The news is by your side.

مہنگائی کےخلاف احتجاج کے ردعمل پر گزارشات

چند روز پہلے پہلی مرتبہ فروٹ بائیکاٹ کے حوالے سے نور الہدیٰ شاہ کا پیغام پڑھا تو زیادہ سنجیدہ لیے بغیر مزاحیہ انداز میں یہ سٹیٹس میسیج پوسٹ کر دیا کہ “نور الہدیٰ شاہ کا پیغام گردش کر رہا ہے کہ کھجور کے علاوہ تمام پھلوں کا بائیکاٹ کر دیں۔ جناب جان دیو غصہ تے رہن دیو دانشوری، روزہ تے پانی نال وی کھل جاندا اے کیوں کھجور لکھ روپے کلو کروانی جے”۔ ابھی اسے پوسٹ کیے چند گھنٹے ہی گزرے ہونگے کہ چند دوستوں کی طرف سے فروٹ بائیکاٹ مہم کے خلاف دُکھیاری پوسٹوں کا تانتا بندھ گیا۔ تاثر کچھ ایسا تھا کہ جیسے مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنے والے کوئی بڑے یزید ٹائپ لوگ ہیں جو غریب پھل فروش کا روزگار چھیننا چاہتے ہیں۔

اب پاکستان میں رہنے والے کس متوسط طبقے سے یہ حقیقت مخفی ہے کہ ہر روز بڑھتی مہنگائی ایک حقیقی اور سنجیدہ مسئلہ ہے اور متوسط طبقات کی قوت خرید دن بہ دن کم ہوتی چلی جا رہی ہے؟ دوستوں کا ردعمل غیر مناسب لگا تو سمجھانے کے لیے فیس بک لائیو ٹرانسمشن کا سہارا لیا اور تصویر کا زیادہ واضع رُخ دکھانے کی کوشش کی۔ ابھی لائیو ٹرانسمیشن ختم کر کے بیٹھا ہی تھا کہ عزیز من عمار مشہدی کی طرف سے ایک ڈرامہ ٹائپ کالم پر نظر ٹھہر گئی۔ لکھنے والا سوشل میڈیا کی حد تک کافی مانوس نام ہے۔ سو کچھ پہلے والوں کا دکھیہ پن اور اوپر سے یہ باقاعدہ ڈرامہ پڑھ کر سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ بائیکاٹ کی کال دینے والے کون سے دکانیں بند کروا رہے ہیں کہ اتنا اوور ری ایکٹ کیا جائے یا اتنی دھائی مچائی جائے؟ مطلب یہ خالصتاً ایک عوامی مسلہ ہے جو عوام الناس کی طرف سے ہی اٹھا ہے، بالکل اسی طرح جیسے نجی سکولوں کی فیسوں کی خلاف والدین اکٹھے ہوئے تھے، مگر افسوس ہم نا فنا کی ماری قوم اس مسئلے پر بھی اکٹھی نہ ہوسکی اور یہ جو اس سے بھی بدرجہا عام مسئلہ ہے اس پر بھی لوگوں کو مفت کی جزباتیت اور ہیرو پنتی کا شوق چڑھا ہوا ہے۔ بس یہی کچھ وجوہات تھیں اور مناسب سمجھا کہ ڈرامے بازی کا جواب لکھوں اور تھوڑا معاشرے میں بڑھتی ہوئی تہہ در تہہ معاشرتی، سماجی اور معاشی تقسیم کے بارے میں بھی کچھ بات کروں۔

لاہور میں تین چار میٹرو میکرو ہیں، ایک میاں منشا کا امپوریم مال ہے (جس کا دعوی ہے کہ وہ ایشیا کا سب سے بڑا مال ہے) ایک پیکیجز مال ہے (جس کا دعوی ہے کہ وہ امپوریم مال سے بھی دو گنا بڑا ہے) ایک گلبرگ لاہور میں حال ہی میں نئے اور جدید طرز تعمیر والے بڑے پلازے میں نئے سرے سے کُھلا الفتح سٹور ہے، جو ان  مالزکے سامنے اب غریب کریانہ سٹور لگنے لگا ہے۔ اوراچھے لیول کے ائیر کنڈیشنڈ سپرسٹورز توانگنت ہیں۔ سب پرمعیاری، مہنگی گراسری ملتی ہے۔ امراء وہاں جاتے ہیں، پھیری والے، ریڑھی والے اور سڑک کنارے ٹھیلے والے کے پاس نہیں رکتے، اپرمڈل کلاس بھی وہیں جاتی ہے، اس سے ذرا نیچے والے کبھی کبھار راستے میں کسی اربوں روپے کی سرکاری شاہراہ کو باپ کا مال سمجھے بیٹھے، بڑا سا اڈا لگائے پھل فروش کے  پاس رکتے ہیں۔ اور بہت مجبوری جلدی یا ایمرجینسی ہو تو کسی ریڑھی پر اچھے سجے پھل دیکھ کر بریک مارتے ہیں۔

اس سے ذرا نیچے بینک لیز پر حاصل کی گئی گاڑی والی ایک مڈل کلاس ہے جو کبھی ریڑھی والے کے پاس بھی رک جاتی ہے۔ اس سے بھی نیچے ایک اور مڈل کلاس ہے جو ذرا سی لوور مڈل کلاس ہے، یہ پرانی گاڑی والی ہے اور ان کی گاڑی ہر دوسرے ہفتے ورکشاپ میں کھڑی ملتی ہے۔ یہ محلے کے سبزی فروش اور چھابڑی فروش سے اکثر جھگڑا کرتے دکھتی ہے کہ ان کے لیے ہر وقت سستے بازاروں کے علاوہ سبزی پھل خریدنا آسان نہیں ہوتا۔ محلے کی سبزی کی دکان پر جب آلو چالیس روپے بکتا ہے تو وہی سستے بازار میں بیس روپے کلو بک رہا ہوتا ہے، یہی حالت پھل کی ہوتی ہے۔ ان کے بعد سیارہ ڈائجسٹ والوں کے نزدیک ایک انتہائی غیر اہم کلاس اور ہجوم شروع ہوتا ہے جو آج کل دو چار ہزار دے کر نیا موٹر سائیکل خرید لیتا ہے، پھر اسی طرح بالترتیب پرانے موٹر سائیکل والے اور پھر نئی  پرانی سائیکل والے شروع ہوتے ہیں (واضع رہے کہ آج کل پاکستان میں نئی بائیک نجی سکولوں کے بعض خاکروبوں کے پاس بھی ہوتی ہے)۔ اس جم غفیر کے بعد صرف وہی بچتے ہیں جو متوسط طبقات کے گھروں تک رسائی محض اس لیے رکھتے ہیں کہ وہاں چوکیدار کو دینے کے لیے پیسے نہیں ہوتے، سو وہ دروازہ کھٹکھٹا کر رمضان کی پہلی تاریخوں میں راشن مانگ لیتے ہیں۔ اور چونکہ سارے جہان کا درد اور خدا خوفی بھی اسی مڈل کلاس کے جگر میں ہوتی ہے، تو وہ اپنی تنگدستی کے باوجود خوف خدا میں یہ سب کچھ کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ پراڈو والا نہ شیشہ کھولتا ہے نہ وائپر والا اس کے قریب جاتا ہے۔ چوراہے پر کھڑےخواجہ سرا سے لیکر ٹونڈے، لنگڑے، اندھے، بہرے سب کو یہ سائنس معلوم ہے کہ بھیک صرف مڈل کلاس سے ملے گی۔ سو کوئی کسی پراڈو تو کیا نئے ماڈل کی ہنڈا اور کرولا کے پاس بھی نہیں جاتا۔ سو یہ وہ طبقہ ہے جو سستے بازار میں بھی بھیڑ کی شکل میں بچوں سمیت خیرات مانگ رہا ہوتا ہے۔

وہ ہجوم جو محنت کش ہے، جو محنت کر کے، نوکری کر کے کھاتا ہے، جو لو پیڈ ہے، جس کا گزارہ خدا خوفی کے بنا بھی نہیں ہوتا، جو بھیک بھی نہیں مانگ سکتا، آج وہ نوحہ کناں ہے۔ آج وہ مہنگائی کے خلاف احتجاج کا حصہ ہے جو سارا دن بارہ گھنٹے گرمی میں جل کر اپنے لیے، اپنے سے نسبتاً بہتر قرابتداروں کے برابر، اپنی اور اپنے بچوں کے زندگی کے تانے بانے بنتا رہتا ہے کہ شاید کچھ مہنگائی کم ہو تو اسکے بچوں کا معیار زندگی بھی اس سے بہتر

لوگوں کے قریب پہنچ سکے، وہ بھی اپنے اہل خانہ کی نظروں میں کچھ سربلندی پا سکے، وہ مہنگائی کے خلاف احتجاج کا حصہ ہے۔ مگر کیا کریں، ان غریب پرور دانشوروں کو پھل فروشوں کے سوا کوئی غریب، کوئی مظلوم نظر ہی نہیں آتا۔ کچھ گزارے لائق کامن سینس ہو تو جا کر کسی ریڑھی والے سے ہی ہوچھ لو کتنے کی دیہاڑی لگاتا ہے۔ جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ریڑھی پر مہنگا فروٹ بیچنے والے اور سستا بیچنے والے میں بھی بڑا فرق ہوتا ہے۔ مہنگے پھل بیچنے والا کچھ اور منافع کماتا ہے (ریڑھی پر مہنگا سامان بیچنے والا عمومی طور پر کسی مالدار کا کمیشن ایجنٹ ہی ہوتا ہے) اور ٹوٹی ہوئی ریڑھی پر انتہائی کم مارجن پر سستے موسمی پھل، سبزیاں، بیچنے والا غریب اپنے خون پسینے سے کچھ اور دیہاڑی کماتا ہے۔ یقیناً اس غریب پر کوئی بھی اعتراض نہیں کر رہا۔

مگر خواہ مخواہ دُکھیہ صاحبان دانش کا بیانیہ کچھ اس طرح ہے کہ، سبزی فروش سے بڑا مافیا آڑھتی ہے اسے پکڑو، یعنی آڑھتی سے بڑا مافیا اس سے بڑا سرمایہ دار پھر اس سے بڑا، ساتھ میں کارپوریشنیں، بلدیاتی ممبر، ان کے چئیرمین، تحصیل ڈسٹرکٹ چئیرمین، ایم پی اے، ایم این اے، منسٹر وزیر اعظم، سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ، دفع کرو احتجاج نو، مہنگائی دے خلاف احتجاج سامراج دی مدد اے۔ دنیا دے سارے غریب پھل سبزیاں ہی تے ویچدے نیں۔ باقی کلرک، چپڑاسی، آفس بوائے، بھٹہ مزدور، کارخانیاں دی لیبر، فورمین، فیکٹریاں دے نچلے درجے دے ملازمین، گھریلو ملازمین، تھوڑی تنخواہ والے سرکاری تے نجی ملازمین، دفع کرو اینھاں ساریاں نو لوور مڈل کلاس وی کوئی کلاس ہندی اے؟ ایہہ وہ کوئی بندے ہندے نیں؟ ایہہ وی بھلا کوئی غریب ہندے نیں؟ مٹی پاو جی احتجاج تے۔ فٹے منہ ساڈی دانش دا۔

سرکار سیارہ ڈائجسٹ میں کہانیاں لکھا کریں یا پھر کسی پاکستانی چینل کے لیے ڈرامے، کالم نگاری نہ لٹریچر ہے نہ ڈرامہ نگاری، یہ محض حقیقت نگاری ہے۔ باقی ’’ویاں چے بی دا جھگڑا پانا‘‘ تے ویسے وی ساڈی پرانی تے قومی عادت اے۔ مطلب کہیں کوئی غریب ٹھیلے والا اپنی ہی غلطی سے گاڑی والے سے ٹکرا جائے تو ہم سب گاڑی والے کو گھیرا ڈال کر کھڑے ہو جاتے ہیں کہ غریب کو ماردیا، کہیں کوئی جیب کترا جیب کاٹتے کسی کو زخمی کردے ہم بنا جانے کہ وہ کیا کر رہا تھا محض اس کے حلیے کو لے کر اس کی بے جا وکالت شروع کر دیتے ہیں۔ ہر غریب کو امام حسین اور ہر امیر کو یزید سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ ظالم کون اور مظلوم کون، کس نے زیادتی کی کون جھوٹ بول رہا ہے، ہمارے پاس حق شناسی کا ایک ہی میٹر ہے جو حیثیتوں سے کردار شناسی کرتا ہے۔ کوئی امرا کا میراثی بن کر فائدہ اٹھانا پسند کرتا ہے تو کسی کو جھوٹ سچ غلط درست دیکھے بنا چی گویرا بننے کا شوق ستاتا ہے۔

اکثریت پر ہمیں یاد آتا ہے کہ غزوہ بدر میں تین سو تیرہ مسلمان تھے اور کربلا میں بہتر شہدا تھے۔ ان کا اقلیت میں ہونا گویا حقانیت کا معیار بنا لیا گیا ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ اگر یہی معیار ہے تو ایسٹ انڈیا کمپنی بھی اقلیت تھی جس نے محض تین ہزار فوجیوں سے لاکھوں ہندوستانیوں کو شکست دی۔ سینکڑوں ہزاروں، لاکھوں بے گناہوں کا خون بہایا۔ دھرتی کا دفاع کرنے والے پورس کے مقابلے میں سکندر اعظم بھی اقلیت تھا۔ اور جتنے بھی بیرونی حملہ آور ہندوستان کو لوٹنے کی غرض سے تاریخ میں آتے رہے وہ سب کے سب مقامی آبادی کے مقابلے میں اقلیت ہی تھے۔ اور برائلر ٹائپ مسلم ریاستوں کے مقابلے اسرائیل بھی اقلیت ہی ہے۔ تو کہنے لکھنے کا مقصد محض اتنا ہے کہ حق اور سچائی کا معیار نہ تعداد ہے نہ امیری غریبی۔ سو جذباتی کلمات اور اپنی ڈرامہ تحریروں سے معاشرے کے محنت کش سے لے کر متوسط طبقہ کے سفید پوش تک کا استحصال مت کریں، آپ کی ان بیوقوفیوں کا فائدہ صرف اور صرف سرمایہ دار اور ناجائز منافع خورچور ٹائپ لوگوں کو ہی ہوگا۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں