The news is by your side.

ہم ہی نادان سہی ہم ہی خطا کار سہی

بات اتنی پرانی نہیں ۔ سوچا تو بہت کچھ تھا لیکن خیال خاطراحباب نے کرنے نہ دیا۔ شکوہ بھی یوں دل میں آیا کہ فیس بک پر جو نہ کہا جائے کم ہے۔منڈی میں سب کچھ تو نہ آپ کی ضرورت کا ہوتا ہے نہ پسند کا۔ ہم خود ایسے کون سے مجموعہ ٔصفات ہیں کہ کسی پر گراں نہ ہوں۔ افسوس اس لیے ہوا کہ آپ کچھ تعلیم یافتہ لوگوں سے ایک ذہنی شرافت اور شائستگی کےمعیار کی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔

کینیڈا کی ایک شاعرہ ہیں نامور ضرور ہیں بہت عرصہ ہوا محفل میں شریک ہیں،سب کی طرح ان کو بھی ’جمعہ مبارک‘ کے پیغامات موصول ہوتے تھے۔ بھیجنے والوں کی نیک نیتی پر شک نہیں کیا جاسکتا خواہ آپ سنڈے مبارک کا عقیدہ رکھتے ہوں۔ سلام کا جواب محلے کے جمعدار کوگالی سے کون دیتا ہے ۔ہم ہر روزآتے جاتےکسی ایکٹر فقیر کی دلدوزآہ و بکا برائےخیرات کو بھی تو نظر انداز کرتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں اس کی خون آلود پٹی بندھی ٹانگ پر ہلدی اور لال رنگ کے نیچے کچھ نہیں اور یہ شام کو رکشا پر بیٹھ کے گھر چلا جاتا ہے۔پھر جمعہ مبارک کہہ دینے والوں سے ایسی کیا برہمی کہ ان کے لیےانتہائی غیر شائستہ اور ایسے فحش الفاظ پر مشتمل زبان استعمال کی جائےجو پاکستان کیا کینیڈا اوریورپ کی مشہورفاحشائیں بھی استعمال نہیں کریں گی۔

ان کی ادب پرور سخن طرازی کے حلقے میں شامل عقیدت مندوں نے اس سے کیا اخذ کیا ہوگا؟ مقصود اس سے اپنی جراتِ’ مردانہ‘ کی تشہیر تھا تو بریں عقل و دانش بباید گریست۔ انہوں نے خیر سے دائرہِ اسلام کو بھی خیرباد نہیں کہا تو سوچ کی ایسی بے راہروی سے لبرل رسوا ہوتے ہیں ۔سیکیولر کا نام بدنام ہوتا ہے اب ان کی وہ عمر بھی نہیں کہ بقول غالب   ۔۔۔’’شوخی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر۔۔ کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی‘‘۔
ایک اور خاصے معقول ذہن رسا کے مالک دوست نے نہ جانے کس رو میں ان کا تمسخر اڑایا بلکہ انہیں ذلیل کرنے میں میں کسر کوئی نہیں چھوڑی جو دانستہ محض حصولِ شہرت اوربرانڈ بنانے کے لیے اپنا حلیہ مضحکہ خیز بناتے ہیں۔

لباس کی قلندرانہ وضع اور بد حالی بالوں کی مجذوبوں والی بے ترتیبی‘ جسم کی فقیرانہ غلاظت‘ اطوار و انداز گفتگو کا دانستہ انتشار سب ’ڈراما‘۔ حرج کچھ نہ ہوتا اگر اس کردار کشی میں ’جون ایلیا‘ کسی آئینے کے عکس کی طرح نظر نہ آتا۔ انہوں نے اس منفرد طرز سخن کے لاکھوں عقیدت مندوں کے جذبات کا خون کیااوراسی پر بس نہیں کی۔ انہوں نے اس پیغمبر ِسخن کی پرستش اور تقلید کرنے والے عصر حاضر کے شاعروں کی تذلیل میں کسر نہیں چھوڑی۔بے شک اس کے پیروکار ایسا کرتے ہیں‘ عقیدت میں‘  محبت  میں ‘ عزت میں۔

یہاں بھی انہوں نے ایسی لفاظی کی گولہ باری سے جس شاعر کو بطور ِہدف نمایاں کیا اسے کون سخن شناس نہیں جانتا۔  وہ فیصل آباد کا علی زریون ہے‘  یہ نام جون ایلیا کے بیٹے کا بھی ہے اور علی زریون بلا شبہ ’’ من تو شدم تو من شدی‘‘ کی تصویر ہے لیکن وہ ایکٹر نہیں ہے۔  وہ اپنے خیال کی ندرت اور پرواز کی وسعت میں ایک قادرالکلام شاعر ہے۔ کبھی دیکھئے اس کے حرف سخن کی پذیرائی  کا دائرہ از کجاست تا بہ کجاست۔ تمسخر اڑانے سے اس کی عظمت پرکیا حرف آئے گا۔

لیکن میں بتاؤں کہ’میر ‘اس تمسخر کا نشانہ بنا تھا جب اس نے کہا ’’کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو۔۔ ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے‘‘۔اور فقیرانہ انداز میں سونے پر کہا تھا۔’’ یہ ہاتھ سوگیا ہے سرہانے دھرے دھرے‘‘ تب کی بات چھوڑیں۔ میر بھی  کیا تھا؟ منٹو کے’تین گولے‘ والے خاکے سے کیا وہ پاگل نہیں لگتا لیکن وہ جدید شاعری کا امام‘ علم و ذہانت میں کیا نہیں تھا۔ ساغر صدیقی کو موصوف نے دیکھا ہی نہیں ہوگا شاید۔ہمہ وقت چرس کے نشے میں دھت ‘  لباس فقیری کی غلاظت اور جھاڑ جھنکاڑ بالوں سے دیوانہ نظر آنے والا‘ عدم کی بات لروں۔ اختر شیرانی کی‘ مجاز کی‘  وہ کسی طرح بھی فیض اور ن۔م۔راشد یا ابن انشا جیسے خوش پوش نہ تھے۔۔یا میں آئین اسٹائن جیسے عظیم سائنسداں کی  بات کروں جو نوبل پرائز وصول کرتے وقت دو طرح کے موزے پہنے ہوئےتھا۔  ایف ایم حسین کی بات کروں جو ننگے پاؤں دنیا گھومتا تھا حالانکہ اس کی ایک ایک پینٹنگ دس ہزر ڈالر میں بکتی تھی اور جس نے دو فلمیں بھی بنائی تھیںیا ایڈیسن کا حوالہ دوں جو انڈوں پر بیٹھا رہا کہ چوزے نکالے گا
یہ سب ڈرامے باز نہیں تھے۔ جینئس ایسے ہی ہوتے ہیں، پر ان کا تمسخر اڑانے والا کیا کہلائےگا؟ ۔

لیکن کیا ہو سکتا ہے جب جہالت کے مبلغ  دانشوری کی سند رکھتے ہوں اور اکثریت میں ہوں۔ خاتون پر بھی مدح و ستائش کے ڈونگرے برسے کہ کس درجہ جرات و جدیدیت ہے۔ شاعروں کی بھد اڑانے والے کو بھی واہ واہ کرنے والوں نے حق بجانب ثابت کیا۔ تو پھر ہم ہی از کار رفتہ آثار قدیمہ ۔ ہماری بات کیا کرنی!۔۔۔۔۔۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں