The news is by your side.

حسرت موہانی – برصغیر کے سب سے بااصول لیڈر

گزشتہ دنوں مولانا حسرت موہانی کی 66ویں برسی آئی اور خاموشی سے گزرگئی‘ کیا آپ جانتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے مظلوم عوام کی تحریک آزادی کی حمایت اور نو آبادیاتی نظام کے خلاف سب سے توانا اور غیر متزلزل آواز سید الاحرار مولانا حسرت موہانی ؒکی تھی ۔ آپ نے 1903 ءمیں علیگڑھ سے بی اے کرنے کے بعد کسی سرکاری ملازمت یا عہدے کو ترجیح دینے کے بجائے قومی خدمت اور آزادی کی جدوجہد کو اپنا نصب العین بنایا ۔ مولانا حسرت موہانی ؒ کا پہلا کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے 1903 ءمیں اخبار اُردو معلی کا اجراءکیا جس نے اُردو صحافت اور سیاست کو ایک نیا موڑ عطا کیا۔

اُردو معلی محض ایک اخبار نہیں تھا بلکہ اس کے ہر لفظ،ہر سطر میں مولانا حسرت موہانیؒ کی فکر تازہ ،عصری آگہی کی چمک اور عوام دوستی نمایاں تھی ۔اُردو معلی نے بہت کم عرصے میں برصغیر کے مسلمانوں میں آزادی کی لگن ، سیاسی جدوجہد اور قوم پرستی کی ایک نئی روح پھونک دی۔

مولانا حسرت موہانیؒ کا دوسرا کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے برصغیر کی سیاست میں عوام دوستی ، اعتدال پسندی ، روشن خیالی اور بلند حوصلگی کو روشناس کرانے میں اولین کردار اداکیا یہی وجہ تھی کہ انگریز حکمرانوں سمیت ہندو سرمایہ دار اور مسلم جاگیردار طبقے مولانا حسرت موہانیؒ کی غیر طبقاتی جدوجہد سے خائف تھے۔

مولانا حسرت موہانی ؒاپنی ذات میں ایک سچے مسلمان ، روشن خیال ہندوستانی ، حوصلہ مند صحافی ، حساس شاعر اور بے لوث سیاسی راہنما اور ایک پُر عزم انقلابی تھے۔

مولانا حسرت موہانیؒ کا تیسرا بڑا کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے نو آبادیاتی اور یورپی استعماریت کی جدلیات کو پرکھتے ہوئے سب سے پہلے سودیشی اور بائیکاٹ جیسے سیاسی نعرے متعارف کراتے ہوئے سیاسی جدوجہد کو ایک نیا رُخ عطا کیا جس کی کانگریس نے اس وقت مخالفت کی یہ وہ دور تھا جب مہاتما گاندھی کا برصغیر کی سیاست میں دور دور تک پتہ نہ تھا مگر آگے چل کر 25 سال بعد انہی نعروں کے سہارے کانگریس نے اپنی تحریک استوار کی۔

مولانا حسرت موہانیؒ ابتدا میں آل انڈیا نیشنل کانگریس سے وابستہ رہے اور نہایت فعال کردار ادا کرتے رہے ۔ آپ نے ہندو مسلم اتحاد کے لئے طویل عرصے تک جدوجہد جاری رکھی مگر ایک وقت ایسا آیا کہ مولانا حسرت موہانیؒ جیسے روشن خیال اور انسان دوست سیاسی راہنما کو بھی کانگریس کی تنگ نظری اور مسلم دشمنی کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے پارٹی سے الگ ہونا پڑا ۔ 1913 ءمیں مولانا حسرت موہانیؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی اور مولانا کا چوتھا بڑا کارنامہ یہ سامنے آیا کہ آپ نے مسلم لیگ کو مسلمانوں میں مقبول بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا اور پہلی بار مسلم لیگ کو عوامی سطح پر متعارف کرایا۔

مولانا حسرت موہانیؒ کا پانچواں بڑا کارنامہ یہ قرار پایا کہ آپ نے 1921 ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ کے سیشن کی صدارت کرتے ہوئے اپنے خطبہ صدارت میں پہلی بار یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہندوستان میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طرز پر ہندوستانی جمہوریہ قائم ہونی چاہئیے تاکہ ہندو اکثریت اپنی اکثریت کی بنیاد پر مسلمانوں کے مفادات کو نقصان نہ پہنچا سکے۔

مولانا حسرت موہانیؒ کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپ نے ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی بنیاد رکھتے ہوئے بائیں بازو کی انقلابی تحریک کو آگے بڑھانے میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔

نظریاتی طور پر مولانا حسرت موہانیؒ انگریزوں کی شاطرانہ چالوں اور نو آبادیاتی نظام کی لوٹ کھسوٹ کے شدید مخالف تھے ۔ آپ کو برصغیر کے مسلمانوں سمیت دیگر مسلم ممالک کے مظلوم عوام سے بھی گہری ہمدردی تھی جو یورپی قوتوں کے جبر اور استحصال کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے ۔ اس کی ایک مثال اپریل 1908 ءکے اُردو معلی میں شائع ہونے والا وہ تاریخی مضمون ہے جس میں مصر میں انگریزوں کی تعلیمی پالیسی کا پردہ چاک کیا گیا تھا اور یہی وہ مضمون ہے جس کے مصنف کا نام پوشیدہ رکھتے ہوئے مولانا حسرت موہانیؒ نے تمام تر ذمہ داری اپنے سر لے لی تھی اور اس پاداش میں دو سال قید بامشقت کی سزا قبول کرتے ہوئے صحافت کی تاریخ میں ایک اعلی مثال قائم کی تھی ۔
مولانا حسرت موہانیؒ سمیت مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ 1930ءتک کے حالات اور واقعات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ برطانیہ کسی بھی طور ہندوستان کی آزادی نہیں چاہتا ۔ اس وقت مسلمانوں کا یہ اندیشہ کچھ غلط بھی نہیں تھا ۔لیکن دوسری جنگِ عظیم میں برطانیہ فتح مند ہونے کے باوجود بدترین معاشی اور سیاسی انحطاط سے دوچار ہوچکا تھا اس لئے اس کو اپنی نو آبادیات سے ہاتھ دھونا پڑا۔

جولائی 1946ءمیں مولانا حسرت موہانیؒ کی سیاسی بصیرت ، عوام دوستی اور جمہوریت پسندی کے حوالے سے ایک اور اہم کارنامہ یہ سامنے آیا کہ آپ نے بمبئی کے مسلم لیگ کے اجلاس میں یہ اہم تجویز پیش کی تھی کہ ” مسلم اراکین مجلس قانون ساز پاکستان دستور ساز اسمبلی قائم کرلیں اور پاکستان کا دستور تیار کریں “۔ مگر مسلم لیگ کے راہنماﺅں نے مولانا کی تجویز یہ کہہ کر مسترد کردی کہ ابھی تک پاکستان کے قیام کا فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے اس لئے اس نوعیت کی کوئی بھی کوشش قبل از وقت ہوگی ۔ مگر دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ مولانا حسرت موہانیؒ کے اصرار اور اندازے کے مطابق صرف 13 ماہ بعد قیام ِ پاکستان کا تاریخی واقعہ سامنے آیا ۔ اس حوالے سے مولانا جمال الدین فرنگی محلی نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ” اگر مولانا حسرت موہانیؒ کی تجویز منظور کرلی جاتی تو دستور سازی کا عمل بروقت اور مناسب طور سر انجام پاتا اور مسلمانوں کی تاریخ اور ملک کا جغرافیہ بہت مختلف ہوتا“۔

تقسیمِ ہند کے بعد مولانا حسرت موہانی ؒنے ہندوستان ہی میں رہنے کو ترجیح دی اور اس بات کی کوشش کرتے رہے کہ مسلمان ترک وطن نہ کریں۔ مولانا نے آخر وقت تک مسلمانوں کی ترجمانی کرنے اور اپنی بے لاگ رائے کا اظہار کرنے میں کبھی کسی مصلحت کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا۔ سقوطِحیدرآباد اور جونا گڑھ پر بھارتی قبضے کی بھارتی پارلیمنٹ میں شدید مخالفت کرنے والی آواز بھی مولانا حسرت موہانی ؒہی کی تھی۔ یہی نہیں بلکہ یہ بھی ایک تاریخی واقعہ ہے کہ جب ہندوستان کا دستور منظور ہوا اوراس پر دستخط کرنے کا لمحہ آیا تو مولانا حسرت موہانیؒ نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ ” یہ دستور ہندوستان کی مکمل آزادی کے منافی ہے کیونکہ اس میں ہندوستان کی دولتِ مشترکہ میں شمولیت کا ذکر ہے “۔ مذکورہ واقعہ اس لئے بھی ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے کہ آزادی کے تو سب ہی دعویدار رہے مگر پورے برصغیر میں یہ شرف صرف مولانا حسرت موہانیؒ کو حاصل ہے کہ کامل آزادی کے بارے میں پوری زندگی کسی مصلحت یا مصالحت کو ترجیح نہیں دی اور آخر دم تک اپنے اُصول اور کمٹمنٹ پر قائم رہے۔

مولانا حسرت موہانیؒ نے اپنی 47 سالہ طویل اور کٹھن سیاسی جدوجہد کے دوران جنوبی ایشیا کی سیاست پر اپنے بہت سے نقش چھوڑے ہیں ۔ اگر مولانا حسرت موہانیؒ سیاست میں نہ ہوتے تو نہ گاندھی کو مہاتما بننے کا موقع میسر آتا اور نہ جنوبی افریقہ میں انڈین نیشنل کانگریس کی سیاست سے متاثر ہونے والا نیلسن منڈیلا جیسا عظیم عوامی راہنما پیدا ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں ہندوستان کی آزادی میں مولانا حسرت موہانیؒ اور مسلمانوں کی جدوجہد کا حصہ بہت زیادہ ہے جس سے تاریخ کا کوئی بھی غیر جانبدار طالب علم انکار نہیں کرسکتا۔ رئیس الاحرار مولانا حسرت موہانی ؒ جنوبی ایشیا کی تاریخ میں آزادی کی تحریک کے راہبر اول ، بے لوث اور عوام دوست راہنما کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

+ posts

عمران نور کا تعلق حیدرآباد سے ہے‘ انہوں نے سیاسیات میں ایم اے کیا ہے‘ گزشتہ کئی برس سے سیاسی و سماجی نوعیت کے معاملات پر ان کی تحریریں مختلف اخبارات میں شائع ہورہی ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں