غریب کا دل امیر کی جیب سے بڑا ہوتا ہے۔ چاچا عاشق مجھے ہر اس موقع پر یاد آئے جب جب میں امیروں کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا ۔اسلام آباد کے سیاست دانوں اور ریٹائر جرنیلوں نے خاص طورپر انہیں بھولنے نہیں دیا۔
علی حسن ہمارے ساتھ ہائی سکول میں پڑھتا تھا‘ اس کے ابا جی جیسا خوددار اور محبت کرنے والا مہمان نواز انسان کم ہی دیکھا ہے ۔ ان کا ایک کمرے کا چھوٹا سا گھر ہمارے سکول کے پاس ہی ہوا کرتا تھا۔ ہفتہ صفائی کے مقابلوں میں پہلے نمبر پرآنے کے لئے ہم رات گئے تک اپنی کلاس سجایا کرتے تھے اور وہ عام سی چپڑاسی کی ملازمت کرنے والے عظیم انسان پوری کلاس کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھا کرتے تھے۔ کبھی شام میں لسی کی بالٹی لا رہے ہیں کہ بچوں کو پیاس لگی ہو گی، کبھی چائے کا پتیلا لارہے ہیں۔
کلاس سجانے کے بعد کسی کو اپنے گھرجانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ ہم سب دوست علی حسن کے گھر جاتے، وہاں اس ایک کمرے میں ہی دائرہ بنا کر بیٹھ جاتے۔چاچی جی ہمارے درمیان بڑا ساپتیلا لا کر رکھ دیتیں، معلوم ہوتا کہ ہمارے انتظار میں کسی نے بھی کھانا نہیں کھایا ۔ سب گھر والے بھی ہمراہ بیٹھتے اورچاچا عاشق اورچاچی ہر بچے کی پلیٹ میں سالن ڈالتیں، چاچا جی آواز لگاتے، ’’ایہ! بدر دی پلیٹ چے اک بوٹی ہور پاؤ ، اوئے کھایا وی کرو ، کلاس سجاسجا کےکملے ہوئے پئے او‘‘۔
ہم سب کھانا کھاتے رہتے اور چاچا جی لطیفے سناتے رہتے ، وہ علی حسن سے زیادہ ہمارے دوست بن گئے تھے ۔ اس کی بہنیں اس سے زیادہ ہماری بہنیں ہیں، کھانے کے بعد چائے پیئے بنا اٹھنے لگیں تو بہنیں باقاعدہ لڑ پڑتی تھیں۔ گاؤں کے جھگڑوں سے لے کر بچیوں کے رشتوں تک ہرمعاملے میں چاچا جی ہم سے مشاورت کرتے ۔میں جب بھی ان کے گھر گیا یہ ممکن نہ ہوتاکہ سب گھر والوں کے ہمراہ کھانا کھائے بنا واپس آجائوں، عید کے دن تو خاص طور پران کے گھرجاتا کہ سب انتظار کر رہے ہوں گے ۔
سچی بات یہ ہے کہ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ ایک کلو گوشت میں اتنی برکت کیسے پڑ جاتی تھی کہ ہم سب سیر ہو جاتے اور سالن ختم نہ ہوتا۔ اتنی برکت میں نے انہی کے دسترخوان پر دیکھی ہے۔ عملی زندگی میں قدم رکھا تو احساس ہوا چاچا عاشق کئی دولت مندوں کی جیب سے بڑا دل رکھتے ہیں۔ ان کا دسترخوان مجھے ہراس جرنیل اورسیاست دان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر یاد آیا جس کے پاس مہمانوں کے لئے ایک گلاس پانی اور قہوہ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ چند ہزار کمانے والاوہ درویش صفت شخص جس طرح ہمارے آتے ہی چاچی کو ہانڈی چولہے پر رکھ دینے کا کہتا اور کسی بچے کو بازار سے گوشت خرید لانے کے لئے بھگاتا تھا وہ شاید الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا۔ ہم اب اس علاقے سے کافی دور چلے آئے ہیں لیکن آج بھی جب ان کے گھر چلاجاتا ہوں تو چاچا جی کی خوشی قابل دید ہوتی ہے۔ میں اسی ایک کمرے میں سب گھر والوں کے ہمراہ بیٹھ کر کھانا کھاتا ہوں اور کئی کئی گھنٹے گفتگو چلتی ہے۔
چاچا عاشق آج پھر یاد آئے! میں ورکشاپ پر تھا، موٹر مکینک نے اپنے لئے چائے منگوائی تو ایک کپ میری جانب بڑھا دیا، میرے رسمی انکار پر باقاعدہ لڑ پڑا اور پھر چائے پیتے ہوئے میں سوچ رہا تھا، یہ چاچا عاشق اور موٹر مکینک ایک ہی گاؤں کے لگتے ہیں۔ شاید غریبوں کو خدا جنت میں اکٹھا رکھتا ہے اور عالم ارواح میں بھی یہ ایک ہی قبیلے سے ہوتے ہیں ۔ایک ایسے قبیلے سے جو وہاں شہنشاہی کے لئے ہوتا ہے۔ شاید خدا نے انصاف تولتے وقت امیر کی جیب سے بڑا دل غریب کو دیا ہے اورسچی بات یہ ہے کہ چاچا عاشق کے پتیلے میں بننے والا سالن ذائقے اور برکت دونوں کے حساب سے کئی امیرزادوں کی بڑی بڑی دعوتوں پر بھاری پڑتا ہے۔
مجھے فائیو سٹار کے ماحول اورکھانے دونوں میں وہ احساس نہیں ملا جو اس ایک کمرے کے چھوٹے مگر خوشیوں سے بھرپور گھر میں ملا ہے۔ مجھے لگتا ہے چاچا عاشق بظاہر ایک عام سا چپڑاسی تھا لیکن حقیقتاً وہ بہت امیر انسان ہے۔ اتنا امیر کہ اس کی جیب کے چند روپے بادشاہوں کے خزانوں پر بھاری پڑتے ہیں۔انہوں نے مجھے احساس دلایا تھا کہ غریب مزدور سے زیادہ قابل احترام کوئی نہیں ہوتا کیونکہ اس کا دل امیر کی جیب سے بڑا ہوتا ہے۔