پاکستان نےدہشت گردی کےخلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بننے کا فیصلہ کیا تو سکیورٹی اداروں کا امتحان شروع ہوچکا تھا۔ ایک جانب تو ملک بھر میں پولیس فورس دہشت گردوں سے برسرپیکار ہوچکی تھی تو دوسری جانب نااہل اور کرپٹ افسران حکومت کے اس فیصلےکو اپنےپیٹ بھرنےکا ذریعہ بنانے پرتلے ہوئے تھے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ جس پیمانے پر شروع کی گئی تھی اس میں وطن کے تحفظ کی خاطر لڑنے والے پولیس افسران کی جانب سے کئے گئے آپریشنز میں گناہ گاروں کے ساتھ ساتھ کئی بے گناہوں کو بھی سزائیں بھگتنی پڑی۔ لیکن اس میں جان بوجھ کر یا شعوری طور پر کسی بے گناہ کو نہیں پھنسایا گیا۔ کالی بھیڑیں ہرجگہ پائی جاتی ہی اور ہمارے ملک کی پولیس فورس میں ان کی تعداد ضرورت سے زیادہ ہے ۔اس لئے اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض اوقات بدعنوان اور نااہل پولیس افسران اپنی نااہلی چھپانے اور سینئرز پر اپنی کارکردگی ثابت کرنے کے لئے جان بوجھ کر بے گناہ نوجوانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنساتے رہے ہیں۔
دو فریقوں کے جھگڑے میں ایک فریق سے پیسے پکڑ کر دوسرے فریق کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کرنے کے واقعات اکثر میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ آئے روز عدالتوں میں دائر درخواستوں میں پولیس پر الزام لگایا جاتا ہے کہ پولیس کے کئی نامی گرامی افسران بااثر افراد اورلینڈ مافیا کے کہنے پر زمینوں سے قبضہ چھڑوانے کے معاملات میں متعدد بے گناہ لوگوں کو ڈاکو اوردہشت گرد بناکر سلاخوں کے پیچھے بھیج چکے ہیں یا پولیس مقابلوں کی نظر کرچکے ہیں۔ بالخصوص پنجاب اور بد قسمتی سے سندھ پولیس کے متعدد افسران پر یہ الزامات لگائے جاتے ہیں۔
میرے سامنے کئی ایسے واقعات بھی ہیں جن میں پولیس کا مخبر بننے سے انکار کرنے کی جرأت کرنے والے شخص کو ڈاکو بنا کر مختلف مقدمات میں ملوث کردیا جاتا ہے اس قسم کی شکایات زیادہ تر جنوبی پنجاب اور اندرونِ سندھ سے سامنے آتی ہیں۔ مقامی پولیس جس کے افسران دہشت گردی کے مقدمات کی تفتیش اور اینٹروگیشن کے لیے خصوصی تربیت یافتہ نہیں ہوتے اگر وہ کسی بھی عام مجرم یا کسی بے گناہ کو دہشت گرد بناکر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی کارکردگی کا بھانڈا پھوٹتے دیر نہیں لگتی کیونکہ نہ انکے پاس دہشت گردوں کے بارے میں صیح معلومات ہوتی ہیں نہ ہی وہ کالعدم تنظیموں کے پس منظر سے واقفیت رکھتے ہیں۔ جھوٹی سچی کہانی بنانے کے باوجود جب جوائنٹ اینٹروگیش ٹیم جس میں سی آئی ڈی کے علاوہ آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی، ایف ایس ونگ رینجرز ، اسپیشل برانچ وغیرہ کے ماہر افسران شامل ہوتے ہیں جن کے سامنے ملزم پیش ہوتا ہے تو تھوڑی ہی دیر میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجاتا ہے۔
اپنے سروس کیرئر میں مجھے کئی مرتبہ ایسی صورتِ حال دیکھنے کا اتفاق ہو چکاہے۔ ایک مرتبہ اندرون سندھ میں تعینات ایک بالکل نئے نئے اے ایس پی صاحب نے ایک دہشت گرد پکڑنے کا دعویٰ کیا اور ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اس دہشت گرد کے پچاس سے زائد بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا انکشاف بھی کرڈالا۔ دس بم دھماکے تو صرف اسلام آباد کے بتائے، اس زمانے میں اسلام آباد میں بم دھماکے ابھی عام نہیں ہوئے تھے۔ آئی جی سندھ سیّد کمال شاہ صاحب تھے۔ نہایت تجربہ کار افسر ہونے کے ساتھ ساتھ تفتیشی باریکیاں بھی سمجھتے تھے اور پورے صوبہ میں پولیس سے متعلق ہر اچھی بری خبر ان تک پہنچتی تھی۔ ان کو شک گزرا یا پھر کسی نے ان تک خبر پہنچائی کہ ملزم بے گناہ ہے ۔ اے ایس پی نیا افسر ہے ناتجربہ کاری کی وجہ سے یا پھر کسی ماتحت کی جھوٹی کہانی پر یقین کرکے یہ سب کررہا ہے۔ اکثر نئے افسروں کو کچھ پرانے گھاگ ماتحت کسی خاص مقصد کے تحت الٹی پڑھا دیتے ہیں ، ان کا مقصد ہوتا ہےاپنے نمبر بنانے کے لئے بے گناہ افراد پر تشدد کے ذریعے ناکردہ گناہ قبول کروانے سے لے کر ایک پارٹی سے پیسے لے کر دوسری مخالف پارٹی کو ناجائز مقدمات میں بند کروانا وغیرہ۔
آئی جی صاحب نے ملزم کو مزید تفتیش کے لئے اس وقت کے ڈی آئی جی سی آئی ڈی جاوید بخاری صاحب کے پاس بھجوادیا جو انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے ایک نہایت ہی تجربہ کار اور معتبر شہرت کے حامل پولیس افسر تھے۔ انہوں نے میری سربراہی میں ایک ٹیم تشکیل دے دی اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی تاکید بھی کی۔ جب ملزم کو لے کر اے ایس پی صاحب میرے پاس آئے تو ملزم اسٹریچر پر تھا۔ وحشیانہ تشدد کے باعث اس کا پورا جسم جگہ جگہ سے سوجا ہوا تھا۔ پاؤں کے ناخن بھی کھینچے گئے تھے۔ لگتا تھا بے دردی سے تشدد کیا گیا ہے۔ اے ایس پی صاحب نے بیس صفحات پر مشتمل ایک اینٹروگیشن رپورٹ میرے سامنے رکھ دی۔ ان کا اصرار تھا کہ یہ ملزم ایک کالعدم دہشت گرد تنظیم سے تعلق رکھتاہے اور پورے ملک میں درجنوں وارداتیں کرچکا ہے جن میں بم دھماکے اور قانون نافذ کرنے والوں کی ٹارگٹ کلنگ شامل ہیں۔
سر! یہ ڈرامہ کررہا ہے مکرباز ہے‘ میں نے خود اس سے پوچھ گوچھ کی ہے اوراس نے بغیر کسی سختی کے سب
کچھ خود اعتراف کیا ہے۔ ملزم چلنے سے قاصر تھا اور اسے اسٹریچر پر لایا گیا تھا۔
اے ایس پی صاحب کے ساتھ ایک تھانیدار بھی تھا جس نے اس ملزم کو گرفتار کیا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ ’’صاحب ہمارے پاس معتبر گواہ ہیں جن کی موجودگی میں اس سے دھماکہ خیز مواد ملا ہے آپ ان سے بھی تصدیق کرسکتے ہیں‘‘۔
میں اس پولیس کلچر کو اپنی سروس کے پہلے روز سے دیکھتا چلا آرہا تھا۔ مجھے اچھی طرح پتہ تھا کسی بھی کیس میں بے گناہوں کو گرفتار کرنے کے بعد سینکڑوں صفحات کی چارج شیٹ داخل کرکے جھوٹے گواہوں کی ایک لمبی چوڑی لسٹ عدالت کے روبرو پیش کرنا پولیس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
آپ لوگوں نے ملزم کے انکشافات کی کہیں سے تصدیق کروائی ہے؟۔ میرا سوال سن کر نوجوان افسر پریشان ہوگیا اور بے چینی سے تھانیدار کی طرف دیکھنے لگا جو کہ شکل سے ہی راشی ، ظالم اور نا اہل نظر آتا تھا لیکن بلا کی خود اعتمادی رکھتا تھا۔
سرآپ پہلے ملزم سے خود پوچھ گوچھ کرلیں وہ خود اعتراف کررہا ہے ایک ایک کارروائی اس نے خود بتائی ہے جناب۔
ابھی تک تو ان لوگوں نے ملزم کی بتائی ہوئی کسی بھی کارروائی کی تصدیق نہیں کروائی تھی لیکن ان کو پھر بھی یقین تھا کہ ملزم سوفیصد سچ بول رہاہے۔
بہرحال ملزم سے بات کرنے سے پہلے میں نےاس کے انکشافات کی تصدیق کروائی تو کسی ایک بھی واقعہ کی تصدیق نہ ہوسکی۔ اس زمانے میں اسلام آباد میں بم دھماکے ابھی عام نہیں ہوئے تھے۔ جبکہ ملزم دس بم دھماکے جن میں درجنوں لوگ ہلاک ہوئے کا انکشاف کررہا تھا۔ میں نے راولپنڈی میں تعینات ایس پی سی آئی ڈی راجہ بشارت کو فون کیا اور ملزم کے انکشافات کے بارے میں بتایا ۔ میری بات سن کر وہ پہلے تو خوب ہنسے پھر کہا کہ ’’خان صاحب جتنا مجھے علم ہے اتنا آپ کو بھی ہے جب سے اسلام آباد کا شہر آباد ہوا ہے اگر اس وقت سے بھی شروع کریں تو بھی اتنے بم دھماکے اب تک نہیں ہوئے جتنے آپ کا ملزم ایک سال میں بتارہا ہے‘‘ ۔ ایس پی راجہ بشارت پنجاب کے منجھے ہوئے پولیس افسر تھے جنہیں پنجاب میں دہشت گردی کے معاملات پر انسائیکلو پیڈیا سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے پھر بھی قانونی کاروائی پورے کرنے کے لیے پولیس ریکارڈ چیک کرنے کے بعد بتایا کہ ملزم کے انکشافات کے مطابق کسی بھی واقعہ کی تصدیق ممکن نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ واقعات ہوئے ہی نہیں۔ اس کے بعد میں نے ملزم کے انکشافات بابت لاہور کی تصدیق کے لیے ایس ایس پی سی آئی ڈی میجر نجم صاحب کو فون کیا لیکن یہاں بھی نتیجہ صفر نکلا اور کچھ بھی تصدیق نہ ہوسکی۔
یہ ساری بات چیت وغیرہ اے ایس پی اور تھانیدار کی موجودگی میں ہورہی تھی۔ دونوں کی پریشانی چہروں سے عیاں تھی۔ خصوصاً تھانیدار کے چہرے کا رنگ فق ہوچکا تھا۔ اب میں نے ان کی موجودگی میں ہی ملزم کو بلوایا۔ جب میں نے اس سے بات چیت شروع کی تو وہ پہلے ہی بہت بری حالت میں تھا اور ڈرا سہما ہوا لگ رہا تھا میرے سامنے بیٹھتے ہی وہ مشینی انداز میں درجنوں بم دھاکوں کا اعتراف کرنا شروع ہوگیا۔ مجھے اس پر بہت رحم آرہا تھا وہ بے چارہ تشدد کی تاب نہ لتے ہوئے طوطے کی طرح رٹایا ہوا سبق پڑھ رہا تھا۔ اے ایس پی صاحب کہنے لگے کہ ’’دیکھا آپ نے یہ خود اعتراف کررہا ہے‘‘۔ تھانیدار بھی ملزم کا رٹا ہوا اعتراف سن کر اب دوبارہ سے قدرے مطمئن نظر آرہا تھا۔ لیکن مجھے اندازہ ہوچکا تھا کہ اصل میں کیا معاملہ ہے، میں نے اب ملزم سے اکیلے میں بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ اے ایس پی صاحب اور ان کے تھانیدار کے دوسرے کمرے میں جانے کے بعد ملزم کو پانی اور چائے کی آفر کی جو اس نے ڈرتے ڈرتے قبول کرلی۔ میں نے اس سے اس کے انکشاف کردہ جرائم پر بات کرنے کے بجائے اس کی ذاتی زندگی کے مکمل حالات سننے میں اپنی دلچسپی ظاہر کی ، میرے دوستانہ رویے سے اب وہ کچھ پرسکون نظر آرہا تھا۔ اس نے اپنی کہانی بہت ہی عام سے انداز میں سنائی اور کچھ بھی خاص نہیں بتایا، میاں بیوی بچے اور اچھا کاروبار مطلب پرسکون زندگی۔ لیکن ابھی بھی اس کا مسلسل اصرار تھا کہ وہ ایک دہشتگرد تنظیم سے تعلق رکھتا ہے اور جو بھی جرائم اس نے بتائے ہیں وہ اس نے کئے ہیں۔ اس کا کہنا ہےتھا کہ ’’مجھے میرے کیے کی سزا ملنی چاہیے‘‘ اور یہ کہ ’’میرا ضمیر مجھ پر لعنت ملامت کررہا ہے اس لیے میں بغیر کسی خوف اور دباؤ کے سارے جرائم کا اعتراف کررہا ہوں‘‘۔
عشق میں مارے جانے والے دہشت گرد کی کہانی
لیکن اس کی آنکھیں اور اس کے چہرے کے تاثرات اس کے الفاظ کا ذرا سا بھی ساتھ نہیں دے پا رہے تھے۔ کیونکہ وہ جھوٹ بول رہا تھا۔ اس کے اعتراف کردہ جرائم کی کہانی بالکل بے ربط، بے تکی اور بے تال تھی کچھ بھی آپس میں نہیں ملتا تھا کوئی تسلسل نہیں تھا۔ ’’تم جھوٹ مت بولو‘ ڈرومت‘ تم پرکوئی دباؤ نہیں ہے، اگرتم بے گناہ ہو تو تمہارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا صرف سچ بولو‘‘۔ میری باتوں کا شاید تھوڑا سا اثرہورہا تھا اس پر اس نے پوچھا’’ کیا مجھے واپس انہی لوگوں کے ساتھ جانا ہے یا آپ لوگوں کے پاس رہوں گا‘‘۔ وہ اب بھی خوفزدہ تھا لیکن جب میں نے اسے یقین دلایا کہ اب وہ میرے پاس رہے گا اور اسے واپس نہیں بھیجا جائے گا اور اگر بے گناہ ہے تو اپنے گھر واپس جائے گا، لیکن سچ بولنا پڑے گا، صرف اورصرف سچ بولنے سے ہی اس کی مدد ہوسکتی ہے اگر وہ بے گناہ ہے تو۔۔۔ اس نے روتے سسکتے ہوئے اصل بات بتانا شروع کردی جو کچھ اس طرح سے تھی کہ اس کے کاروباری پارٹنر نے اختلافات کی بناء پرعلاقہ ایس ایچ او کے ساتھ ساز باز کرکے اسے پھنسایا ہے اور پولیس نے اسے اور اس کی پوری فیملی کو پکڑ کر اس کے گھر سے اسلحہ اور بارودی مواد کی برآمدگی دکھائی اورپولیس نے اس پر بے پناہ تشدد کے بعد اسے اس کے پورے خاندان سمیت مقدمات میں ملوث ہونے کی دھمکی دے کرایک جھوٹی کہانی رٹادی اور دہشت گرد بناکر اے ایس پی کے سامنے پیش کیا اور اس نے بھی اپنے خاندان کی بے عزتی اور تشدد سے بچانے کی خاطر ناکردہ گناہ قبول کرلئے ۔ اے ایس پی نے بھی اصل معاملے کی کھوج لگانے کے بجائے جو کہانی اسے مقامی پولیس افسر نے سنائی اسی پر یقین کرلیا ۔ ملزم نے بھی خوف کے مارے پولیس کی رٹی رٹائی کہانی سب کے سامنے پڑھنا شروع کردی۔ بد قسمتی سے اے ایس پی نے بھی صرف پریس کانفرنس اور اپنی کارکردگی دکھانے کے چکر میں ایک بدکردار اور راشی پولیس افسر کی باتوں پر یقین کرلیا تھا۔ اس پولیس افسر کو اس بے گناہ شہری کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کرنے کیلئے اسکے کاروباری پارٹنر کی طرف سے لاکھوں روپے رشوت دی گئی تھی۔
آئی جی صاحب کو ساری صورتِ حال سے آگاہ کیا گیا جنہوں نے متعلقہ ڈی آئی جی، ایس ایس پی اور اے ایس پی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور اس معاملے کی جانچ کیلئے ایک جے آئی ٹی بنوائی جس نے سارے معاملے کی صاف شفاف تفتیش کی اور ایک بے گنا شہری کو رہائی دلوائی جبکہ ذمہ دار پولیس والوں کو محکمانہ کاروائی کا سامنا کرنا پڑا۔
پولیس میں کالی بھیڑیں خاصی تعداد میں موجود ہیں جو اکثر اپنے ذاتی مقاصد کے لیے وردی کی حرمت کا سودا کرتے ہوئے بے گناہوں کے خلاف جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات قائم کرتے ہیں۔ بے قصور لوگوں کو غلط طریقے سے پھنسانے والے پولیس والوں کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی بھی کی جاتی ہے اور پولیس کے محکمہ میں دی جانیوالی سزاؤں کی شرح دوسرے محکموں سے کہیں زیادہ ہے ۔ تاہم بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ پولیس کسی شخص پر عائد اپنے الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے اور پھر عدالت سے وہ شخص بری ہوا ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد بھی خاصی ہے جو عدالتوں سے باعزت بری کیے گئے ہیں لیکن اس مرحلے تک پہنچنے میں ان کے کئی سال ضائع ہو گئے اوران پردہشت گرد یا جرائم پیشہ کا لیبل الگ چسپاں ہوگیا۔ ان کو اوران کے اہل خانہ کو اس دوران جن اذیتوں سے دوچار ہونا پڑا اس کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سلسلہ کہاں رکے گا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں