The news is by your side.

میاں کا مٹھو کون؟

بچپن کا رومانس جب ٹوٹتا ہے تو بڑی تکلیف ہوتی ہے اور رومانس کا اصل چہرہ سامنے آنے پر اپنی سادگی پرہنسی بھی آتی ہے ہم بھی اس نسل میں شامل ہیں جو پاکستان ٹیلی ویژن کےڈراموں کا عروج دیکھ چکی ہے جب ایک ڈرامہ دیکھنے کے لیے گلیاں اور سڑکیں ویران ہوجایا کرتی تھیں اوراس ڈرامے کا ایک ایک کردار اور مکالمے زبانی یاد ہوا کرتے تھے۔ کردارکا ڈرامے والا نام اوراصل نام‘ ڈرامے کے ہدایتکارکا نام‘ اس کے لکھاری کا نام اوریہاں تک کے میک کرنے والے تک کا نام زبانی یاد ہوتا تھا۔ وارث ڈرامے کے بعد جب بھی کسی ڈرامے میں امجد اسلام امجد کا نام چلتا تودل گواہی دیتا کہ ڈرامہ اچھاہوگا‘ جب اصغرندیم سید کا نام آتا تو یہی کفیت ہوتی اور ایسا ہی ایک نام عطاء الحق قاسمی کا تھا۔ ڈرامہ سیریل خواجہ اینڈ سن کے بعد ان کا نام دیکھ کر خوشی ہوتی اورایک تعلق قائم ہوگیا اور یہ تعلق نہ صرف ڈراموں بلکہ ان کے سفر ناموں اور کالموں تک وسیع ہوتا گیا اور اشفاق احمد کی طرح عطاء الحق قاسمی کا نام بھی عزت و احترام کی نشانی بن گیا۔

مگر میڈیا میں آنے کے بعد جب سیاست اور اس کے داؤ پیچ سمجھ آنے لگے اورمعلوم ہونے لگا کہ سیاست میں وفاداریاں کیسے خریدی اور بیچی جاتی ہیں اور کالم نگاروں دانشوروں اور صحافیوں کو کیسے خریدا جاتا ہے تو یہ بات فوراً ہضم نہ ہوئی خاص کر ان لوگوں کے بارے میں جو بچپن کا رومانس رہے ہوں مگر جب لکھنے والے اپنی غیر جانبداری کو بالائے طاق رکھ کر کسی ایک کی مداح سرائی شروع کردیں اور کسی میاں کے مٹھو بن جایئں اور اپنی دلیل کو اپنے ہی ضمیر کے ہاتھوں فروخت کر دیں تو بدنام زمانہ صحافی ان سفید لباس لکھاریوں اور دانشوروں کے مقابلے میں معصوم اور بے ضرر نظر آنے لگتے ہیں۔ عطاءالحق قاسمی جن میاں کے مٹھو بنے ہوئے ہیں ان کا پیمانہ کیا ہے کہ میاں صاحب اخلاقی اقدار کے علمبردار ہیں‘ دوسروں کو معاف کرنے والے ہیں‘ ہر روز ماں کے قدموں میں بیٹھتے ہیں اور ویژنری لیڈر ہیں۔

جہاں تک اخلاقی اقدار کا تعلق ہے قاسمی صاحب نے یہ بھِی لکھا کہ وہ پہلےدن سے میاں صاحب کے ساتھ کھڑے ہیں تو قاسمی صاحب کیا آپ بھول گئے کہ نوے کی دہائی میں میاں صاحب نے محترمہ بے نظیر اوران کی ماں نصرت بھٹو پر گھٹیا الزامات لگا کرجواخلاقیات کی دھجیاں اڑائیں اور آج کل ان کے بھائی شہباز شریف اوران کے وزراء‘ آصف زرداری اور عمران خان کے لیے جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ بالکل اپنے لیڈر کی اندر کی

سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ کیا یہ وزراء اپنے لیڈر کی مرضی کی بغیر ایسی زبان استعمال کرتے ہیں کیا ان پر میاں صاحب کا کنٹرول نہیں اوراگر ایسا ہے تو کیسے لیڈر ہیں اپنے بندے قابو میں نہیں چلے ہیں اپنے حریفوں کو اخلاق کا درس دینے۔

جہاں تک معاف کرنے کا تعلق ہے تو آپ کے سوا ہر بندہ اس بات کی گواہی دے گا کہ وہ دل میں بات رکھتے ہیں آپ نے معاف کرنے کے حوالے سے تین نام گنوائے جبکہ معاف نہ کرنے والوں کے درجوں نام گنوائے جاسکتے ہیں۔ آپ نے کہا وہ ماں کے قدموں میں بیٹھتے ہیں تو اس میں قوم کا کیا فائدہ ہے کیا ایک ماں جس کا بچہ قتل ہوگیا اس کی پولیس میں رپورٹ درج نہ ہو‘ ایک بہن جس کا بھائی ہسپتال میں علاج نہ ہونے کی وجہ سے سک سک کر مر جائے اس کو یہ کہا جاسکتا ہے قتل کی رپورٹ ہو نہ ہو علاج ہو نہ ہو مگر ملک کا وزیر اعظم ماں کے قدموں میں بیٹھتا ہے لہذا تسلی اور صبر رکھیں۔

لوگوں نے ووٹ ملک کی خدمت اور ان کی اپنی فلاح کے کاموں اور ادارے بنانے کے لیے دیے ہیں ماں کے قدموں میں بیٹھنا ان کاذاتی فعل ہے آپ نے کہا کہ ایک دن وہ بغیر پروٹوکول کے آپ کے ہاں آگئے تھے تو آپ کے ہاں آنے سے ان کی کارکردگی سے کیا تعلق؟ اگر ایک ملک کا سربراہ اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کررہا ہو‘ اس پر کرپشن کے الزامات ہوں اس کے معاملات پرسوالیہ نشان ہوں تو کیا ایک دانشور کو یہ دلیل دینی چاہیے کہ وہ اس کے گھر آگیا لہذا اس سے اچھا کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ کتنی بودی دلیل ہے اور اسی قسم کے دلائل آپ نے اور بھی دئے ہیں۔

چلیں مان لیا کہ آپ میاں صاحب کے رومانس میں مبتلا ہوں گے مگر اسی رومانس کے چکروں میں اسی سربراہ سے آپ کو پہلے دور میں پرائڈ آف پرفارمنس ملے‘ دوسرے دور میں ستارہ امتیاز ملے‘ تیسرے دور میں ہلال امتیاز ملے اور صرف یہاں تک نہیں بلکہ تیسرے دور میں چیئرمین پی ٹی وی کا عہدہ ملے اور یہی نہیں پی ٹی وی کی تاریخ میں پہلی بار چیئرمین ایم ڈی بھی بن جائے یعنی دو عہدے اورتاریخ کی سب سے زیادہ تنخواہ پندرہ لاکھ لیں اور یہ ادارہ گذشہ کسی بھی دور کے مقابلے میں خسارے میں ہو تو سارا رومانس سمجھ میں آجاتا ہے‘ مداح سرائی کی اس سے زیادہ قیمت کوئی بھی وصول نہیں کر سکتا۔ مفادات کے تصادم کی اعلیٰ مثال یہی ہے۔ حبیب جالب جیسے لوگ تو پاگل تھے جو ہردور میں مارِیں کھاتے رہے‘ ان کو ماریں کھانے کا ویسا ہی چسکا تھا جیسے ان کو میاں کا مٹھو بن کر اس کی قیمت وصول کرنے کا چسکا ہے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں