The news is by your side.

ملحد ’لا‘ پر ہم سے زیادہ ایمان رکھتا ہے

صوفی کے ڈیرے پر موضوع کچھ اور چل رہا تھا ، میں نے البتہ سوال کردیا ۔ یہ ملحد کیسے لوگ ہیں ؟ صوفی مسکرایا اور کہنے لگا ، ملحد ، سیکولر یا لبرل ، تم کوئی بھی نام دو لیکن یہ تم سے بہرحال اچھے ہیں۔ یہ حقیقی مومن بننے کے لئے پہلی سیڑھی پر قدم رکھ چکے ہوتے ہیں ، یہ الگ بات کہ ہم ایسے وراثتی مسلمان ان کو جان سے مارنا ثواب کا عمل جانتے ہیں۔

ہمارا کلمہ لا یعنی کچھ نہیں سے شروع ہوتا ہے ۔ ملحد کلمہ کے اس ابتدائیے پرہوتے ہیں ۔ اسلام ہی زمانہ جاہلیت کے مشرکین کا بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ ان کے پاس بتوں کی پوجا کا یہی جواز ہوتا تھا کہ ہمارے بزرگ ایسا کرتے تھے سو ہم بھی ایسا کرتے ہیں، ہم اپنے آباء کا دین نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ ملحد تو اسلام کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ چکے ہوتے ہیں۔ یہ اپنے آباء کے نظریات ، فرقہ یا دین صرف اس لئے قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے کہ ان کے بزرگ ایسا کرتے تھے۔

یہ سوال کرتے ہیں ، کھوج لگاتے ہیں ، احکامات کو سائنسی بنیادوں پر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور اس سفر کو کھوٹا کرنے والے ہم ایسے ہیں جو ان پر کفر کے فتوی لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ انہیں مزید سوال یا کھوج سے روک دیتے ہیں ۔ ہم انہیں “لا ” کی سیڑھی سےآگے قدم ہی نہیں رکھنے دیتے حالانکہ اگر انہیں آگے بڑھنے دیا جائے تو یہ ہم سے بہتر مسلمان بن سکتے ہیں۔

صوفی مسکرایا اور کہنے لگا کہ تصوف میں بھی ایک ہی لمحہ میں سلوک کی ساری منزلیں طے نہیں ہوتیں ۔ لوگ دیوانے ہو جاتے ہیں ، معاملات سنبھال نہ سکیں تو انا الحق کا نعرہ بھی لگا دیتے ہیں ۔ ملحد کو اگر” لا” سے آگے کا سفر کرنے دیا جائے تو اس کے بعد یہ”سوائے اللہ کے ” کا سبق بھی پڑھ جاتے ہیں اور پھر ہم سے زیادہ اس پر یقین کرتے ہیں۔

سیکولر یا لبرل ان سے ایک سیڑھی اوپر چلے جاتے ہیں ، یہ لا کے ساتھ ساتھ “مگر صرف خدا” تک کا سفر طے کر لیتے ہیں، یہ رسول پر ایمان بھی لے آتے ہیں لیکن آباء کی بات پھر بھی نہیں مانتے ، یہ سوال کی کھوج میں رہتے ہیں ۔سائنس کا اختتام خدا کی پہچان پر ہی ہوتا ہے لیکن انہیں اختتام تک جانے کون دے ؟؟ ہمارے پاس ایسے لوگوں کے سوالات کے جواب نہ ہوں تو یہ دین کی نہیں ہماری کمزوری ہے۔

انہیں جواب کہیں نہ کہیں سے مل ہی جائیں گےکیونکہ جواب موجود ہیں ۔اتنے میں لسی آ گئی ۔ صوفی نے مجھے گلاس تھماتے ہوئے کہا : بیٹا جی یہ جو بڑے بڑے ملحد اور گزرے ہیں ان کے فلسفہ فکر کا مطالعہ کرو ، ان کی زندگی کے آخری ایام کی خبر لو ، ان میں سے اکثر” لا” سے آگے کا سفر طے کر گئے تھے اور حقیقت کو پا گئے تھے۔

بس ان کے ساتھ اتنا ہوا کہ ہم ایسے کسی مسلمان نے انہیں قتل نہیں کیا تھا ورنہ ان کا سفر بھی “لا” تک ہی محدود رہ جاتا ۔ مجرم کھوج لگانے والے نہیں بلکہ انہیں اس راستے پرچلنے سے قبل ہی اسلام کے نام پر قتل کر دینے والے ہیں۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں