے تھے لیکن میرے پہنچتے ایک نیا اسٹاک کھول دیا گیا ۔ آواز دینے والے نے کہا یہاں آجائیں ۔ میں وہاں کا پہلا کسٹمر تھا اور تھیلا خرید کر پلٹا تو پیچھے لمبی لائن لگ چکی تھی ۔ دونوں بار نہ تو کسی لائن میں لگنا پڑا ، نہ دھکم پیل کا حصہ بنا اور نہ کسی نے بے عزتی کی۔
اس روز یقین ہو گیا کہ ہم خدا کی مخلوق کا حصہ نکالتے رہیں تو خدا ہمیں عزت کے ساتھ ہمارا حصہ دیتا رہتا ہے ۔ میرے ہوش سنبھالنے کے بعد سے اب تک آٹے ، چینی سمیت جتنے بحران آئے ہمارے گھر ان کے اثرات نہیں پہنچے ۔ ہر بار ہمیں جتنی ضرورت ہوتی تھی ،خداکسی مشکل کا شکار کئے بنا ہم تک پہنچا دیتا تھا ۔ ابا جی نے گذشتہ دنوں اسعد نقوی کو انگور پرندوں سے بچانے کی کوششوں سے روکا تو خیال آیا ، یہ جو باغات کے باغات کیڑے کھا جاتے ہیں ان کی وجہ کیا ہے ؟ کون ہے جو حق داروں کا حصہ چھین کر اپنا رزق بڑھا سکتا ہے ؟ مجھے یقین ہے ، ہمارے لان میں پہلی بار لگنے والے یہ انگور بہت میٹھے ہوں گے کیونکہ کل میں نے شہد کی مکھیوں کو ان پر منڈلاتے دیکھا ہے۔