The news is by your side.

ریاست مدینہ سے کشید ’’ ون ونڈو سروس ‘‘ کا تصوراور جدید پاکستان

        انسانی تاریخ میں ون ونڈو سروس کا آغاز کب ہوا یہ تو میں نہیں جانتا لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ دنیا کی سب سے بہتر ’’ون ونڈو سروس‘‘ کا نظام کس نے متعارف کرایا تھا ۔ ہمارے سامنے ریاست مدینہ کا ماڈل ہے۔ مسجد نبوی میں سرکار دوجہاں ﷺ تشریف رکھتے ہیں ۔ سائل آتا ہے اور موقع پر اپنے مسائل کا حل پاتا ہے ۔ ہر طرح کے مسائل و معاملات یہیں حل کیے جا رہے ہیں ، غریبوں اور مساکین کی مدد کی جا رہی ہے ، مجرموں کو کڑے ٹرائل یعنی جلد انصاف کی فراہمی کے لئے پہلی پیشی پر ہی سزایا بری کیا جا رہا ہے اورمقررہ وقت میں اس سزا پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے ۔ یہاں نہ تو ایک میز سے دوسری میز تک فائل گھومتی ہے ، نہ سفارشی کلچر ہے اور نہ ہی کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے ۔ ریاست مدینہ کا ماڈل ہمیں بتاتا ہے کہ تبدیلی کیسے آتی ہے اور عوام کو انصاف کیسے مہیا کیا جاتا ہے ۔ مسجد نبوی کی یہ ’’ون ونڈو سروس ـ‘‘ کسی بھی سائل کو دانستہ دوسرا چکر نہیں لگواتی۔شکایت ، فوری تصدیق اور پھر فوری طور پر مقررہ وقت میں جزا و سزا کا جو عمل ہمیں ریاست مدینہ نے سکھایا اس کی مثال کہیں اورنہیں ملتی ۔ ہم اسے دربارِ نبوت ﷺکے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ دور جدید کی ون ونڈو سروس کا خیال اسی دربار نبوت ﷺ سے کشید کیا جا رہا ہے۔

اس میں دو رائے نہیں کہ اب دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک ون ونڈو سروس کو فروغ دے رہے ہیں ۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں تو اس سروس کو بہتر کسٹمر کیئر مینجمنٹ کا نام دیتی ہیں اور یہ سمجھتی ہیں کہ ایسی سروس سے نہ صرف زیادہ سے زیادہ نفع حاصل ہوتا ہے بلکہ مارکیٹ میں ساکھ بھی مضبوط ہوتی ہے ۔ان ترقی یافتہ ممالک میں شہریوں کے لئے سرکاری سطح پر بھی یہی سروس مختلف انداز میں متعارف کرائی جاتی ہے ۔ پاکستان میں بھی اب ایسی سہولیات متعارف کرانے کا رحجان بڑھ رہا ہے ۔ ایک خبر کے مطابق حکومت پنجاب نے ای خدمت کے نام پر ڈومیسائل سے لے کر نکاح نامے تک کی تمام سہولیات کو ون ونڈو سروس پر منتقل کر کے ایک سینٹر تک محدود کردیا ہے تاکہ سائل کو مختلف دفاتر کے چکر نہ لگانا پڑیں ۔ بنیادی طور پر ون ونڈو سروس کا مقصد ہی سائل کے لئے زیادہ سے زیادہ آسانیاں فراہم کرتے ہوئے اس کی مشکلات کو کم کرنا ہے ۔ دنیا بھر میں اس کے لئے کئی اقدامات اور نت نئے تجربات کئے جاتے ہیں لیکن اس کا بنیادی تصور ایک ہی رہتا ہے ۔ یہ وہی تصور ہے جو ریاست مدینہ نے ہمیں فراہم کیا ہے ۔

میں گذشتہ دنوں پاکستان خصوصا پنجاب میں ون ونڈو سروس کے حوالے سے معلومات اکٹھی کرتا رہا ہوں ۔ مجھے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ اس وقت پنجاب میں سرکاری سطح پر ون ونڈو سروس کے تحت عام شہریوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے متعدد منصوبوں پر کام ہو رہا ہے جن میں سے اکثر منصوبے آپریشنل بھی کئے جا چکے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ ان کا علم ان افراد کو تو ہوتا ہے جنہوں نے اس سے استفادہ کیا ہے لیکن جو لوگ ابھی تک ایسی سروس سے مستفید نہیں ہو سکے وہ پرانے نظام کو ذہن میں رکھے ہوئے ہیں اور اس خوف سے اپنے جائز کام کے لئے بھی جاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں کہ اس سے وقت کے ضیاع کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا ۔ اسی لئے میری کوشش ہوتی ہے عام شہریوں کو ایسی سہولیات سے آگاہ کرتا رہوں تاکہ محض سابقہ تجربات یا خودساختہ خوف کی وجہ سے وہ زیادہ دیر مشکلات کا شکار نہ رہیں۔

ون ونڈو سروس کے تحت سائل کے مسائل فوری طور پر حل کرنے میں مجھے سب سے زیادہ منصوبے پنجاب پولیس میں نظر آئے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا منصوبہ تو فرنٹ ڈیسک کے نام سے پنجاب کے ہر تھانے میں کام کر رہا ہے جہاں اب کسی بھی قسم کی شکایت 5 منٹ میں درج کی جاتی ہے اور عام شہری کو محرر ، ایف آئی آر رجسٹر ، ایف آئی آر کی گمشدگی اور فوٹو کاپیوں کے چکر میں نہیں الجھنا پڑتا ۔ یہاں تک کہ شکایت لکھ کر نہ لےجانے والوں کو فرنٹ ڈیسک پر تعینات عملہ خود ہی شکایت لکھ کر اسے آن لائن درج کر کے اس کی کاپی فراہم کردیتا ہے۔

اسی طرح کریکٹر سرٹیفکیٹ کے اجرا کے لئے بھی ڈی آئی جی آپریشن نے ایس ایس پی سکیورٹی کی نگرانی میں ون ونڈو آپریشن شروع کروا رکھا ہے ۔لاہور میں 5 سہولیاتی مراکز میں تین ماہ کے دوران ساڑھے چھ ہزار سے زائد شہریوں کو کسی چٹ ، سفارش یا ریفرنس کے بغیر یہ سہولت فراہم کی جاچکی ہے ۔ یہاں اب بیرونِ ممالک جانے والوں کو محض دس دن میں سرٹیفکیٹ مل جاتا ہے۔

اسی طرح آئی جی پنجاب کا ویژن تھا کہ پولیس اور عام شہریوں کے درمیان معلومات کاتبادلہ اور مقامی سطح پر پولیس عوام تعلقات انتہائی مضبوط ہوں تاکہ دہشت گردی اور جرائم پر حقیقی معنوں میں قابو پایا جا سکے ۔ اس سلسلے میں سی سی پی او لاہور امین وینس کی کاوشیں نمایاں ہیں جبکہ ایس ایس پی ایڈمن لاہور رانا ایاز سلیم نے لاہور کی ایڈمنسٹریشن کی لامتناہی مصروفیات کے باوجود جس طرح لوکل آئی ایپ کا انقلابی پراجیکٹ متعارف کرایا ہے، وہ قابلِ داد ہے ۔ لوکل آئی ایک ایسا سافٹ ویئر ہے جس کے ذریعے بلدیاتی نمائندے اور پولیس افسران ایک دوسرے سے رابطے میں آ گئے ہیں ۔ اب ایک منتخب کونسلر بھی اپنے حلقہ انتخاب یعنی دس بیس گلیوں میں ہونے والی مشکوک سرگرمی ، مشکوک کرایہ دار یا کسی مجرم کی اطلاع محض ایک موبائل ایپ کی مدد سے پولیس کے اعلی افسران تک پہنچا سکتا ہے جس پر فوری کارروائی ہوتی ہے۔ موجودہ حالات میں یہ ایک اہم قدم ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ کونسلر کو اپنے حلقۂ انتخاب میں نظر آنے والی کسی تبدیلی یا مشکوک سرگرمی کا علم نہ ہو۔ بلدیاتی نمائندوں کو اب کسی ون ونڈو سروس پر جانے کی بھی ضرورت نہیں رہی بلکہ ون ونڈو سروس ان کے اپنے موبائل میں آ گئی ہے اور وہ پولیس افسران سے بلاتاخیر رابطوں سے لے کر اندراج مقدمہ اور تفتیش سے متعلق ہر مسئلہ آسانی سے حل کرا سکتے ہیں ۔ یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ لوکل آئی ایپ بنیادی طور پر ون ونڈوسروس کی روشن اور قابل تقلید مثال ہے۔

ون ونڈو سروس کی جدید ترین شکل ہمیں موبائل ایپ کی صورت نظر آتی ہے ۔ ایک خبر کے مطابق رانا ایاز سلیم کی کاوشوں کی بدولت ہی اب پولیس شہداء کی فیملیز کو بھی اپنے مسائل کے حل کے لئے پولیس افسروں کے دفاتر کے چکر لگانے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ شہدا کے خاندانوں اور متعلقہ پولیس آفیسرز کو بھی ایک واٹس ایپ گروپ کی مدد سے اکٹھا کر دیا گیا ہے ۔اب شہدا کی فیملیز کو پینشن اور مراعات سمیت کسی بھی کام میں کوئی مشکل پیش آ رہی ہو تو وہ اپنی شکایت گھر بیٹھے اس واٹس ایپ گروپ میں نوٹ کروا دیتے ہیں۔ اس گروپ میں انتہائی سینئر آفیسرز بھی شامل ہیں لہذا شکایت سے متعلقہ آفیسرفوری طور پر شہید کے خاندان کا مسئلہ حل کرتا ہے ۔

اس میں دو رائے نہیں کہ چودہ سو برس قبل مسجد نبوی ﷺ میں قائم ون ونڈو سروس اس بادشاہی کے دور میں تو حیرت کا باعث تھی ہی کہ ریاست کے امیر عام شہریوں کے درمیان بیٹھ کر ان کے مسائل فوری طور پر حل کرتے تھے لیکن اب دربار نبوی ﷺ سے ملنے والے سبق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ون ونڈو سروس جس طرح ایک دفتری کھڑکی سے واٹس ایپ گروپ تک لائی گئی ہے وہ بھی قابل تعریف ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام نے ریاست کے ذمہ داران کو عام شہریوں کی خدمت کادرس دیا ہے ۔ دورجدید میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر یہ بہت مشکل ہو گیا ہے کہ کسی ایک مسجد میں ڈیرہ لگا کر یا کھلی کچہری کے ذریعے ہر شہری کا مسئلہ فوری طور پر حل کیا جا سکے ۔ اس مقصد کے لئے ہمیں جدیدانداز اپنانا ہو گا۔

پنجاب پولیس کی جانب سے فرنٹ ڈیسک ، لوکل آئی ،واٹس ایپ گروپ اور دیگر آئی ٹی پراجیکٹس کے ذریعے سروس کی فراہمی کا جو انداز اپنایا جا رہا ہے وہ قابل تعریف ہے ۔ ضروری ہے کہ تمام سرکاری ادارے یہی طریقہ کار اپناتے ہوئے سائل کو آن لائن سسٹم اور واٹس ایپ کی مدد سے گھر بیٹھے اپنا مسئلہ حل کروانے کی سہولت فراہم کریں ۔ ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں جی رہے ہیں لہذا اب بھی شہریوں کو فائلیں اٹھائے ایک سے دوسرے دفتر کا چکر کاٹنا پڑے تو پھر اسے انتظامی نااہلی ہی کہا جا سکتا ہے ۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں