The news is by your side.

عشق میں مارے جانے والے دہشت گرد کی کہانی

سنہ 2012 میں جب پاکستان بھر میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم  شروع ہوئی تو پولیو مہم سے وابستہ محکمۂ صحت کے ملازمین اور رضاکاروں کو ہر شہر میں مختلف دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے باز رہنے کےلئے کہا گیا اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ صوبہ خیبر پختونخواہ اوردیگر علاقوں میں سخت مذہبی رجحان رکھنے والے لوگ ہمیشہ سے پولیو کے قطرے پلانے کی مخالفت کرتے رہے ہیں مگر کراچی میں پچھلے چند سالوں سے اس کی مخالفت میں اضافہ ہوتا نظر آرہا تھا۔  پولیو ورکرز کے مطابق کراچی کی مضافاتی بستیاں بلخصوص پشتون آبادی ولے علاقوں کے لوگ انہیں کہتے تھے کہ کافر انگریزوں کے کہنے پر آکر یہ قطرے پلاتے ہو اور یہ مسلمانوں کے خلاف ایک بہت بڑی سازش ہے۔ یہ وہ دور تھا جب کراچی کے مختلف علاقوں سلطان آباد، اتحاد ٹاؤن، منگھو پیر، پیر آباد اور سہراب گوٹھ میں طالبان عدالتیں تک قائم  ہوچکی تھیں۔

ان عدالتوں میں کیس کی نوعیت سے قاضی مقرر کیا جاتا تھا۔ ان عدالتوں میں خون کے بدلے خون، قتل، اقدام قتل، آپسی جھگڑوں اور لوٹ مار کے مقدمات سنے جارہے تھے۔ طالبان کے زیر اثر علاقوں کے مکین تھانوں کی بجائے طالبان سے رابطے کررہے تھے اور وہیں ان کے فیصلے ایک دو پیشیوں میں نمٹا دیئے جاتے تھے جبکہ پولیس کے پاس جانے والوں کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جانے لگا تھا۔ مذکورہ علاقوں کی پولیس کو بھی ان طالبان عدالتوں کا علم ہوچکا تھا تاہم پولیس افسران اپنے اور تھانوں پر حملوں کے خوف سے مداخلت سے گریزاں رھتے۔  جس کی وجہ سے یہ عدالتیں آزادانہ طور پر کام کررہی تھیں۔


سینکڑوں بے گناہوں کا قاتل لشکرِ جھنگوی کا امیرعثمان کردکیسے پکڑا گیااور اس کے بعد

کیسے فرار ہوا ‘ جرم و سزا کی حیرت انگیز داستاں جسے پڑھ کر آپ شاید تمام عمر نہ بھول پائیں


پولیو کی مہم شروع ہوتے ہی شہر قائد کے مختلف علاقوں میں آدھے گھنٹے کے اندر انسداد پولیو مہم کی ٹیموں پر فائرنگ کرکے تین لیڈی ہیلتھ ورکرز سمیت چار افراد کو قتل کردیا گیا۔ عالمی ادارہ صحت نے ان واقعات کے بعد پولیو مہم فوری طور پر روک دی ۔لانڈھی کے علاقے گلشن بونیر میں موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے دولیڈی ہیلتھ ورکرز فہمیدہ اور مدیحہ کو قتل کردیا۔ دونوں لیڈی ہیلتھ ورکرز علاقے میں انسدادِ پولیومہم میں شریک تھیں ۔ اورنگی ٹاؤن سیکٹر ساڑھے گیارہ میں بھی فائرنگ سے انسداد پولیو مہم میں شامل لیڈی ہیلتھ ورکر نسیمہ خاتون جاں بحق جبکہ ایک ورکر اسرار احمد زخمی ہوا جو بعد میں زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑگیا۔

عالمی ادارہ صحت کے پاکستان میں عہدیداروں نے انسداد پولیو کی ٹیموں پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے  جسمانی معذوری کا سبب بننے والی اس بیماری سے بچاؤ کی مہم میں شامل افراد کی حفاظت کے لیے ضروری اضافی اقدامات کیے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کام بند کردیا۔ ملک کے قبائلی علاقوں جنوبی اور شمالی وزیرستان میں پولیو کی سرکاری مہم پر طالبان شدت پسندوں کا پابندی لگانے کے اعلان کے علاوہ کراچی اورملک کے دیگر بعض شہروں میں انسداد پولیو کی ٹیموں پر حملوں سے اس بیماری کے خلاف چلائی جانے والی سرکاری مہم کو بری طرح متاثر کیا ۔

ان حملوں کے حوالے سے دنیا بھر میں پاکستان کی جو بدنامی ہورہی تھی اس پر حکومت اور ذمہ دار ادارے بہت پریشان تھے۔ معاملے کی نزاکت کے پیشِ نظر سی آئی ڈی کے تمام شعبوں کو خصوصی ہدایات کے تحت اس ہائی پروفائل کیس کا سراغ نکالنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ میں نے بھی اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر اس کیس پر کام شروع کردیا۔ مخبروں کا جال بچھایا گیا اورمختلف پہلوؤں کو سامنے رکھ کر کھوج  نکالنے کی جستجو شروع ہوچکی تھی۔ اس سلسلے میں میں نے جیلوں میں قید متعدد کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں سے پوچھ گوچھ کا سلسلہ شروع کردیا۔ ان میں سے زیادہ ترقیدی ہم سی آئی ڈی والوں نے ہی پکڑے تھے جس کی وجہ سے وہ ہم سے شدید نفرت کرتے تھے اور کسی قسم کے تعاون کا مظاہرہ تقریباً ناممکن تھا۔ قیدیوں میں ہر تنظیم کے لوگ شامل تھے۔ مجھے یا مجھ جیسے دوسرے سی آئی ڈی افسران کو مسلسل ان دہشت گردوں سے نبردآزما ہوتے کئی سال گذر چکے تھے اورجب بھی اس قسم کی کوئی کاروائی ہوتی ہمیں فوراً ہی اندازہ ہوجاتا تھا کہ یہ کس تنظیم کی کاروائی ہوسکتی ہے اور پولیو ورکرز پرحملوں میں بھی مجھے شک تھا کہ یہ طالبان کے محسود گروپ کی کارروائی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ تحریک ِطالبان پاکستان نے پورے ملک میں پولیو ورکرز پرحملوں کی دھمکی دی تھی اور مختلف شہروں میں کاروائیاں بھی کرچکے تھے۔ میں نے کراچی سینٹرل جیل میں بند اپنےچند مخبروں کو اندر کی خبر کھوجنے پر لگادیا۔ ان کا تعلق بھی خطرناک دہشت گرد گروہوں سے تھا اوربم دھماکوں اور دہشت گردی کی دیگر وارداتوں میں ملوث ہونے کی بناء پر پکڑےگئے تھے۔

حساس ادارے اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی مربوط رابطہ تھا لیکن ابھی تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی۔  میرا ایمان ہے کہ ہم پولیس والے اگر چاہیں تو ہمارے پاس ہروقت نیکی کرنے ، لوگوں کی خدمت کرنے اور ان کی دعائیں سمیٹنے کا زبردست موقع رھتا ہے اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں یا اسے گنوادیں۔ میں نے جب بھی سچے دل سے کسی بھی کام کو کرنے کی کوشش کی ہے میرے اللہ نے ہمیشہ مجھے راستہ دکھایا ہے اور میری سوچ سے بھی باہر وہ کامیابی عطا کی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ غریب، معصوم اور بے گناہ پولیو ورکرز خواتین کو جس ظالمانہ طریقے سے نشانہ بنایا گیا تھا وہ بہت ہی دردناک تھا۔ چالیس روپے دیہاڑی پر کام کرنے والی عورتوں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا۔ ان کا کیا قصور تھا۔ میں نے ان کی لاشیں اسپتال میں دیکھی تھیں اور میں اس دکھ اور تکلیف کی کیفیت کو یہاں پر شائد بیان کرنے سے بھی قاصر ہوں جو اس وقت سے مجھے محسوس ہورہا تھا۔  میری اللہ سے یہی دعا تھی جن ظالموں نے یہ بھیمانہ کام کیا ہے انکو انکے عبرتناک انجام تک پہنچا اور میری مدد فرما۔

اوپر والے نے ایک مرتبہ پھر میری مدد کی ۔ مجھے وانا جنوبی وزیرستان سے ایک ایسے شخص کی کال مصول ہوئی جو چند سال قبل کراچی میں اپنے بھائی سمیت مقامی پولس کے ہاتھوں دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہوچکا تھا اور پولیس کی پوری کوشش تھی کسی طرح بھی کراچی میں ہونے والی ایک بہت بڑی دہشت گردی  کےکیس میں ان لوگوں کو فٹ کردیا جائے تاکہ ان کی کچھ کارکردگی بن جائے۔ لیکن جب میں  نے تفتیش کی تو بے گناہ ثابت ہونے پراس وقت کے آئی جی سندھ کو آگاہ کرکے انہیں نجات دلائی ۔ اس بات پر وہ دونوں  بھائی اور ان کی فیملی اپنے آپ کو میرے
احسان مند اور شکرگذار سمجھتے تھے۔

اس نے مجھے ایک ایسی اطلاع دی کہ اب میں اس کا شکرگذار ہوچکا ہوں۔ اس کی اطلاع کے مطابق کراچی میں حکیم اللہ محسود کا ایک خفیہ نیٹ ورک کام کررہا ہے جو اس قسم کی کاروائیوں کی نگرانی کرتاہے۔  مجھے اس نے ایک موبائل فون نمبر دیا اور ساتھ ہی اس پر نظر رکھنے کے لئے زوردیا کیونکہ اسے یقین تھا کہ ہمیں اس نمبر سے ضرور کوئی نہ کوئی کامیابی ضرور ہوگی۔

اب آگے کا دلچسپ احوال سنیں، جب میں یہ نمبر لے کر ایک حساس ادارے کے ایک افسر کے پاس ٹیکنیکل مدد کیلئے گیا اور انہیں اپنے مخبر اور اس کے دیئے ہوئے نمبر کے بابت ساری بات بتائی تو انہوں نے مجھ سے نمبر تو لے لیا اور میرے دیئے ہوئے نمبر پر شکریہ بھی ادا کردیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس کیس پر ہم سی آئی ڈی کے ایک اور ایس ایس پی کے ساتھ کام کررہے ہیں جس کے پاس پہلے سے بہت معلومات ہے اوراگر آپ اس موقع پراسی کیس پر کام کرتے ہیں تو ہمارا کام نہ خراب ہوجائے برائے مہربانی آپ اس کیس سے دور رہیں۔

مجھے بہت غصہ بھی آیا اور افسوس بھی کہ ہمارے پولیس ڈپارٹمنٹ کے پاس اگر اس وقت فون مانیٹرنگ کی سہولت ہوتی تو شائد مجھے کسی کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ میں وہ نمبر لے کر ایک اورحساس ادارے کے پاس یہی انفارمیشن لے کر گیا تو انہوں نے کام کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے میری مدد کی فوراً حامی بھر لی۔ ہم لوگوں نے جب اس نمبر پر کام شروع کیا تو پتہ چلا کہ وہ نمبر استعمال کنندہ شخص تحریکِ طالبان پاکستان سے تعلق رکھتا ہے اور کراچی میں تاجروں اور نیٹو کے ٹھیکیداروں سے بھتے وصولی کا کام کرتا ہے اور کراچی میں اس کے ساتھ کئی اور لوگ بھی شامل ہیں۔

وزیرستان کا رہنے والا یہ طالب حیرت انگیز طور پر کوئی بہت ہی شوقین مزاج اور ٹھرکی واقع ہوا تھا۔ دن بھر مختلف لڑکیوں کے نمبرز پر کال کرکے دوستی کی کوشش کرتا رھتا تھا اور زیادہ تر اسے کوئی مثبت جواب نہیں ملتا تھا۔ لیکن پھر بھی دو تین خواتین سے اس کی بات چیت چلتی رھتی تھی۔

اس کے زیرِ استعمال  حسبِ توقع دس سے زائد فون کی سمیں تھیں۔ دو سمز صرف لڑکیوں سے ٹھرکی پن کے لیے جبکہ باقی سے اپنے ساتھیوں سے رابطے بھتے اور تاوان کی کالیں اور وزیرستان سے بھی رابطے قائم تھے۔

میرے ذہن میں ایک زبردست پلاننگ آئی ۔ میں نے اس کی اس عامیانہ کی طبیعت دیکھتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کرلیا۔ میرے پاس چند لیڈی پولیس اہلکاربھی تعینات تھیں جن کے ذریعے میں اس کو ’ٹریپ‘ کرسکتا تھا۔ لیکن میرے پاس ایک پولیس اہلکار منیر بھی تھا جو کہ

نسوانی آواز نکالنے میں مہارت رکھتا تھا،  اس طرح بات کرتا تھا کہ اس سے فون پر بات کرنے والے کسی بھی شخص کو اس  پر کسی طرح بھی گمان تک نہیں ہوتا تھا کہ وہ لڑکی نہیں ہے۔ اکثر اپنے ہی ڈپارٹمنٹ میں کام کرنے والے اہلکاروں کو فون پر لڑکی بن کر ان کو بے وقوف بناکر ان سے چکنی چپڑی باتوں کے ذریعے ’’ایزی لوڈ‘‘ کرواتا رہتا تھا۔  میری ٹیم کا یہ اہلکار بہت ہی سمجھدار اورزیرک تھا۔ میں نے اسے یہ ٹاسک دیا کہ کسی بھی طرح اس شخص کو ٹریپ کرکے دکھائے ۔ اب یہ اس کی صلاحیتوں کا امتحان تھا جس پر اسے ہرحال میں پوری طرح اترنا تھا۔

مجھے اللہ سے پوری امید تھی کہ اس بار بھی میری مدد کریگا۔ میں سارے کام چھوڑ چھاڑ کر دن رات اس کیس کے پیچھے لگا ہوا تھا۔ دوسری طرف سی آئی ڈی کا دوسرا ایس ایس پی بھی اسی کام پر لگاہواتھا  اوراسے حساس ادارے کے ایک افسر کی بھرپور مدد بھی حاصل تھی جس کا میں پہلے ذکرکرچکاہوں۔ اسی دوران میری ٹیم کا اہلکار منیر لڑکی بن کر فون پر اپنے ٹارگٹ کو پٹانے کی بھرپور کوشش میں لگا رہا۔ ان کے درمیان گپ شپ شروع ہوچکی تھی۔ پلاننگ کے مطابق کام چل رہا تھا لیکن مجھ سے صبر نہیں ہورہاتھا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ دوسرے لوگ بھی اس ٹارگٹ پر لگے ہوئے ہیں۔ آخرکار اب وہ لمحہ آچکا تھا جس کا بے چینی سے انتظار تھا۔ میرا ’شکرا‘ اپنے شکار کو پوری طرح گھیر چکا تھا اور آخرکار اب ان کے درمیان ملاقات کا وقت اور مقام طے ہوچکا تھا۔

میں اور میری ٹیم چڑیا گھر گارڈن  کے قریب مختلف روپ دھارے اپنی پوزیشنیں لے چکے تھے اور اب انتظار تھا اپنے شکار کا‘ فون کی مانیٹرنگ وغیرہ سے بھی مزید کنفرم ہوچکا تھا کہ بس اب تھوڑی دیر میں ہی ہمارا شکار پہنچنے والا ہے۔ میرے ساتھ بیٹھا ہوا میرا شکرا اہلکار منیر اب بھی اس سے فون پر بات کررہا تھا اور مسلسل لاڈ دکھا دکھا کر اسے لبھائے جارہا تھا ۔ مجھے یہ سب دیکھ اور سن کر بڑی کوفت اور کراہیت بھی ہورہی تھی لیکن کیا کرتے کام تو کرنا تھا اور کوئی چارہ جو نہں تھا۔

شکرے اور شکار کے درمیان پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق چڑیا گھر کے گیٹ پر ایک رکشہ آکر رکا ۔ جس سے ایک گورا چٹا مضبوط جسم کا مالک نوجوان اترا۔ اور رکشے والے کو پیسے دیکر فارغ کرنے کے بعد قریب ہی واقع ایک چائے کے ہوٹل کا رخ کیا۔ یہی شخص ہمارا شکار تھا۔ وہ جیسے ہی ہوٹل میں داخل ہوا  اس نے کال کرکے اپنی ہونے والی محبوبہ ( پولیس اھلکار منیر) کو بتایا کہ میں پہنچ گیا ہوں جس پر میرے شکرے نے اسے کہا کہ میں مزید پانچ منٹ بعد پہچ جاؤں گی  اور اسے وہیں انتظار کرنے کا کہا ۔ ہر طرح سے مکمل تسلی کے بعد اب میں نے

اس پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ اپنی ہونے والی محبوبہ سے ملنے کے چکر میں بے حد خوش نظر آرہا تھا۔  اسے کیا پتہ تھا کہ کونسی مصیبت اس کا انتظار کررہی ہے ۔ میری ٹیم کے دو ممبرز اسی ہوٹل میں پہلے سے موجود تھے جبکہ ہم لوگ بھی آس پاس تھے۔ میرا اشارہ پاتے ہی اسے فوراً ہی آناً فاناً دبوچ لیا گیا۔

ہمارا شکار بے بسی سے پھڑ پھڑا کر رہ گیا، وہ بالکل ہکا بکا تھا ، اسے بالکل سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کے ساتھ کیا کاروائی ہوگئی بیچارہ ’مومل سے ملنے کے چکر میں مولابخش مچھڑ کے ہاتھ چڑھ گیا تھا‘۔

اسے اچھی طرح قابو کرکے جب ہم لوگ گاڑیوں میں بیٹھنے لگے تو دیکھا کہ سی آئی ڈی کی ایک اور ٹیم بھی  وہاں پر پہنچ چکی تھی اور یہ ٹیم میرےدوسرے ساتھی سی آئی ڈی ایس ایس پی کی تھی جو کہ خود بھی موقع پرتھے اورحساس ادارے کے افسر موصوف بھی ان کے ساتھ تھے جنہوں نے مجھے اس کیس سے دور رہنے کے لیے کہا تھا۔ وہ لوگ بھی اسی شکار کے پیچھے تھے لیکن کافی تاخیر سے پہنچے تھے اور ہم لوگ پہلے ہی اپنا کام دکھاچکے تھے۔ میں فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ ان کو’بائے بائے‘ کرتا ہوا اپنی ٹیم اور پکڑے ہوئے شکار سمیت ان کے سامنے سے جارہا تھااور ان کے چہرے  پرخفت، بے بسی اور خفگی صاف طور پرنظر آرہی تھی۔

ابھی میں اپنے دفتر کے راستے ہی میں تھا تو مجھے اسی ایس ایس پی کی کال آگئی۔ ’’فیاض بھائی! ہم لوگ لیٹ ہوگئے تھے آپ ہمارا ٹارگٹ پکڑ کرلے گئے‘ یاریہ کام مل کر کرتے ہیں  ہم آپس میں بھائی ہیں‘‘ ۔ میری اور اس آفیسر کی دوستی بھی بہت تھی اور بے تکلفی بھی، لیکن کام کے معاملے میں کوئی لحاظ نہیں تھا لہذا میں نے اسے صاف منع کردیا۔ اگلی کال حساس ادارے سے تعلق رکھنے والے اسی آفیسر کی تھی ” فیاض صاحب ناراضگی چھوڑو یارمہربانی کرو مل کر کام کرتے ہیں ہم اوپر تک بتا چکے ہیں کہ ہمارا کام تیار ہے اور بیچ میں آپ شکار لے اڑے ”۔ لیکن میں نے ان کو بھی اسی طرح جواب دیدیا جس طرح انہوں نے مجھے منع کیا تھا۔

جب اپنے آفس پہنچے تو اس بار مجھے میرے ایڈیشنل آئی جی سی آئی ڈی شبیر شیخ صاحب کی کال آئی۔ بہت شاندار اور دلیر پولیس افسر تھے۔ انہوں نے مجھ سے ساری کارروائی پوچھی اورشاباش دی۔ اس کے بعد  بتایا کہ دوسرے ایس ایس پی صاحب کے فون پہ فون آرہے ہیں کہ ان کا شکار آپ لوگ لے اڑے ہو ، ان کی درخواست ہے کہ یہ آپریشن مشترکہ طور کیا جائے جبکہ حساس ادارے کے افسر صاحب بھی ان سے بار بار درخواست کررہے تھے کہ ان کی وجہ سے ہمارا کام خراب ہوگیا ہے لہذا ان سے کہیں کہ مشترکہ آپریشن کرتے ہیں ۔  جس پر میں نے شیخ صاحب کو اس آپریشن سے متعلق شروع سے لے کر ساری بات بتائی، جواب میں ان کا کہنا تھاکہ اگرتم ان کے ساتھ مل کر کام نہیں کرنا چاہتے تو کوئی بات نہیں اپنا کام مکمل کرو‘ شاباش!  ایڈیشنل آئی جی صاحب نے ان لوگوں کو صاف منع کردیا۔

اب ہمیں اپنے شکار پر تفتیش شروع کرنی تھی اور کام کوآگے بھی بڑھانا تھا کیونکہ ابھی تک ہمارے سامنے کوئی ٹھوس بات نہیں تھی۔ وقت کی بھی کمی تھی کیوں کہ اگرتاخیر ہوجاتی تو باقی ’’سیٹ اپ‘‘  کے لوگ باخبر ہو کر اپنے ٹھکانے چھوڑ کر بھاگ جاتے۔ لہذا اپنے فون وغیرہ بند کرکے تفتیش شروع کردی۔ ابھی کام شروع بھی نہیں کیا تھا  کہ میرا ساتھی ایس ایس پی میرے دفتر آپہنچا۔ اس کے ساتھ حساس ادارے کے افسر موصوف بھی تھے۔ ان دونوں کے ساتھ میری ذاتی دوستی اور بہت اچھے تعلقات  تھے۔ ایس ایس پی میرے اچھے برے وقتوں کا ساتھی بھی تھا اور متعدد مواقع پر ہم ایک دوسرے کے کام بھی آتے رہتے تھے لیکن اس کے مجھ پر کچھ احسانات بھی تھے جس کی بناء پرمیرے لئے اب ممکن نہیں رہا تھا کہ وہ میرے دفتر تک چل کر آیا ہے اور میں اسے کسی بات کا منع کردوں ۔ لہذا طے ہوا کہ اس کام کو مل کر کرتے ہیں ۔ ہم نے جب اپنی اپنی انفارمیشن شئیر کی تو مجھے اندازہ ہوچلا تھا کہ ان کے پلے کچھ بھی نہیں تھا سوائے فون مانیٹرنگ کے، بہرحال ہم نے مل کر کام شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

شکار سے تفتیش کے دوران بہت زبردست انکشافات سامنےہونا شروع ہوئے۔ اب یہ بتانے کی کوئی خاص ضرورت نہیں کہ سچ اگلوانے کے لیے ہم نے اپنے شکار پر کوئی سختی وغیرہ کی یا نہیں ، ظاہر ہے کوئی بھی شخص جس کا تعلق اتنی خطرناک دھشتگرد تنظیم سے ہو وہ اپنے جرائم کا اعتراف اتنی آسانی سے توکرنے والا نہیں ہوگا۔

بات کو آگے بڑھاتے ہیں اور جو کچھ اس نے بتایا وہ کچھ اس طرح تھا۔



’میرا نام قیوم محسود ہے‘ عمر پچیس سال اور تعلق جنوبی وزیرستان سےہے۔   اپنے گاؤں کے مدرسےسے  ابتدائی تعلیم حاصلی کی اور اپنے علاقے میں طالبان کے اثر ورسوخ سے متاثر ہوکرانہی جیسا بننے کی ٹھان لی۔ میرے چند رشتے دار تحریک طالبان  کے مرکزی امیر بیت اللہ  محسود کے محافظ دستے میں شامل تھے ۔ انہوں نے مجھے تحریک طالبان میں کام کرنے کیلئے کہا اور عسکری تربیت کیلئے ولی الرحمان محسود کو کہہ کر استاد سمیع اللہ پنجابی کی تربیت گاہ بھیج دیا۔ جہاں پر مشین گن، کلاشنکوف اور دیگر ہتھیار چلانے کی تربیت کے علاوہ بم سازی کی تربیت حاصل کی۔

تربیت کے بعد طالبان کے ساتھ مل کر سیکیورٹی فورسز پرحملوں اور بم دھماکوں کی کاروائیوں میں شامل رہا۔ میری دلیری دیکھ کر مجھے بیت اللہ محسود نے اپنا ذاتی گن مین مقرر کردیا۔ اس کے ساتھ رہ کر میں نے تحریک طالبان کے بڑے بڑے رھنماؤں کو بہت قریب سے دیکھا اور ان سے تعلقات بھی بنائے۔ اسی دوران میں حکیم اللہ محسود اور ولی الرحمان کے بہت قریب ہوچکا تھا۔ حکیم اللہ محسود کے کہنے پر میں نے ٹانک، وانا، پشاور اور دیگر علاقوں میں طالبان مخالف عناصر کے خلاف بہت سی کاروائیاں کیں اور ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے ذریعے بہت سے لوگوں کو ہلاک کیا۔ جن میں بعض قبائلی سردار، حکومتی لشکروں کے سرکردہ لوگ، پولیس آفیسرز، مخبر اور سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے کارکن بھی شامل تھے۔

میاں افتخار حسین صوبائی حکومت کے وزیر اطلاعات اور ترجمان تھے اور طالبان کے سخت مخالفین میں شمار کئے جاتے تھے ۔ اس حوالے سے صوبے میں جاری دہشت گردی کے واقعات کے بارے میں ذرائع ابلاغ میں نمایاں رہتے اور طالبان کے خلاف کوئی نہ کوئی بیان دیتے رہتے تھے۔ ہم نے پہلے انھیں دھمکیاں وغیرہ دیں اور باز رہنے کیلئے کہا لیکن وہ زرہ برابر خوفزدہ نہیں ہوئے۔ جس پرولی الرحمان محسود نے مجھے حکم دیاکہ میاں افتخار کو عبرتناک سبق سکھاؤ۔

میں نے نقیب اللہ اور کلیم اللہ کے ساتھ مل کر پلاننگ کی اور اپنے مقامی طالبان ساتھیوں کی مخبری پر  نوشہرہ کے علاقے شیر گڑھی میں فارم کورونہ کے مقام پ  میاں افتخار کے بیٹے میاں راشد حسین اور ان کے بھتیجے امجد حسین پر ان کے گھر کے قریب ہی واک کے لیے جاتے ہوئے فائرنگ کردی ۔ جس سے میاں راشد ہلاک اور ان کا بھتیجا زخمی ہوگئے۔ اس کے بعد میاں افتخارحسین کے بیٹے کی رسم قل کے موقع پر ہم نے ایک اور کارروائی کی اورایک خودکش حملے کے زریعے میاں افتخار حسین کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔

رسمِ قل گورنمنٹ ڈگری کالج پبی میں ادا کی جارہی تھی، جہاں کئی وفاقی اور صوبائی وزراء اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد فاتحہ خوانی کے لئے آ رہے تھے جبکہ گھر میں بھی مہمانوں کی آمد کاسلسلہ جاری تھا۔ اس دوران ھمارے  ایک خودکش حملہ آور نے صوبائی وزیر کے گھر میں گھسنے کی کوشش کی اور پولیس کی طرف سے مداخلت پر خودکو دھماکے سے اڑایا دیا۔ اس بم دھماکے کے نتیجے میں تین پولیس اہلکاروں اور ایک بچی سمیت کم ازکم آٹھ افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔

اس  کاروائی پر حکیم اللہ محسود  اور ولی الرحمان نے مجھے خوب شاباش دی اور انعام کے طور پر تحریکِ طالبان پاکستان کے کراچی سیٹ اپ کا ”امیر ”مقرر کردیا ۔کراچی آنے کے بعد میں نے کراچی میں اغوأ برائے تاوان، بینک ڈکیتیوں اور بھتے کی وصولی کے ذریعے طالبان کی فنڈنگ کا بندوبست کیا۔ کراچی میں بھی نیٹو کے ٹھیکیداروں سے ماہانہ  بنیاد پر بھتہ طے کرکے رقم وزیرستان بھجتا تھا۔ جو تاجر یا ٹھیکیدار رقم دینے سے انکار کرتا تھا اس کے گھر یا کاروبار پرٹینس بال بم یا دستی بم سے حملہ کرتے تھے اور اگر پھر بھی تعاون نہ کرتا تو اسے ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے مار دیتے تھے۔

کراچی میں دسمبر 2012 میں  انسداد پولیو کے قطرے پلانے والی چار خواتین ورکرز سمیت پانچ افراد کو قتل کیا۔ متحدہ قومی مومنٹ کے جلسے کے بعد عائشہ منزل کے قریب ہونے والے موٹرسائیکل بم دھماکہ بھی ہماری ہی کارروائی تھی۔ طوری بنگش پولیس چوکی اوراجمیر نگری تھانے پرحملوں جبکہ اے این پی کے رہنماء امیر سردار کے قتل میں بھی ہماری ٹیم ملوث تھی۔



ملزم قیوم محسود کے سنسنی خیز انکشافات کے بعد ہم نے اس کے باقی ساتھیوں کی گرفتاری کیلئے منگھوپیر، اورنگی ٹاؤن ، پیر آباد ، لانڈھی اور سلطان آباد کے علاقوں میں چھاپے مارے جہاں دو جگہوں پر زبردست مزاحمت دیکھنے کو ملی ۔ پیرآباد میں  فائرنگ کے تبادلے بعد ایک لنگڑے ملزم کو گرفتار کیا جو کہ خود بھی پولیو کا شکار تھا اورستم ظریفی دیکھئے کہ اسی بد بخت شخص نے پولیو ورکرز خواتین کی مخبری بھی کی تھی۔سلطان آباد منگھو پیر کے علاقے مں دستی بموں سے حملہ ہوا لیکن اللہ کی مدد شامل رہی اور بغیر کسی نقصان کے ملزمان کو گرفتار کرلیا۔ ان کے قبضے سے بھاری مقدار میں اسلحہ گولہ بارود برامد ہوا جس میں پریشر ککربم، ٹینس کی بال نما بم، خودکش جیکٹیں بھی شامل تھیں۔

سی آئی ڈی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی شبیر شیخ نے پریس کانفرنس کی اور ملزمان کو میڈیا کے سامنے کیا۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ گرفتار ہونے والے ملزمان کا نام ایوب خان، مہتم خان، بلال عرف مشتاق، توصیف علی اور سیف اللہ ہیں اور ان تمام افراد کا تعلق کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان سے ہے۔ ان ملزمان کی گرفتاری کی اطلاع خیبر پختونخواہ پولیس اور میاں افتخار حسین کو بھی دی گئی۔ ان کے بیٹے کے قاتلوں کی گرفتاری پر دس لاکھ روپیہ انعام مقررتھا۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں